اقلیتوں کی لڑائی لڑنے والی منہنی سی مگر ‘کراری آواز’ والے صبغت اللہ قادری
- ثقلین امام
- بی بی سی اردو سروس
برطانیہ کے پہلے پاکستانی نژاد اور پہلے مسلمان کوئینز کونسل بیرسٹر صبغت اللہ قادری دو نومبر کو لندن میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ وہ دو برس سے زائد عرصے تک کینسر سے لڑتے رہے۔
اپنی بیماری کے باوجود صبغت اللہ قادری نے اپنے ساتھیوں کی مدد کرنے کی سرگرمیوں میں کبھی کمی نہیں آنے دی۔ لندن میں نہ صرف پاکستانی کمیونٹی اور مسلمان حلقے ان کے سوگواروں میں شامل ہیں بلکہ سیاہ فام کمینوٹیز کی وکلا برادری بھی غمگین ہے۔
انھوں نے جہاں بھی زندگی بسر کی کمزور طبقات کی خدمت کی۔ وہ پہلے غیر سفید فام وکیل تھے جنھیں لندن کی سفید فام وکلا برادری نے بھی بڑے بڑے اعزازات سے نوازا۔
بے نظیر بھٹو کے ساتھ آخری سفر
یہاں برطانیہ میں بھی جب تک زندہ رہے آخر تک متحرک رہے ایشیائی اور سیاہ فام کمیونٹی کے لیے بڑی جدوجہد کی۔ پاکستانیوں اور کشمیر کمیونٹی کے لیے دوہری شہریت کے لیے سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو قائل کیا۔ اور بلآخر پاکستانی کمیونٹی کو دوہری شہریت کا حق دلوانے میں کامیاب ہو گئے۔
پیپلز پارٹی کی مرحوم رہنما اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو ذاتی طور پر قادری صاحب کی جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی معترف تھی اور جب وہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان جا رہی تھی تو قادری صاحب بھی اٹھارہ اکتوبر 2007 کی فلائٹ میں ان کے ہمراہ شریک سفر تھے۔
بے نظیر بھٹو اپنے لندن میں قیام کے دوران صبغت اللہ قادری کی ماہرانہ آرا سے مستفید ہوتی رہتی تھیں۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین بھی ان سے فیض حاصل کرنے والوں میں شامل رہے۔
پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں، لبرل اور لیفٹ فعال کارکنان، رہنما اور دانشوران بھی ان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔
لندن کی زندگی
لندن میں اپنی اعلیٰ تعلیم کے دوران وہ کچھ عرصے کے لیے بی بی سی اردو سے بھی وابستہ رہے۔ اپنی بھاری آواز کی وجہ سے وہ معروف براڈ کاسٹر ذوالفقار علی بخاری جیسا مستقبل رکھتے تھے۔ لیکن بقول شفیع نقی جامی، انھیں وکالت اور اپنے ایکٹیوزم سے گہرا لگاؤ تھا، اور اپنی گرجدار اور بھاری آواز کا فائدہ عدالت میں اٹھایا۔
شفیع نے انھیں یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’صبغت اللہ قادری ہمہ صفت دوست تھے۔ بی بی سی کے لیے بڑا نرم گوشہ رکھتے تھے جب جب قانونی موشگافیاں آئیں ہم انہی سے رجوع کرتے تھے اور انھوں نے بھی ہماری لاج رکھی۔ وہ بے لاگ تبصرہ کرتے تھے۔ اُن کی آواز کراری تھی اور لگتا تھا الہامی ہے۔‘
لندن میں مقیم بائیں بازو کے دانشور اور سیاسی یاداشتوں پر مشتمل کتاب ’باہر جنگل اندر آگ‘ کے مصنف، علی جعفر زیدی کہتے ہیں کہ ’میں صبغت اللہ قادری کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ کراچی یونیورسٹی میں طالب علم تھے اور انھوں نے کراچی یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کا انتخاب لڑا تھا۔‘
زیدی مزید کہتے ہیں کہ صبغت اللہ قادری نے ‘آمریت اور استحصالی نظام کے خلاف آواز اٹھائی اور مظلوم طبقات کے حق میں جدوجہد کی۔ صبغت بہت مہمان نواز ہونے کے ساتھ ساتھ موقع شناس بھی تھے۔ بائیں بازو کے رہنما معراج محمد خان جب بھی لندن آتے تو صبغت کے ہاں ٹھہرتے۔‘
لندن میں مقیم تارڈ ورلڈ سالیڈیریٹی سے وابستہ سیاسی رہنما مشتاق لاشاری سی بی ای کہتے ہیں کہ صبغت اللہ قادری نے برطانیہ میں نسلی اقلیتوں کو ان کے حقوق دلوانے کے لیے بہت موثر اور کامیاب کام کیا اور استحصالی قوانین کے خلاف لوگوں کی آواز کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
لاشاری کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی کئی حکومتوں نے انھیں حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن وہ ہمیشہ جمہوریت کے حامی رہے۔‘
وکالت کا آغاز
صبغت اللہ قادری کیو سی برطانیہ اور پاکستان کے صف اول کے فوجداری، جرائم اور امیگریشن کے بیرسٹروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ وہ برطانیہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے شہر کراچی میں قانون کی پریکٹس کرتے تھے۔
صبغت اللہ قادری نے اولڈ بیلی کہلانے والی ہائی کورٹ میں اپنا پہلا کیس کامیابی کے ساتھ لڑا تھا جب وہ ابھی ایک زیرِ تربیت وکیل تھے۔
انھوں نے بہت سے معروف اور اہم مقدمات لڑے تھے، باقاعدگی سے ہائی کورٹ اور کورٹ آف اپیل دونوں میں پیش ہوتے رہے اور کئی مواقع پر ہاؤس آف لارڈز (اب سپریم کورٹ) میں پیش ہوئے۔
وہ عدالتی جائزوں اور عوامی قانون کے مسائل، تارکین وطن کے حقوق اور تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے حکام کے اختیارات کو چیلنج کرنے میں باقاعدگی سے مشاورت کا کام انجام دیتے تھے رہے۔
وہ کبھی کبھی مستحق مقدمات میں عوامی مفادِ عامہ کے لیے مفت خدمات بھی پیش کرتے تھے۔ انھیں برطانوی مسلمانوں کے عائلی قوانین پر عبور حاصل تھا اور ان ہی مسلمانوں کے معاملات میں، خاص کر اکثر غیر ملکیوں ، خاص طور پر مسلمانوں کی شادیوں اور طلاقوں کے معاملات نمٹانا ان کی پریکٹس کی پہچان بن گئی تھی۔
صبغت اللہ قادری نے کئی برسوں سے اقلیتی برادریوں کے لیے مساوی حقوق اور انصاف کے لیے جدوجہد کی ہے اور کئی دہائیوں سے امتیازی پالیسیوں اور تبصروں کو چیلنج کیا ہے جن کو نظیر کے طور پر بڑے پیمانے پر کمیونٹی اور قانونی پیشے میں پیش کیا جاتا ہے۔
بار میں اپنی کال کے فوراً بعد انھوں نے سوسائٹی آف افرو-ایشین اینڈ کیریبین لائرز کی بنیاد رکھی، جسے اب سوسائٹی آف بلیک لائرز کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ اس کے پہلے چیئرمین تھے۔ سنہ 1980 کی دہائی کے اوائل میں بار کونسل نے نسل پرستی کا مقابلہ کرنے کے لیے سوسائٹی کی کوششوں کو تسلیم کیا اور ایک ورکنگ پارٹی قائم کی گئی جو ایک مستقل ریس ریلیشن کمیٹی کی تشکیل کا باعث بنی۔
صبغت اللہ قادری کی کامیابیوں نے انھیں ‘اِنر ٹیمپل’ لائبریری میں سیاہ فام اور ایشیائی کمیونٹیز کے بااثر ممبروں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا۔
جدوجہد کی کہانی
لندن میں مقیم سینیئر کنسلٹنٹ، ڈاکٹر حسن جواد جو مسٹر قادری کے قریبی دوستوں میں تھے، کہتے ہیں کہ ان کی موت برطانیہ کے پسماندہ طبقوں کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔ ڈاکٹر حسن جواد نے ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن اور پھر نیشل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی ارکان کی زندگیوں پر ‘سورج پہ کمند’ کے نام سے تین جلدیں شائع کیں۔
‘صبغت اللہ قادری صاحب سے غائبانہ تعارف تو اپنے زمانۂ طالب علمی سے ہی تھا جب میں طلباء تنظیم این ایس ایف سے وابستہ تھا اور صبغت اللہ قادری، حسین نقی، عبدالودود، شیر افضل ملک وغیرہ کا ذکر ہم اکثر این ایس ایف کے بانی رہنماؤں کے طور پر سنتے تھے۔’
‘ایوبی مارشل لاء کے نفاذ کے موقع پر محمد شفیع کے ہمراہ ان کی گرفتاری اور کئی ماہ کی اسیری کا ذکر بھی اس ہی زمانے میں سنا تھا۔ البتہ ان سے پہلی ملاقات سنہ 1986 میں پاکستان ہائی کمیشن کے باہر ضیاء الحق کی آمریت کے دوران اقلیتوں اور عورتوں کے خلاف نافذ ہونے ظالمانہ قوانین کے خلاف مظاہرے میں ہوئی تھی۔’
اس موقع پر پاکستان ورکرز ایسوسی ایشن کے جریدہ پیکار کے لیے صبغت اللہ قادری نے ڈاکٹر حسن جواد کو ایک انٹرویو میں اپنی زندگی کے بارے میں کچھ باتیں بتائی تھیں جو ‘سورج پہ کمند’ کی پہلی جلد میں شائع ہوئیں۔
اس انٹرویو کے دوران ان کے خیالات ان کی جمہوری اقدار اور پاکستانی عوام کے جمہوری اور سماجی حقوق سے گہری وابستگی کا آئینہ دار تھے۔
کراچی سے حیدرآباد
‘سورج پہ کمند’ سے کی گئی بات میں صبغت اللہ قادری نے اپنی زندگی پر بھی بات کی۔ ان کا شمار پاکستان کی طلبا تحریک کے اولین کارکنوں میں ہوتا تھا۔ ان کی سیاسی سرگرمی کا دور کم عمری میں ہی ہائی سکول سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے ہوا جس کے بعد وہ کالج کے زمانے میں ڈی ایس ایف سے وابستہ رہے۔
ڈی ایس ایف پر پابندی کے بعد وہ ان اولین ترقی پسند کارکنوں میں شامل تھے جنھوں نے حکومت کی تشکیل دی گئی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی صفوں میں خاموشی سے شامل ہو کر اس تنظیم کی ہیئت مکمل طور پر بدل کر اس کو ایک ترقی پسند انقلابی تنظیم کی شکل دے دی۔
اس وقت کی حکومت نے ڈی ایس ایف پر پابندی لگا کر اس کے متبادل کے طور پر این ایس ایف تشکیل دی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ نوجوانوں کو سوشلسٹ نظریات سے محفوظ کرنے کے لیے انھیں ایک متبادل مگر حکومت کی حامی بظاہر روشن فکر طلبا تنظیم بنا کر دی جائے۔ قادری سازش بھانپ کر اس میں شامل ہو گئے اور این ایس ایف کو بائیں بازو کی تنظیم بنا دیا۔
خاندانی پس منظر
اپنے خاندانی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے صبغت نے بتایا تھا کہ کہ وہ ہندوستان کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت وہ بہت کمسن اور سکول میں زیر تعلیم تھے۔ ان کا خاندان اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کی اکثریت کی طرح قیام پاکستان کا بہت حامی تھا۔
آزادی کے بعد ان کے بڑے بھائی تو فوراً انٹر کا امتحان پاس کر کے پاکستان چلے آئے لیکن ان کے والد بیٹے کے بے حد اصرار کے باوجود پاکستان منتقل ہونے پر راضی نہیں تھے، لیکن آخر کار انھوں نے بیٹے کی ضد کے آگے گھٹنے ٹیک دئے اور سنہ 1950میں پورے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہو گئے۔
صبغت کی عمر اس وقت صرف 12 برس تھی۔ وہ کہتے ہیں کے جب وہ اپنے خوابوں کی سرزمین (پاکستان) پہنچے تو وہ لمحہ ایک ذہنی دھچکے کا باعث بنا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی جھونپڑی نہیں دیکھی تھی اور کراچی پہنچتے ہی ان کا سامنا جھونپڑیوں پر مشتمل بستیوں سے ہوا۔
سٹوڈنٹ سیاست کا آغاز
ان حالات کو دیکھ کر اور طللبا کے مسائل کے حل کے لیے بھاگ دوڑ کے دور میں ان کی ملاقات کچھ ہم عمر دوستوں سے ہوئی جنھوں نے انھیں بتایا کہ انھوں نے سکول کے طلبا کی مشکلات اور ان کے مطالبات کے حل کے لیے ہائی سکول سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے۔
انھوں نے صبغت کو بھی اس تنظیم میں شامل ہونے کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کرلی۔ دعوت دینے والے یہ طلبا محمد شفیع’ صغیر احمد اور برکات عالم تھے۔ صبغت کو اس مرحلے پر اس تنظیم کے ترقی پسند نظریات کی جانب نظریاتی جھکاؤ کا کوئی علم نہیں تھا جس سے ان کا تعارف بعد میں ہوا۔
صبغت کہتے ہیں کہ ان کے گھر کا ماحول کافی مذہبی تھا لیکن اس میں کٹر پن نہیں تھا بلکہ اسلام کے مثبت سماجی پہلو پر زیادہ زور دیا جاتا تھا جیسے کہ مساوات محمدی کا تصور ان کے ذہن میں سیاسی سرگرمی کے دور سے پہلے ہی بہت پختہ تھا۔
اسی زمانے میں ڈی ایس ایف نے طلبا کے بہت سارے مسائل کے حل کے لیے ایک تحریک چلانے کا فیصلہ کیا جس کا آغاز سات جنوری1953 کو ہوا۔ صبغت اس پوری تحریک میں ایک جونیئر کارکن کے طور پر بڑی سرگرمی سے شامل تھے اور سات اور آٹھ جنوری کو ہونے والے پولیس تشدد کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جس کا ان پر گہرا اثر ہوا۔
جنوری تحریک کے بارے میں صبغت بتاتے ہیں کہ اس کو کراچی کے طلبا کی غالب اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ ڈی ایس ایف خود پورے کراچی میں بہت منظم تھی اور بیشتر کالجوں میں اس کی یونینیں تھیں۔ جب کہ دیگر منتخب رہنماؤں کو انٹر کالیجئٹ باڈی کی شکل میاں منظم کیا جا چکا تھا۔
سنہ پچاس کی دہائی کے واقعات نے ملک کی تاریخ کی سیاست کا رخ ہمیشہ کے لیے موڑ دیا۔ بغداد پیکٹ میں شامل ہو کر حکمرانوں نے امریکہ کی باقاعدہ حاشیہ برداری اختیار کرلی اور امریکہ سے اپنے خلوص نیت کو ثابت کرنے کے لیے کمیونسٹ پارٹی’ ڈی ایس ایف‘ اور اے پی ایس او پر باقاعدہ پابندی لگا دی گئی۔
صبغت نے ڈاکٹر حسن جواد کو اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس پابندی کے بعد ڈی ایس ایف کے تمام سرکردہ رہنماؤں بشمول محمد سرور، رحمان علی ہاشمی، مرزا محمد کاظم، اقبال احمد خان، جمال نقوی، ادیب الحسن رضوی اور محمد نسیم وغیرہ کو گرفتار کر لیا گیا۔
ہائی سکول سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان اور ڈی ایس ایف کے جونئیر کارکنان جن میں صبغت بھی شامل تھے گرفتاری سے محفوظ رہے۔
این ایس ایف میں شمولیت
نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) اس دور میں ایک حکومت نواز تنظیم تھی اور طلباء میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے لیڈروں نے صبغت اور ڈی ایس ایف کے کچھ اور جونئیر کارکنوں کو این ایس ایف میں شامل ہونے کی دعوت دی جو انھوں نے نہ صرف قبول کی بلکہ اپنے اور بہت سے ساتھیوں کو اس کا رکن بنایا۔
جس کے نتیجے میں اگلے اندرونی انتخابات میں تمام عہدے ترقی پسند کارکنوں کے پاس آگئےاور این ایس ایف کے منشور اور پروگرام کو بدل کر اسے ایک ترقی پسند تنظیم کی شکل دے دی گئی۔ عبدالودود پہلے جنرل سکریٹری اور خود صبغت جوائنٹ سکریٹیری منتخب ہوئے۔
جلد ہی این ایس ایف کراچی کے طلباء کی ایک مقبول تنظیم بن گئی۔ اور پھر جیل سے رہا ہونے والے ڈی ایس ایف کے تمام رہنما بھی اس میں شامل ہو گئے۔
سنہ 1957 کے طلبا یونین انتخابات میں پورے کراچی کے تعلیمی اداروں میں این ایس ایف کے امیدوار کامیاب ہوئے جن میں اسلامیہ کالج میں فتح یاب علی خان اور یونیورسٹی میں منصور صدیقی صدارت کے عہدے پر کامیاب ہونے والوں میں شامل تھے۔
اس سے اگلے سال سنہ 1958 میں صبغت خود یونیورسٹی کے جنرل سکریٹری اور شمیم صدیقی صدر بنے۔
ایوبی مارشل لا اور بائیں بازو کے طلبا
ڈی ایس ایف کے برخلاف این ایس ایف کا پروگرام اس لحاظ سے بہت مختلف تھا کہ ڈی ایس ایف کا پروگرام کلی طور پر طلبا کے مسائل کے گرد گھومتا تھا جبکہ این ایس ایف کے پروگرام میں پہلی دفعہ سیاسی مطالبات بھی شامل کیے گئے مثلاً سوئز نہر کے بحران کے دوران برطانیہ اور فرانس کے خلاف مظاہرہ، بغداد پیکٹ اور امریکہ کے سامراجی کردار کی مخالفت، ون یونٹ کی مذمت وغیرہ۔
جب سنہ 1958 میں مارشل لا لگا تو این ایس ایف پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ پابندی لگا دی گئی۔ بہت سے سیاسی رہنما اور کارکن گرفتار بھی کئے گئے لیکن طلباء میں صرف این ایس ایف سے وابستہ دو رہنماؤں صبغت قادری اور محمد شفیع کو گرفتار کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
امریکی صدر کے خلاف مظاہرہ
قانونی جنگ لڑنے کے بعد انھیں رہائی ملی۔ اس رہائی کے بعد صبغت کو ترقی پسند کارکنوں اور این ایس ایف کے ارکان کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ امریکی صدرآئزن ہاور کے دسمبر سنہ 1959 کے دورۂ پاکستان کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر گرفتار کیا گیا لیکن امریکی صدر کا دورہ مکمل ہونے کے بعد جلد ہی رہا کر دیا گیا۔
گرفتاریوں سے فراغت کے بعد صبغت نے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کو کراچی یونیورسٹی سے اس وقت تک سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے نکالا جا چکا تھا۔ جب وہ دوبارہ داخلے کے لیے یونیورسٹی گئے تو انٹیلیجنس بیورو کے عہدیداروں نے انھیں سختی سے یونیورسٹی سےدور رہنے کا کہا۔
اس کے بعد ان کو مارشل لاء کی جانب سے بنائے گئے نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو میں بلا کر کہا گیا کہ وہ کراچی چھوڑ دیں۔ یونیورسٹی سے نکالے جانے سے پہلے وہ آنرز کا امتحان دے چکے تھے لیکن ایک مضمون میں کامیاب نہ ہوسکے تھے جو انھیں دوبارہ دینا تھا۔
اس جبر کے نتیجے میں انھیں کراچی چھوڑ کر حیدرآباد جانا پڑا جہاں (پروفیسر) جمال نقوی کے ہم زلف کی کوششوں سے انھیں گورنمٹ کالج سندھ یونیورسٹی میں اس شرط پر داخلہ دیا گیا کہ انھیں سارے پرچے دوبارہ دینے پڑیں گے۔ حیدرآباد میں اس وقت این ایس ایف کا وجود نہیں تھا لیکن ترقی پسند کارکنوں کی خاصی تعداد سرگرم تھی۔
یہیں ان کی مستقل دوستی اداکار محمد علی سے ہوئی جو ابھی تک اداکار نہیں بنے تھے۔ وہ حیدرآباد میں قیام کے دوران کراچی بھی آتے جاتے رہے اور این ایس ایف سے پابندی سے رابطے میں رہے۔
ایوبی مارشل لاء میں این ایس ایف کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ این ایس ایف واحد سیاسی تنظیم تھی جس نے مارشل لا کی کھل کر مخالفت کی اور اس کے خلاف مسلسل جدوجہد کی۔ یہاں تک کہ بڑی بڑی سیاسی جماعتیں بھی جبر کے اس دور میں خاموش تھیں۔
کراچی سے لندن ہجرت
سنہ 1960 کے آخر میں لندن میں ہونے والے ایک حادثے نے صبغت کی زندگی کو ایک نئے رخ پر ڈال دیا۔ ان کے بڑے بھائی اور بہن پچاس کی دہائی میں ہی انگلینڈ سکونت اختیار کر چکے تھے۔ ان کے بھائی کا مسلسل اصرار تھا کہ باقی خاندان بھی لندن منتقل ہو جائے لیکن صبغت کے والد اور خود صبغت اس بات پر رضامند نہ تھے۔
تاہم کئی اتار چڑھاؤ کے بعد صبغت اور ان کا خاندان برطانیہ چلے آئے۔ قادری نے ڈاکٹر حسن جواد کو بتایا تھا کہ لندن پہنچنے کے بعد انھوں نے بہت مشکل وقت گزارا، مزید تعلیم کے اخراجات جمع کرنے کے لیے وہ مختلف نوکریاں کرتے رہے جس میں بی بی سی کی نوکری بھی شامل تھی۔
کئی سال کے وقفے کی بعد انھوں نے ‘انر ٹیمپل’ میں قانون کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا اور بیرسٹری کی ڈگری کے بعد اپنی قانونی پریکٹس شروع کی۔
لندن میں سرگرمیوں کا آغاز
انھیں برطانیہ کے پہلے پاکستانی نژاد کیو سی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دوران تعلیم وہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی مشغول رہے اور پاکستان سٹوڈنٹس فیڈریشن نامی تنظیم قائم کی جو پاکستان میں جمہوری جدوجہد کی حمایت کرتی تھی اور اس سلسلے میں ان کی قیادت میں پاکستانی طالب علموں نے ایک سے زائد بار پاکستانی سفارت خانے پر قبضہ کیا۔
اس کے علاوہ وہ اپنے مؤکلان کے فائدے کے لیے اپنے ماہرانہ علم اور مدد فراہم کرنے کے لیے ہر وقت پیش ہوتے تھے۔ ان کے ایک قریبی ساتھی اور دوست حبیب جان کہتے ہیں کہ قادری کو لندن میں ایک غیر معمولی حیثیت کا وکیل کہا جاتا تھا۔ انھیں انصاف اور مساوات اور تنوع کے اصولوں کے لیے ان کی شدید لگن کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
صبغت قادری کیو سی، جو کہ سیاہ فام وکلاء کی سوسائٹی کے چیئرمین بھی رہے، کو سنہ 1969 میں بار میں بلایا گیا تھا۔ انھیں سنہ 1989 میں ملکہ کا وکیل یعنی کوئینز کونسل مقرر کیا گیا تھا اور اس کے بعد ‘اِنر ٹیمپل’ کی معزز سوسائٹی کا بینچر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ انر ٹیمپل کی طلبا یونین کے صدر بھی رہے۔
اقلیتوں کے لیے جدوجہد
ایک وکیل کی تربیت کے لیے برطانیہ آنے کے بعد، قادری قانونی تعلیم اور بار میں نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد میں سب سے آگے آئے۔ وہ برطانیہ میں شہری حقوق کے معروف وکیل اور امیگریشن قوانین، شرعی قانون اور نسلی تعلقات پر ایک اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔
وکلا کی ایک معروف چیمبر، ‘پی بی تھری’ کے سربراہ، ڈیوڈ برکلے جو خود بھی کیو سی ہیں، نے کہا کہ ‘پسماندہ اور حق رائے دہی سے محروم افراد کے لیے ان کی خدمات بہت زیادہ تھی۔ وہ نسل پرستی، ناانصافی اور عدم مساوات کے خلاف ایک نڈر مہم جو تھے جو پسماندگی اور نسلی عدم مساوات سے دوچار برادریوں کے حقوق کے لیے عدالت میں اور عدالت کے باہر ایک نمایاں اور نڈر آواز تھے۔
مرحوم نے اپنے پسماندگان میں بیوہ کریتا، بیٹے صداقت اور بیٹی ماریہ اور دو پوتوں کے علاوہ بہت سے دوست چھوڑے ہیں۔
حبیب جان کہتے ہیں کہ ‘قادری صاحب کا ظاہر باطن سب ایک تھا وہ زمانہ منافقت میں ایک سچے پرخلوص انسان تھے اور شاہد یہی وجہ تھی کہ دنیائے عالم کے نمبر ون ایماندار ملک فِن لینڈ سے تعلق رکھنے والی خاتون آنٹی کریتا نے زندگی کے 59 سال قادری صاحب کے ساتھ آخری سانس تک خدمت کرتے ہوئے گزارے۔‘
کیونکہ بقول آنٹی وہ ایک ایماندار انسان تھے۔
Comments are closed.