السلط: سلطنت عثمانیہ کے دور میں بسایا گیا قصبہ جو مذہبی رواداری اور مہمان نوازی کی روایت کا امین ہے
- مارٹا وِڈال
- بی بی سی ٹریول کے لیے
فجر کی اذان کی آواز خوابیدہ وادی میں گونجنے لگی اور اس کے تھوڑی ہی دیر بعد سورج کی پہلی کرنوں نے تین پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر سنہری چونے کے پتھروں سے بنے مکانات کو منور کرنا شروع کر دیا تھا۔
شہر کے گنبدوں سے موذّن کی آواز بلند ہوئی، ’اللہ اکبر‘۔ ناہموار زمین پر ایک حسین نقش کی طرح چمکتے ہوئے میناروں کے لاؤڈ سپکیروں سے حئیّ علی الصلوٰۃ’ (نماز کی طرف آؤ)، کی آواز بلند ہو رہی تھی۔
چند لمحوں بعد شہر کی بل کھاتی ہوئی سڑکیں کلیسا (چرچ) کی گھنٹیوں کی آواز سے گونج اٹھیں جو صبح کے اجتماع کا اعلان کرتی ہیں۔
ہم ’السلط‘ میں تھے جو اقوام متحدہ کی سائنس اور ثقافت کی تنظیم یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہونے والا مشرقِ وسطیٰ کا سب سے نیا شہر ہے۔ اُردن کے اس چھوٹے سے شہر کو جہاں مسجد اور کلیسا کے مینار ایک دوسرے کے ساتھ باہم آسمان کی جانب بلند نظر آتے ہیں، اسے ’رواداری اور شہری مہمان نوازی کی جگہ‘ قرار دیا گیا ہے۔
بحیرہ روم اور جزیرہ نما عرب کے درمیان تجارت اور سیاحت کے سنگم پر واقع السلط انیسویں صدی کے آخر میں سلطنت عثمانیہ کو ’جدید بنانے‘ کے لیے اصلاحات کے دور میں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے شہر کے طور پر اُبھرا۔
شہر کے تاریخی مرکز میں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں تعمیر ہوئی چونے کے پتھر کی سینکڑوں عمارتیں، محراب والے دروازے، تراشے گئے ستون اور اونچی اونچی کھڑکیاں دھوپ میں چمکتی نظر آتی ہیں۔
طاہرہ عربیات اپنی دکان میں سکارف پر کڑھائی کر رہی ہیں
مقامی خواتین کو روایتی کڑھائی کے کام کی تربیت دیتی طاہرہ عربیات نے میرے لیے الائچی والی خوشبودار کافی کا کپ انڈیلتے ہوئے کہا کہ ’پیلے پتھر کی عمارتیں اہم ہیں، لیکن صرف ان کی وجہ سے السلط منفرد نہیں ہے۔‘
ہم شہر کے وسط میں اُن کی چھوٹی سی دکان پر کڑھائی والے لباسوں اور سکارفس میں گھرے بیٹھے تھے، جہاں میں نے پہلی بار اُنھیں ایک روایتی اردنی سکارف ’شماغ‘ کی جھالر کی سلائی کرتے ہوئے دیکھا۔ اُنھوں نے مجھے اپنے آبائی شہر کے بارے میں مزید بتانے کے لیے اپنا کام روک دیا۔
یہ بھی پڑھیے
عربیات نے دوسری بار میرا کپ بھرنے کے بعد کہا ’اس شہر کو اصل میں جو بات منفرد اور خاص بناتی ہے وہ یہاں کے باسی اور ان کی فراخدلی ہے۔‘ اُنھوں نے پھر مجھ سے پوچھا کہ ’کیا آپ نے ناشتہ کیا ہے؟ آئیں میرے ساتھ کھانا کھائیں۔‘
شہر کی گھومتی ہوئی سڑکوں اور تنگ گلیوں میں گھومتے پھرتے مجھے دوپہر کے کھانے، کافی یا چائے کی بار بار دعوتیں موصول ہوئیں۔ مہمان نوازی اور اِس مہمان نوازی کی ثقافتی روایات السلط میں گہری جڑیں رکھتی ہیں۔
صدیوں سے یہ شہر یروشلم، دمشق، بغداد یا مکہ جانے والے تاجروں اور زائرین کے لیے ایک اہم پڑاؤ تھا۔ یہاں کے باسی آنے والے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے اور اُنھیں کھانا اور رہائش فراہم کرتے۔
19ویں صدی میں السلط خطے کا انتظامی ہیڈکوارٹر بن گیا جس سے مختلف مذہبی اور ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے تاجر اس کی جانب راغب ہوئے۔ بہت سے لوگوں نے پہاڑی قصبے میں آباد ہو کر محلے اور رہائشی علاقے ترتیب دیے، جن میں مقامی بدّو قبائل اور خطہ شام و عراق سے تعلق رکھنے والے تاجروں اور کاریگروں کے ساتھ گھل مل گئے۔
السلط میں تقریباً 650 نمایاں تاریخی عمارتیں ہیں جو یورپ اور عثمانیہ دور کی طرز تعمیر کے حسین امتزاج کے نمونے پیش کرتی ہیں
اردن کے 12 صوبوں میں سے ایک بلقا نامی صوبے کے سابق ڈائریکٹر سیاحت ایمن ابو رومان نے کہا کہ ’السلط مشرق اور مغرب کے درمیان، صحرا اور شہری مراکز کے درمیان ایک سنگم بن گیا‘۔ اُن کے مطابق شہر کا یہ تنوع اس کے فنِ تعمیر میں جھلکتا ہے۔
اس شہر میں عثمانی طرز، یورپی اثرات اور مقامی روایات کے امتزاج کی بہترین مثال ابو جابر ہاؤس ہو سکتا ہے جو مقامی چونے کے پتھر سے بنایا گیا ہے مگر جس کی چھتوں پر اطالوی فریسکو سٹائل کے نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔
انیسویں صدی کے اواخر کے یورپی آرٹ ’نووو‘ کی طرز پر رنگین شیشوں کی کھڑکیاں، آرائشی ستون اور شام کی مقامی سرامک ٹائلز سے بنا ہوا گھر خوبصورت فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ یہ گھر ایک امیر تاجر خاندان ابو جابر کا تھا جو انیسویں صدی کے آخر میں السلط میں آباد ہوا تھا۔
سنہ 2009 میں اس گھر کو ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا جو اب آنے والوں کو عثمانی قصبے کی تاریخ اور روایات سے آشنا کرواتا ہے۔
جب عمان کو سنہ 1928 میں امارتِ شرق الاُردن (ٹرانس جارڈن) کا دارالحکومت منتخب کیا گیا تو السلط نے اپنی علاقائی اہمیت کھو دی۔ عمان کے نئے شہر کی بہت زیادہ تعمیر و ترقی کے باوجود السلط اپنے تاریخی کردار کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست کے لیے شہر کی نامزدگی کی فائل تیار کرنے والے اردنی ماہر تعمیرات رامی ظاہر کے لیے یہ شہر نہ صرف چونا پتھر کی تاریخی عمارتوں کی وجہ سے منفرد ہے بلکہ اس وجہ سے بھی کہ اس نے صدیوں سے مہمان نوازی اور رواداری کی روایات کو محفوظ رکھا ہے۔
السلط کے شہری اپنے گھروں کے باہر ایک صوفہ رکھ دیتے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ اپنا مقبول کھیل ‘منقلہ’ کھیلتے ہیں۔
رامی ظاہر کہتے ہیں کہ ’شہر کی جغرافیائی شکل و صورت نے برادری اور قربت کے احساس کو فروغ دیا ہے۔ پڑوسی ایک دوسرے کے بہت قریب رہتے ہیں اور بہت سے مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔‘
باہم جڑی ہوئی سیڑھیوں، مشترکہ صحنوں اور چوراہوں کے نیٹ ورک نے ایک روادار، کثیر العقیدہ معاشرے کی ترقی کی حوصلہ افزائی کی ہے اور مشترکہ جگہ سے تعلق کا احساس دلایا ہے۔ زیادہ تر روایتی عمارتوں میں اجتماعی صحن یا چھتیں ہیں جہاں پڑوسی ایک ساتھ کھانا پکا سکتے ہیں، کھا سکتے ہیں اور پی سکتے ہیں۔
مزید پڑھیے
جب ہم ابو جابر میوزیم کے ایک کمرے میں شہر کے پہاڑوں کے خوبصورت نظارے کے ساتھ بیٹھے تھے تو ابو رومان نے کہا کہ ’یہاں لوگ اب بھی ایسے رہتے ہیں جیسے وہ ایک ہی خاندان کا حصہ ہیں، ان کے درمیان کوئی علیحدگی نہیں ہے۔‘
اُنھوں نے عجائب گھر کے سامنے والے چوک کی طرف اشارہ کیا، جہاں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے بزرگ ہر روز بیکگیمون اور منقلہ کھیلتے ہوئے ملتے ہیں، یہ ایک قدیم بورڈ گیم ہے جسے عثمانیوں نے مشہور کیا تھا۔ پھر اُنھوں نے سامنے والی مسجد اور کلیسا کی طرف اشارہ کیا۔
’شارع حمام‘ ایک چھوٹی سے پُرہجوم گلی ہے، اسے یہ نام ترک حماموں کی وجہ سے دیا گیا تھا
اُنھوں نے کہا کہ ’کلیسا کا رُخ مسجد کی طرف ہے اور ان کا ایک ہی داخلی دروازہ ہے۔ مسلمان اور مسیحی ایک دوسرے کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ اپنی چیزیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بانٹتے ہیں۔‘
یہ میل جول کا ماحول شہر کے قدیم ترین چرچ میں شاید سب سے زیادہ واضح ہے۔ یہ کلیسا سنہ 1682 میں ایک غار کے ارد گرد تعمیر کیا گیا جہاں کہا جاتا ہے کہ ایک چرواہے نے سینٹ جارج کو دیکھا تھا۔ اس کلیسا کو عربی میں الخضر کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ ایک اسلامی شخصیت ہیں جو اس علاقے میں مسیحی عقائد کے لحاظ سے سینٹ جارج ہیں۔
کلیسا کی پتھر سے بنی اندرونی محرابیں شبیہوں اور موزیک سے بھری ہوئی ہیں جن میں سینٹ جارج کو بلاؤں کو مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ غار کے باقی رہ گئے حصوں پر آنے والے افراد موم بتیاں روشن کرتے ہیں اور ہاتھ سے لکھے ہوئے اپنی دعاؤں کے عریضے چھوڑتے ہیں۔
مقامی آرتھوڈوکس چرچ ڈورمیشن آف ورجن میری میں کام کرنے والی صابرین دبابنہ کہتی ہیں کہ ’اس جگہ مسلمان او ر مسیحی دونوں دعائیں مانگنے جاتے ہیں، یہاں سب کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔‘
دبابنہ نے مجھے بتایا کہ یہ بین المذاہب ہم آہنگی ہی السلط کو خاص اور بہت منفرد بناتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’چرچ کا منتظم علی، جو میرے ساتھ کام کرتا ہے، ایک مسلمان ہیں۔ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہم یہاں بہن بھائی کی طرح رہتے ہیں۔‘
Comments are closed.