بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’افیون جنگ‘: جب چینی بحریہ نے پانچ گھنٹوں میں برطانیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے

برطانیہ، چین تعلقات اور افیون کی فروخت پر لڑی جانے والی پہلی جنگ: جب چینی بحریہ نے پانچ گھنٹوں میں برطانیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے

opium war images

،تصویر کا ذریعہPrint Collector/getty images

،تصویر کا کیپشن

جب چین نے برطانوی کمپنیوں کو افیون کی فروخت سے روکا تو برطانیہ نے اپنی فوجی طاقت کے ذریعے چین کو مجبور کیا کہ وہ اسے چین میں افیون فروخت کرنے کی اجازت دے

سنہ 1840 میں ایک برطانوی بحری بیڑہ چین کے پرل دریا کے دہانے میں داخل ہوا اور چین کی کمزور بحریہ کو صرف پانچ گھنٹوں میں تباہ و برباد کر دیا۔

انسانی تاریخ میں ’آزاد تجارت‘ کے نام پر یہ پہلی جنگ تھی جس کا مقصد چین میں افیون فروحت کرنا تھا۔ برطانیہ اس وقت مشرقی ہندوستان میں اپنے قدم جما چکا تھا اور بنگال میں پیدا ہونے والی افیون چین میں فروحت کر کے دولت کمانا چاہتا تھا۔

چین نے ایسٹ انڈیا کی جانب سے چین میں افیون کی فروخت پر ملکہ وکٹوریہ سے بھی شکایت کی لیکن افیون کی تجارت اتنی منافع بخش تھی کہ ایسٹ انڈیا نے اس کو جاری رکھا۔

چین میں افیون کی فروخت انتہائی منافع بخش کاروبار تھا لیکن چین میں اس کی تجارت پر پابندی عائد تھی۔

چین کے حکمرانوں نے ملک میں افیون کی نشے کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے شروع کیے اور یی منگچن نامی اہلکار کو یہ فریضہ سونپا۔ یی منگچن نے جب برطانوی تاجروں کے قبضے میں افیون کو جلانا شروع کیا تو اس کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ تین عیسائی پادریوں کی موجودگی میں اسے تین روز تک جلایا جاتا رہا تھا۔

بعض تاریخ دانوں کے رائے میں یی منگچن اور دو برطانوی تاجروں ولیم جارڈین اور جیمز میتھسن نے برطانیہ کی چین کے ساتھ ’جنگِ افیون‘ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔

ولیم جارڈین، جیمز میتھسن

،تصویر کا ذریعہUniveral History Archieve

،تصویر کا کیپشن

برطانیہ کے دو تاجروں، ولیم جارڈین اور جیمز میتھسن نے برطانیہ کی چین کے ساتھ ‘جنگِ افیون’ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا

ولیم جارڈین اور جیمز میتھسن کی پہلی ملاقات چین کے ایک قحبہ خانے میں ہوئی اور دونوں نے تجارتی شراکت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

سنہ 1932 میں انھوں نے جنوبی چین کے شہر کینٹن میں ’جارڈین میتھیسن اینڈ کمپنی‘ کے نام کی ایک کمپنی قائم کی۔ کینٹن چین کا واحد علاقہ تھا جہاں غیر ملکیوں کو تجارت کی اجازت تھی۔

جارڈین، میتھسن اینڈ کمپنی نے چین میں چائے کے بدلے افیون فروخت کرنا چاہی لیکن انھیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔

اٹھارہویں صدی میں برطانیہ میں چائے کی مانگ انتہائی حد تک بڑھ چکی تھی اور برطانیہ ہر سال چین سے ساٹھ لاکھ پاؤنڈ کی چائے درآمد کرتا تھا۔ برطانیہ کو چائے کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے میں دقت کا سامنا تھا کیونکہ چین چاندی کے علاوہ کوئی اور چیز لینے پر رضامند نہ تھا۔

opium war images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

16ویں صدی میں پرتگالی تاجروں نے چین میں افیون کو ایک نشے کے طور پر متعارف کروایا تھا

برطانیہ نے چین کو سائنسی آلات، پشم کی مصنوعات اور مٹی کے برتن فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن چین کے شہنشاہ کون لانگ نے یہ کہہ کر انھیں خریدنے سے انکار کر دیا کہ یہ سب کچھ بیکار ہے اور ان کے ہم وطنوں کے لیے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

برطانیہ کے لیے چائے کی درآمد روز بروز مشکل ہو رہی تھی اور برطانیہ چین سے دولت کمانے میں کامیابی حاصل نہیں کر پا رہا تھا۔

برطانوی تاجروں نے بالآخر چین میں دولت کمانے کا ایک ذریعہ ڈھونڈ ہی نکالا۔ بنگال کی فتح کے بعد برطانیہ کو افیون کی بڑی مقدار ہاتھ آ گئی جو اس نے غیر قانونی طور پر چین کو فروحت کرنی شروع کر دی۔ چینی ادویات میں افیون کا صدیوں سے استعمال کیا جا رہا تھا لیکن اس کی فروخت پر پابندی عائد تھی۔

یہ بھی پڑھیے

15ویں صدی کے چین میں افیون کو تمباکو میں ملا کر نشے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جلد ہی چین کی آبادی کا ایک بڑا حصہ افیون کا رسیا ہو گیا اور افیون کے نشے کے عادی اس کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔

چینی شہنشاہ یانگزنگ نے سنہ 1729 میں افیون کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن برطانوی تاجروں نے افیون پر پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے چین کو افیون کی غیر قانونی برآمد یا سمگلنگ جاری رکھی۔ سن 1836 میں ہر سال انڈیا سے افیون سے بھرے تیس ہزار صندوق چین پہنچ رہے تھے۔

چین کے شہنشاہ نے جب برطانیہ کی طرف سے افیون برآمد کو روکنے کی کوشش کی اور تیرہ فیکٹریوں میں 42 ہزار افیون کے پائپ، اور بیس ہزار افیون سے بھرے صندوق قبضے میں لیے تو برطانوی تاجروں نے لندن پہنچ کر حکومت کو قائل کر لیا کہ وہ چین سے بدلہ لے۔ برطانوی سلطنت چین کے خلاف کارروائی پر فوری رضامند ہو گئی۔

برطانیہ کے جدید بحری بیڑے کے سامنے چین کی بحری فوج انتہائی کمزور ثابت ہوئی اور صرف پانچ گھنٹوں میں اس نے گھٹنے ٹیک دیے۔ برطانوی حملے میں چین کے بیس سے پچیس ہزار فوجی ہلاک ہوئے جبکہ برطانیہ کے صرف 69 فوجی ہلاک ہوئے۔

Portrait of Ye Mingchen, chinese official as assigned the job to erdicate opium trade in china

،تصویر کا ذریعہUniversal History Archive

،تصویر کا کیپشن

چین نے یی منگچن کو ملک سے افیون کی تجارت روکنے کی ذمہ داری سونپی تھی

برطانیہ نے چین کو فتح کرنے کے بعد ایک ایسا معاہدہ کیا جس کے تحت اس نے پانچ بندرگاہیں کھولنے کی اجازت لی۔ برطانیہ نے اس معاہدے کے تحت ہانگ کانگ جزیرے کو اپنے اختیار میں لے لیا جہاں سے افیون کی تجارت ہوتی تھی۔

برطانیہ نے تو افیون کی جنگ کو تاریخ کے حوالے کر دیا ہے لیکن چین نے ایسا نہیں کیا ہے۔ یونیورسٹی آف مانچسٹر کی ڈاکٹر زینگ یانگون کے مطابق چین میں بچوں کو ابتدائی تعلیم کے دوران افیون کی جنگ سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ چینی بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ برطانوی سلطنت نے ان پر کیا کیا ظلم ڈھائے۔

زینگ یانگون کہتی ہیں کہ چینی نوجوان نسل کو بتایا جاتا ہے کہ یاد رکھو کہ ایک صدی تک چینی قوم کی کیسے تذلیل کی گئی۔

زینگ یانگون کا کہنا ہے کہ برطانیہ کو چائے چاہیے تھی لیکن وہ اسے چین کے علاوہ کہیں سے ملتی نہیں۔ تاریخ کہتی ہے کہ اٹھارہویں صدی میں چین برطانیہ سے امیر ملک تھا۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ وہ پہلا ملک نہیں تھا جس نے چین کو افیون فروخت کرنے کی کوشش کی۔ برطانیہ کے چین پہنچنے سے صدیوں پہلے عرب تاجر چین میں افیون بیچ رہے تھے۔ اس کے بعد 16ویں صدی میں پرتگالی تاجر بھی چین میں افیون کی تجارت کرتے تھے لیکن اس وقت تک افیون کا استعمال صرف دوائیوں کے لیے ہوتا تھا۔ البتہ پرتگالی تاجروں نے افیون کو نشے کے طور پر متعارف کرایا۔ جس سے افیون کی مانگ میں اضافہ ہو گیا۔

اٹھاریوں صدی میں جب ہندوستان ایسٹ انڈیا کے تسلط میں آ چکا تھا تو برطانیہ کی افیون کی پیدوار پر اجارہ داری قائم ہو چکی تھی اور پٹنہ افیون کی پیدوار کا مرکز بن چکا تھا۔

جب چین نے کینٹن میں برطانوی تاجروں کے افیون کے ذخیرے کو جلا دیا تو برطانیہ نےاس کے خلاف اپنی نیوی کو بھیجا اور چین کو اپنی شرائط پر معاہدہ کرنے پر مجبور کیا۔

اس معاہدے کے تحت چین نے ہانگ کانگ کو برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ جبکہ دوسری ’جنگِ افیون‘ میں برطانیہ کے علاوہ فرانس، روس اور امریکہ بھی شامل تھے۔ دوسری جنگ افیون کے بعد ان مغربی ممالک کو چین میں سفارت خانے قائم کرنے کی اجازت ملی اور انھوں نے چین کے ساتھ تجارت کے معاہدے کیے۔

سوایس یونیورسٹی آف لندن سے وابستہ ریسرچر ازلامن کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ چین دنیا کے ساتھ تجارت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ انھوں نے کہا چین کی چنگ بادشاہت دنیا کے ساتھ تجارت کے لیے بہت پُرجوش تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افیون جنگوں کے بعد چین اپنی مارکیٹ کو دنیا کے لیے کھولنے پر مجبور ہوا جس کا کسی حد تک چین کو فائدہ ہوا اور چینی تاجروں نے یقینی طور پر اس سے فائدہ اٹھایا۔

گن بوٹ ڈپلومیسی سے ہیومن رائٹس ڈپلومیسی تک

مانچسٹر یونیورسٹی کی شن جو کے مطابق برطانیہ نے اس وقت اپنی تجارت کو بڑھانے کے لیے فوجی طاقت (گن بوٹ ڈپلومیسی) کو اپنایا۔ اب جب مغرب پھر چین میں تجارت کا خواہاں ہے تو وہ انسانی حقوق ڈپلومیسی کا سہارا لے رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ چین میں لوگ ان مغربی طریقوں کو پسند نہیں کرتے۔ ’میرے والدین کا کہنا ہے کہ مغرب کو ہمیں انسانی حقوق کے لیکچر دینے کا کوئی حق نہیں کیونکہ انھوں نے بھی ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔‘

شن جو کے مطابق اس طرح ہتھیار خواہ وہ گن بوٹ ڈپلومیسی ہو یا انسانی حقوق ڈپلومیسی اس سے چین کی پرامن اٹھان کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی گئیں جو اچھا نہیں ہے۔

یورپ کو چین کے ساتھ برتاؤ کے دوران ان تاریخی حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ چین میں اب بھی قومیت کو ابھارنے کے افیون جنگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.