بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

الطاف حسین کے خلاف مقدمہ، استغاثہ کی جانب سے شہادتیں پیش کرنے کا سلسلہ شروع

الطاف حسین کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کا مقدمہ، استغاثہ کی جانب سے شہادتیں پیش کرنے کا سلسلہ جاری

ایم کیو ایم

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن سروس نے جمعرات کے روز کینزنگٹن کراؤن کورٹ کی بارہ رکنی جیوری کے سامنے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کے مقدمے میں شہادتیں پیش کرنی شروع دی ہیں۔

برطانیہ میں مقیم الطاف حسین کے خلاف 22 اگست 2016 کو لندن سے ٹیلیفون کے ذریعے پاکستان میں اپنے پارٹی کارکنوں سے خطاب کے دوران لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

اس تقریر میں الطاف حسین نے مبینہ طور پر پاکستان کے خلاف نعرے بلند کیے تھے اور اپنے حامیوں کو کراچی رینجرز کے ہیڈکوارٹرز کے علاوہ اے آر وائی اور جیو کے دفاتر پر حملے کرنے کے لیے اکسایا تھا۔

وکیلِ استغاثہ نے بارہ رکنی جیوری کو بتایا کہ الطاف حسین نے 22 اگست 2016 کو دو تقاریر کیں۔

استغاثہ کے مطابق الطاف حسین نے صبح اپنی پارٹی کے رہنماؤں کے سامنے تقریر کی۔ جیوری کو بتایا گیا کہ 22 اگست 2016 کی شام الطاف حسین نے ایک گھنٹہ چالیس منٹ تک جاری رہنے والی تقریر میں ’پاکستان مردہ باد‘ کا نعرہ بلند کیا۔ ان کے حامیوں نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے وہی الفاظ دہرائے۔

استغاثہ کے وکیل نے جیوری کو بتایا کہ جب الطاف حسین نے یہ تقریر کی تو وہ اس وقت ایم کیو ایم کے سربراہ تھے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ الطاف حسین کی تقریروں کا مقصد کراچی میں لوگوں کو اشتعال دلانا تھا۔ الطاف حسین نے پہلی تقریر میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ وہ ایک چاہتے ہیں کہ پانچ سے دس لاکھ لوگ کراچی پریس کلب کے باہر جمع ہوں جہاں ایک بھوک ہڑتال کیمپ لگایا گیا تھا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ الطاف حسین لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو کراچی میں پاکستان رینجرز کے ہیڈکوارٹرز بھیجنا چاہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

استغاثہ کے مطابق الطاف حسین نے اپنے حامیوں کو دو میڈیا ہاوسز، اے آر وائی اور جیو کے دفاتر میں جا کر ان کے آپریشنز کو بند کروانے تلقین کی تھی جنھوں نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک حکم کی روشنی میں الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنا بند کر دی تھیں۔

رینجرز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی کے پیش نظر کراچی کے علاقے عزیزآباد میں واقع جماعت کے مرکزی دفتر نائن زیرو کو سیل کر دیا گیا تھا

استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ جب پاکستان رینجرز نے 2015 میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا تو اس سے ایم کیو ایم دباؤ میں آئی۔

استغاثہ نے الطاف حسین کی تقریر کے بعد کراچی میں پھیلنے والی بدامنی کی ویڈیو فوٹیج بھی عدالت کو دکھائی جس میں ایک شخص ہلاک اور کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔

استغاثہ نے جیوری کو بتایا کہ الطاف حسین نے متنازع تقریر کے بعد ٹوئٹر کے ذریعے پاکستان کے خلاف نعرے بلند کرنے پر معافی طلب کی۔

الطاف حسین نے کہا: ‘میں اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے معافی مانگتا ہوں۔ میں دباؤ میں تھا۔ میں اپنے ادا کیے ہوئے الفاظ پر شرمندہ ہوں۔”

استغاثہ کے وکیل نے کہا کہ الطاف حسین کی جانب سے معافی اس بات کی تصدیق ہے جو انھوں نے ایک روز کی تھی۔

مقدمے کی کارروائی جمعے کو بھی جاری رہے گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.