’اور میں انھیں گولی کس لیے ماروں؟ انھوں نے مجھے کبھی نِگر (سیاہ فام افراد کے لیے استعمال ہونے والا تضحیک آمیز لفظ) کہہ کر نہیں پکارا، مجھے کبھی پیٹا نہیں، کبھی میرے پیچھے کتے نہیں چھوڑے، کبھی مجھے میری شہریت سے محروم نہیں کیا، کبھی میری ماں کا ریپ نہیں کیا، کبھی میرے باپ کو قتل نہیں کیا۔۔۔ میں انھیں کس لیے گولی ماروں؟ میں کیسے غریب لوگوں کو گولی مار سکتا ہوں؟ مجھے جیل لے چلیں۔‘لیکن اپنے انٹرویو کے دو سال بعد باکسنگ کے ہیوی ویٹ چیمپیئن آسمانی رنگ کا لباس زیبِ تن کیے ایک ٹیکسی میں امریکی فوج کے بھرتی کے مرکز پہنچے اور انھیں صحافیوں نے گھیر لیا۔محمد علی ایک دلچسپ شخصیت تھے، چلتے پھرتے کہاوتیں دُہرایا کرتے تھے، کبھی باتیں بھی گُنگُنانے کے انداز میں کیا کرتے تھے اور اپنے خاص انداز میں اکثر باکسنگ رنگ میں مخالف باکسروں کو یہ بتا کر تنگ کیا کرتے تھے کہ وہ انھیں کیسے شکست دینے والے ہیں۔سنہ 1964 میں ہیوی ویٹ چیمپیئن شپ کے میچ سے قبل محمد علی نے کچھ اس طرح اپنی جیت کا اعلان پہلے ہی کر دیا تھا: ’یہ کیسیس کلے ہے، آج کی دُنیا کا سب سے خوبصورت باکسر۔ اس نوجوان باکسر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور ہیوی ویٹ چیمپیئن شپ اس کا مقدر ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.