القاعدہ نے 20 سال قبل یورپ میں سب سے بڑے حملے کے لیے سپین کا انتخاب کیوں کیا تھا؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, گلیرمو ڈی اولمو
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ
  • 47 منٹ قبل

یہ 11 مارچ 2024 کا دن تھا اور سپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں چلنے والی ٹرینوں میں مسافروں کا بے پناہ رش تھا۔ لیکن اِن ٹرینوں میں سوار سینکڑوں مسافر اِس بات سے بے خبر تھے کہ آج اُن کا سفر انھیں ایک ناقابلِ فراموش واقعے سے دوچار کرنے والا ہے۔اور کچھ ہی دیر بعد چار ٹرینوں میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں، پٹریوں پر پھیلی مسافروں کی درجنوں لاشوں اور ہنگامی حالات سے نمٹنے والے محکموں کے کارکنان کی زخمیوں کو سڑکوں پر ہی ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے مناظر نے نہ صرف سپین بلکہ پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔یہ بم دھماکے ایک ایسے گروہ نے کیے تھے جو اُسامہ بن لادن کی القاعدہ نامی شدت پسند تنظیم سے نظریاتی طور متاثر تھا۔ 11 مارچ کو ہونے والے اِن دھماکوں میں 192 افراد ہلاک اور 2000 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔اس حملے کے کچھ ہی دنوں بعد سپین کی پولیس نے اِن بم دھماکوں میں ملوث کچھ افراد کا سراغ لگا لیا۔ لیکن دارالحکومت میڈرڈ کے نواح میں جب پولیس ان افراد کے ٹھکانے تک پہنچی تو انھوں نے خود کو اپنے اپارٹمنٹ میں ایک دھماکے سے اُڑا لیا۔

اس حملے میں ملوث چند دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا اور بعدازاں انھیں قید کی لمبی سزائیں سُنائی گئی تھیں۔11 مارچ 2004 کو سپین میں ہونے والا دہشت گروں کا یہ حملہ رواں صدی میں یورپ کی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ تھا۔کرولا گارشیا کالوو سپین کے رائل ایلکانو انسٹٹیوٹ کے ’پروگرام آن وائلنٹ ریڈیکلآئزیشن اینڈ گلوبل ٹیررازم‘ سے منسلک ہیں۔ بی بی سی نے یورپ کی تاریخ کے سب سے بڑے دہشتگرد حملوں کو سمجھنے کے لیے اُن کے ساتھ رابطہ کیا۔کرولا کہتے ہیں کہ ہسپانوی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ان حملوں سے معلوم ہوا کہ دہشتگردی کے وہ خطرات جن پر عام لوگ توجہ نہیں دیتے تھے، وہ دراصل حقیقت پر مبنی تھے۔ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں سپین میں کچھ جہادی گروہوں کا خاتمہ کیا گیا تھا جن میں 1997 میں ختم ہونے والا ’آرمڈ اسلامک گروپ‘ یا پھر 2001 میں ایک آپریشن میں ایک دوسرے شدت پسند گروہ کے خلاف بڑی کارروائی شامل تھی۔وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ سپین میں جہادیوں کی موجودگی کے اشارے موجود تھے، لیکن ٹرینوں میں ہونے والے بم دھماکوں نے اچانک اس حقیقت کو سب کی آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesکرولا کہتے ہیں کہ 11 مارچ کو ہونے والے دھماکے اتنے بڑے اور بھیانک تھے کہ اس کے بعد پوری سرکاری مشینری کو اور معاشرے کو ایک نئے خطرے سے نمٹنے کی تیاری کرنی پڑی۔’اس وقت سے آج تک جہادی دہشتگردی ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔‘القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن سنہ 2011 میں پاکستان میں ایک امریکی کارروائی میں پلاک ہوئے تھے اور ماہرین کے مطابق القاعدہ آج اپنے ماضی کی طرح طاقتور نہیں رہی۔لیکن کرولا کہتے ہیں کہ امریکہ میں 11/9 کے بعد کوئی بھی اتنا بڑا حملہ نہیں ہوا۔ لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے باوجود دہشتگردی بہت پھیل چکی ہے اور ان کے پیروکاروں کی تعداد بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ان کے مطابق دہشتگردی سے سب سے کم لاطینی امریکہ متاثر ہوا تھا لیکن اب وہاں بھی ایسے افراد ہیں جنھوں نے لڑائی کے لیے شام جانے کا فیصلہ کیا تھا۔کرولا سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد القاعدہ کو اپنی حکمت عملی بدلنی پڑی اور اس نے اختیارات کو نچلی تنظیموں میں تقسیم کر دیا۔’اس کے بعد سے ہم کسی ایک القاعدہ کی بات نہیں کر سکتے جس کا کوئی مرکزی ڈھانچہ ہو بلکہ اب یہ فرنچائزوں میں بنٹی ہوئی ہے، ایسے لوگ ہیں جن کا تنظیم سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ پراپگنڈے سے متاثر ہیں۔‘میڈرڈ حملوں کے 20 برس بعد بھی لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ القاعدہ نے اتنے بڑے حملوں کے لیے سپین کا انتخاب ہی کیوں کیا؟اس حوالے سے متعدد آرا پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن ایک تحقیق کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ ٹرین پر حملوں کا منصوبہ ایک مراکشی شہری عامر عزیزی نے بنایا تھا۔عامر عزیزی ایک جہادی گروہ کے رُکن تھے جس کے خلاف ماضی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائیاں کی تھیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesعامر عزیزی انتقام لینا چاہتے تھے اور القاعدہ نے ان کے منصوبے کو حقیقت میں بدل دیا۔کرولا کے مطابق سپین نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا شاید اس لیے بھی القاعدہ نے میڈرڈ کو نشانہ بنایا۔انٹیلیجنس رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعدازاں عامر عزیزی امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔کرولا کہتے ہیں کہ ’میں القاعدہ کے زوال کی بات نہیں کروں گا کیونکہ میڈرڈ کے حملوں کے 20 برس بعد بھی یہ تنظیم کہیں غائب نہیں ہوئی ہے، ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تنظیم کمزور ہو گئی ہے۔‘لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ شام میں ابتدائی کامیابیوں اور پراپگنڈے کے سبب دولت اسلامیہ یورپی جہادیوں کی پسندیدہ تنظیم بن گئی تھی اور پھر لوگوں کی وفاداریاں تبدیل ہو گئیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم مستقبل میں بھی میڈرڈ حملوں جیسے واقعات کے امکان کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ دہشتگرد گروہوں کا مقصد ہی آپ کو ’سرپرائز‘ دینا ہوتا ہے اور ان گروہوں نے مغربی دنیا میں حملے کرنے کا ارادہ ابھی تک ترک نہیں کیا ہے۔لیکن ان کے مطابق برسوں سے جاری کارروائیوں کے سبب یورپ میں اب جہادیوں کا نیٹ ورک کمزور ہو چکا ہے اور پھر ان کی ایک بڑی تعداد دولت اسلامیہ کے لیے لڑنے کے لیے شام بھی چلی گئی تھی۔’وہاں ان جہادیوں کی بڑی تعداد یا تو گرفتار ہوئی یا پھر ہلاک۔‘کرولا کہتے ہیں کہ دہشتگردی کا خطرہ ابھی مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے۔ ’میں غزہ میں ہونے والے جنگ سے پریشان ہوں کیونکہ بین الاقوامی جہاد کے لیے فلسطین کا تنازع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔‘ان کے مطابق فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی تباہی ان گروہوں کے اعلان کردہ مقاصد میں سے ایک ہے۔’غزہ میں جاری تنازع میں اتنا دم ہے کہ اسے پراپگنڈے کے لیے استعمال کر کے اپنے ہمدردوں کو متحرک کیا جا سکے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}