الطاف حسین نے کارکنوں کو میڈیا ہاؤسز اور رینجرز کے دفاتر پر دھاوا بولنے کا حکم دیا تھا، برطانوی عدالت کے سامنے بیان
- رفاقت علی
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
اکتیس جنوری 2022 کو الطاف حسین لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ آمد پر اپنے حامیوں کو ہاتھ ہلا رہے ہیں
ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے مقدمے کی سماعت کرنے والی لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ کو منگل کے روز بتایا گیا کہ ملزم الطاف حسین نے 22 اگست 2016 کو اپنی پارٹی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے انھیں سندھ رینجرز کے ہیڈکوارٹرز اور تین میڈیا ہاؤسز کے دفاتر پر دھاوا بولنے پر اکسایا تھا۔
کراؤن کورٹ کی 12 رکنی جیوری کو بتایا گیا کہ کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ کے پاس جمع لوگوں سے الطاف حسین نے پوچھا: ’کیا تم تیار ہو۔‘
جب کارکنوں کی جانب سے آواز آئی ’بھائی ہم آپ کے اشارے کے منتظر ہیں،‘ تو الطاف حسین نے کہا: ’بسم اللہ، بسم اللہ، بسم اللہ۔‘
جیوری کو بتایا گیا کہ ملزم الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کو آخری نصحیت کی: ’کام اچھے طریقے سے کرنا، ایک دوسرے کا خیال رکھنا، ساتھیوں کو چھوڑ کر بھاگ نہیں جانا۔‘
برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف 22 اگست 2016 کو لندن سے خطاب کے ذریعے لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں دہشتگردی ایکٹ 2006 کی دفعہ 1 (2) کے تحت مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔
استغاثہ نے منگل کے روز الطاف حسین کے خلاف اپنی شہادت اور میٹروپولیٹن پولیس کے انسدادِ دہشتگردی شعبے کے تفتیشی افسر پر جرح مکمل کر لی۔
الطاف حسین کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ کارروائی کے روز چھٹے روز جب عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو جیوری کو الطاف حسین کی تقریباً ایک گھنٹے جاری رہنے والی تقریر سنائی گئی۔
ملزم الطاف حسین روزانہ عدالتی کارروائی کے موقع پر عدالت میں موجود ہوتے ہیں۔
الطاف حسین لندن سے اپنے خطاب میں پارٹی کارکنوں سے سوال بھی کرتے ہیں اور ان کی باتیں بھی سنتے ہیں۔
جیوری کو سنایا گیا کہ ایک عورت الطاف حسین کو یہ مشورہ دیتی سنائی دیتی ہے: ’بھائی ہمیں پہلے نواز شریف (اس وقت کے وزیر اعظم) کو مارنا ہو گا۔‘ الطاف حسین نے پارٹی کارکن کے مشورے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
جیوری کو سنایا گیا کہ الطاف حسین کی تقریر کے دروان ان کے پارٹی کارکن بار بار کہتے ہیں: ’بھائی ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘
الطاف حسین پر الزام ہے کہ انھوں نے 22 اگست 2016 کے اپنے خطاب اپنے کارکنوں کو رینجرز ہیڈکوارٹر اور تین نجی ٹیلیوژن چینلز کے دفاتر پر دھاوا بولنے پر اکسایا تھا۔
جیوری کو بتایا گیا کہ الطاف حسین نے پاکستان میں اپنے پارٹی کارکنوں سے پوچھا کہ کیا لوگ پنڈال سے باہر بھی موجود ہیں۔ الطاف حسین کو یقین دہانی کروائی گئی کہ کارکنوں کی بڑی تعداد کراچی پریس کلب کے پاس جمع ہے۔
اس موقع پر پارٹی کا ایک کارکن جس کے ہاتھ میں مائیکرو فون ہے، وہ اردو کا ایک شعر پڑھتا ہے:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑا ہی ہے
عدالت میں وہ ویڈیو فوٹیج دکھائی جس میں ایم کیو ایم کے کارکن مدینہ سٹی مال میں واقع اے آر وائے کے دفتر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
جیوری کو دو جلی ہوئی گاڑیاں دکھائی گئیں جنھیں مشتعل ہجوم نے نذر آتش کر دیا تھا۔ اس ہنگامہ آرائی میں ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔
کراؤن کورٹ کی جیوری کو 22 اگست 2016 کے واقعے کے ایک روز بعد الطاف حسین کی کراچی کے میئر وسیم اختر سے ہونے والی بات چیت کی معلومات فراہم کی گئیں۔
الطاف حسین 23 اگست کو وسیم اختر سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پانچ کروڑ لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی جماعت کے سات سینیٹرز، 25 ممبران قومی اسمبلی اور 50 ممبران صوبائی اسمبلی ہیں لیکن اُنھیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے نزدیک ہونے والی ہنگامہ آرائی کے مناظر
جیوری کو بتایا گیا کہ الطاف حسین نے اے آر وائے کے سربراہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن (اے آر وائے کے سربراہ) سے بات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ فون نہیں اٹھا رہے۔
جیوری کو بتایا کہ الطاف حسین کو شکوہ تھا کہ اے آر وائے پر کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ الطاف حسین ایک شرابی ہے۔
الطاف حسین نے کہا ’مجھے بتاؤ پاکستان میں کون شراب نہیں پیتا، میری کردار کشی کیوں کی جا رہی ہے۔‘
استغاثہ نے جیوری کو بتایا کہ الطاف حسین نے پارٹی ورکر واسع جلیل کے ذریعے ٹوئٹر پر ایک معافی نامہ جاری کیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ الطاف حسین نے متنازع تقریر کے اگلے روز جاری ہونے والے معافی نامے میں کہا کہ وہ پارٹی کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کی وجہ بہت ذہنی دباؤ میں تھے اور وہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز سے معافی مانگتے ہیں۔
جیوری کو بتایا گیا کہ الطاف حسین نے کہا کہ انھیں ’پاکستان مردہ باد‘ کہنے پر شرمندگی ہے اور وہ آئندہ کبھی یہ الفاظ نہیں دہرائیں گے۔
الطاف حسین نے پاکستانی حکام سے اپیل کی کہ ان کی جماعت کو سیاست سے دور نہ کیا جائے۔
جیوری کو بتایا کہ جب میٹروپولیٹن پولیس کے تفتیشی افسران نے 11 اور 12 جون 2019 کو ملزم الطاف حسین کا انٹرویو کیا تو الطاف حسین نے کہا کہ وہ 22 اگست 2016 کی تقریر میں ’پاکستان مردہ باد‘ کے نعرے علاوہ اپنی ہر بات پر قائم ہیں۔
مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔
Comments are closed.