الفائد پر الزامات: ’مجھے بطور سیکس پارٹنر بھرتی کیا گیا، انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا میں کنواری ہوں‘،تصویر کا ذریعہHANDOUT
،تصویر کا کیپشنشیناگ اس وقت 25 برس کی تھیں اور دبئی میں ایک بینک میں کام کر رہی تھیں جب ان کی الفائد سے پہلی ملاقات ہوئی
3 گھنٹے قبلبی بی سی سے مزید 65 خواتین نے رابطہ کر کے لگژری سٹور ’ہیرڈز‘ کے سابق ارب پتی مالک محمد الفائد پر جنسی ہراسانی، جنسی تشدد اور ریپ جیسے الزامات عائد کیے ہیں تاہم ان حالیہ الزامات میں سنہ 1977 کے واقعات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، جب الفائد ’ہیرڈز‘ کے مالک نہیں بنے تھے۔یہ تفصیلات بی بی سی کی دستاویزی فلم ’الفائد: پریڈیٹر ایٹ ہیرڈز‘ اور ایک پوڈ کاسٹ نشر ہونے کے ہفتوں بعد بھیجی گئی ہیں۔ان الزامات کے مطابق الفائد نے ان خواتین کو بھی جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جو ان کے کاروبار سے وابستہ نہیں تھیں۔بی بی سی کی طرف سے جن خواتین کا انٹرویو کیا گیا ان میں سے کئی نے الزام عائد کیا ہے کہ الفائد نے انھیں گھریلو کام کے لیے سٹاف میں بھرتی کرنے کے بہانے اُن کا جنسی استحصال کیا۔ الفائد نے ان خواتین کو آکسٹیڈ نامی علاقے میں اپنی رہائش گاہ پر بھی جنسی تشدد نشانہ بنایا۔

ایک خاتون کے مطابق الفائد نے سنہ 1977 میں دبئی میں انھیں جنسی تشدد نشانہ بنایا۔ خاتون کے مطابق الفائد نے خود ان کا پیچھا کیا اور انھیں ڈرایا دھمکایا۔ان 65 خواتین میں سے 37 کا کہنا ہے کہ وہ ’ہیرڈز‘ میں کام کرتی رہی ہیں۔بی بی سی کے سوالات کے جواب میں ہیرڈز نے ہمیں بتایا ہے کہ دستاویزی فلم نشر ہونے کے بعد سے اب تک 200 سے زائد افراد ایسے ہیں جن کے دعوؤں کے تصفیے کے لیے ہیرڈز اُن کے ساتھ کام کر رہا ہے۔بی بی سی نے اُن خواتین سے بھی بات کی ہے جو الفائد کے لیے کام نہیں کرتی تھیں۔ایک خاتون کے مطابق وہ 1980 کے ابتدائی اوائل میں 21 برس کی عمر میں لندن کی ایک پھولوں کی دکان پر کام کرتی تھیں، جب الفائد کی ٹیم میں سے کسی نے انھیں دیکھا۔ اس کے بعد خاتون کو پیرس رٹز ہوٹل میں انٹرویو کے لیے بھیجا گیا جہاں الفائد نے انھیں نشانہ بنایا۔بی بی سی کی ایک سابق میک اپ آرٹسٹ نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ الفائد نے انھیں سنہ 1989 میں اس وقت نشانہ بنایا جب وہ ’کلاتھس شو‘ کی ایک قسط کے لیے کام کر رہی تھیں، جس میں الفائد کا پیرس میں ان کی رہائشگاہ ’ولا ونڈسر‘ پر انٹرویو کیا گیا تھا۔انتباہ: اس تحریر میں شامل تفصیلات چند قارئین کے لے باعث تکلیف ہو سکتی ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’مجھے الفائد کی رہائشگاہ پر قیدی کی طرح رکھا گیا‘

مارگوٹ (فرضی نام) سنہ 1985 میں 19 برس کی تھیں جب انھوں نے ’دا لیڈی میگزین‘ میں چھپنے والے ایک اشتہار کے بعد سرے میں آیا کی ملازمت کے لیے اپلائی کیا۔ انھوں نے اپنی درخواست کے ستھ اپنی تصویر بھی جمع کروائی۔مارگوٹ جو پہلے بھی آیا کے طور پر کام کر چکی تھیں، یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ انھیں بہت عجیب لگا جب انٹرویو کے آخر میں ان سے پوچھا گیا کہ ’کیا ان کا کوئی بوائے فرینڈ ہے یا ماضی میں ان کا کوئی بوائے فرینڈ رہا ہے۔‘انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے جواب دیا نہیں جس کے بعد انٹرویو لینے والا شخص خاصا مطمئن نظر آیا۔‘اس کے بعد مارگوٹ کو نوکری کی پیشکش کی گئی اورانھیں بتایا گیا کہ انھیں الفائد اور ان کے خاندان کے ساتھ آکسٹیڈ میں’بیرو گرین کورٹ‘ مینشن میں کام کرنا ہو گا۔مارگوٹ کی والدہ نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ پہلے ایک ماہ وہاں کام کر کے دیکھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے اب بھی یاد ہے کہ لیموزین میں مجھے ’بیرو گرین کورٹ‘ کے انتہائی متاثر کن داخلی دروازوں اور طویل ڈرائیو وے کے ذریعے ایک بڑے گھر میں لے جایا گیا۔‘مارگوٹ کا کہنا ہے کہ اندر انھیں ایک چھوٹا سا، مدھم روشنی والا کمرہ دکھایا گیا، جس میں صرف ایک بیڈ، ایک میز اور ٹیلی فون تھا۔جلد ہی مارگوٹ کو اس فون کی گھنٹی سے ڈر لگنے لگا کیونکہ الفائد فون کر کے انھیں بلاتے تھے لیکن بچوں کی بجائے وہ الفائد کو اکیلا پاتیں۔ مارگوٹ کے مطابق یہاں سے ہی بار بار جنسی استحصال کا سلسلہ شروع ہوا۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس نوکری کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ الفائد کو آیا کی ضرورت نہیں تھی۔ اسے آیا نہیں چاہیے تھی۔‘مارگوٹ کے مطابق پانچ روز میں انھوں نے صرف دو بار ہی بچوں کو دیکھا اور انھیں ان کے ساتھ بات چیت کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔جب بھی الفائد انھیں بلاتے تو گھر کے مختلف حصوں جیسے پول، باغ اور پڑھائی کے کمرے میں ان کا جنسی استحصال کیا جاتا۔ وہ خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتیں۔مارگوٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب آپ ایک بار اس گھر میں چلے جاتے تو آپ باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ آپ کو باہر نکلنے کے لیے ایک لمبی ڈرائیو وے اور بڑے بڑے دروازوں سے گزرنا پڑتا اور ان دروازوں کو کھولنے کے لیے الفائد کی اجازت درکار ہوتی تھی۔‘

،تصویر کا کیپشنشیناگ نے اپنی کہانی سنانے کے لیے اپنی شناخت ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا
وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن صبح صبح الفائد ان کے کمرے میں آئے، ان کے بستر میں گھس گئے اور پھر انھیں دیوار کے ساتھ لگا کر ان کا ریپ کیا۔جیسے ہی وہ کمرے سے باہر گئے مارگوٹ نے اپنا سامان پیک کیا اور الفائد کو بتایا کہ وہ یہاں سے جانا چاہتی ہیں اور انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ یہاں کیوں ہیں لیکن الفائد نے انکار کر دیا اور کہا کہ ’وقت کے ساتھ ساتھ کام کی نوعیت زیادہ واضح ہو جائے گی۔‘الفائد نے مارگوٹ کو مزید 24 گھنٹے دینے کا کہا کیونکہ وہ انھیں گھر خرید کر دیں گے اور زیادہ پیسے بھی دیں گے۔ مارگوٹ کہتی ہیں کہ الفائد کو اس وقت بہت غصہ آیا جب انھوں نے دوبارہ کہا کہ وہ جانا چاہتی ہیں۔’میری مرضی کے بغیر مجھے ’بیرو گرین کورٹ‘ میں کئی دن تک ایک قیدی کی طرح رکھا گیا۔ میں اب بھی خود کو خوش قسمت محسوس کرتی ہوں کہ میں وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘وہ کہتی ہیں کہ آخر کار الفائد نے انھیں جانے دیا لیکن الفائد کے سٹاف میں شامل ایک فرد نے انھیں کسی کو کچھ بتانے سے منع کیا اور کہا کہ ’ورنہ ان کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔‘مارگوٹ کہتی ہیں کہ ’مجھے الفائد کے لیے کھیلنے کی ایک شے یا ممکنہ سیکس پارٹنر کے لیے بھرتی کیا گیا تھا کیونکہ انٹرویو کے دوران ان سے یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ کنواری ہیں۔‘’اس ہفتے کے دوران ہونے والے واقعات نے مجھے زندگی بھر متاثر کیا، میں نے لوگوں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا اور نہ ہی میں کبھی کسی پر اعتبار کر پاؤں گی۔‘بی بی سی نے مزید خواتین سے بھی بات کی، جن کا کہنا ہے کہ انھیں آیا، باورچی اور ملازمہ کے طور پر بھرتی کیا گیا تاہم الفائد کی نجی رہائشگاہوں پر ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ وہ خواتین یہ بھی کہتی ہیں کہ ملازمت پر پہنچنے پر انھیں پتہ چلتا کہ یہ نوکری تو ہے ہی نہیں اور انھیں بہانے سے بھرتی کیا گیا۔،تصویر کا ذریعہShutterstock
،تصویر کا کیپشنالفائد کی سرے میں رہائشگاہ

’الفائد میرا پیچھا کرتے اور مجھے دبوچ لیتے‘

جب الفائد کے خلاف الزامات منظر عام پر آئے تو شیناگ کی وہ یادیں تازہ ہو گئیں جنھیں وہ گذشتہ 47 برس سے بھلانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ انھوں نے اپنی کہانی سنانے کے لیے اپنا اصل نام ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں ان الزامات کی تاریخوں کے بارے میں سن رہی تھی لیکن میرے ساتھ جو ہوا وہ اس سے پہلے تھا۔ میں سوچتی ہوں کہ کیا آغاز مجھ سے ہوا تھا۔‘شیناگ اس وقت 25 برس کی تھیں اور دبئی میں ایک بینک میں کام کر رہی تھیں جب ان کی الفائد سے پہلی ملاقات ہوئی۔ شیناگ اپنے شوہر کی شعبہ تعمیرات میں ملازمت کے بعد دبئی منتقل ہوئی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ الفائد بطور کسٹمر ان کے بینک میں اکثر آیا کرتے تھے اور ایک نوکری کے لیے انھیں ملنے کی دعوت دینے سے پہلے انھوں نے شیناگ کی ذاتی زندگی اور کرئیر کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔شیناگ بتاتی ہیں کہ وہ الفائد کے دفتر میں ڈیسک کی دوسری جانب بیٹھی تھیں جب وہ چلتے ہوئے ان کے پیچھے آ گئے۔’میں جب مڑی تو ان کے ہاتھ میرے کندھوں پر تھے۔ ان کے ہاتھ ہر جگہ تھے۔‘شیناگ کہتی ہیں کہ الفائد نے ان کا جنسی استحصال کیا اور جب انھوں نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو ان کا راستہ روکا۔شیناگ نے الفائد کو تھپڑ مارا اور وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں لیکن الفائد نے انھیں کہا کہ ’تمھیں اس کا پچھتاوا ہو گا۔‘شیناگ کہتی ہیں کہ ’الفائد نے باقاعدگی سے ان کا پیچھا کیا، کبھی وہ ان کے دفتر پہنچ جاتے، کبھی سپر مارکیٹ تو کبھی سوشل کلب۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ہر وقت خطرہ وہاں موجود تھا۔‘ایک موقع پر الفائد نے انھیں یہ بھی کہا کہ ’میں نے خبردار کیا تھا کہ تم پچھتاؤ گی۔ کیا تم نے نوٹس کیا کہ میں ہمیشہ یہاں ہوتا ہوں۔‘شیناگ کا کہنا ہے کہ ایسا تقریباً 20 بار ہوا اور کچھ مواقع پر الفائد نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے انھیں دبوچ لیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں دعا کرتی رہتی کہ کوئی ایسا ہوتے ہوئے دیکھ لے اور کچھ کرے۔‘شیناگ کہتی ہیں کہ یہ ایک حوفناک تجربہ تھا یہاں تک کہ الفائد غائب ہو گئے۔ پھر انھیں پتہ چلا کہ وہ دبئی چھوڑ کر جا چکے ہیں جس پر شیناگ نے سکھ کا سانس لیا۔سنہ 2015 میں جب شیناگ کے شوہر (جو اب زندہ نہیں) کی طبیعت بگڑنے لگی تو انھوں نے اس بارے میں انھیں بتایا۔’میں نے انھیں اس لیے بتایا کیونکہ وہ اپنی زندگی کے اختتام کی جانب بڑھ رہے تھے اور مجھے محسوس ہوا کہ انھیں اس بارے میں علم ہونا چاہیے کیونکہ صرف ایک یہ ہی بات تھی جو میں نے ان سے چھپائی تھی۔‘شیناگ کہتی ہیں کہ ان کے ساتھ جو بھی ہوا وہ اس بارے میں غصہ محسوس کرتی ہیں اور انھیں اس بات کا بہت پچھتاوا ہے کہ الفائد کے مرنے سے پہلے وہ اس بارے میں بات کرنے کے لیے سامنے کیوں نہیں آئیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}