طالبان سے مقابلے میں افغانستان کی سرکاری فوج کی پسپائی کی وجوہات کیا ہیں؟
افغانستان میں تین لاکھ سرکاری فوج کی پسپاہی کے بعد کہا جا رہا ہے کہ یہ تعداد صرف کاغذوں تک محدود تھی اور حقیقت میں افغان سپاہ اس سے کہیں کم تھی اور طالبان کے حملے کے وقت نہ تو ان کو تنخواہ دی جا رہی تھی اور نہ ہی خوراک فراہم کی جا رہی تھی۔
برطانیہ کے مقتدر اخبار گارڈین میں سوموار کے روز امریکہ میں انسداد بدعنوانی کے ایک حکومتی منصوبے میں شامل تحقیق کار زیک کوپلن کا مضمون شائع کیا گیا جس میں کہا گیا کہ افغانستان میں اکثریت ‘گھوسٹ’ یا فرضی فوجیوں کی تھی جن کی تنخواہیں جنگجو کمانڈروں، افغان سیاسی اشرفیہ اور امریکی دفاعی ٹھیکیداروں کی جیبوں میں جا رہی تھیں ۔
یہ بھی پڑھیے
زیک کوپلن نے اپنے مضمون میں ڈاکٹر اشرف غنی کے گرنے کی بڑی وجہ افغانستان میں اعلی ترین سرکاری سطح پر پائی جانے والی کرپشن اور امریکی دفاعی ٹھیکیداروں کی لوٹ مار کو قرار دیا ہے۔
اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے متحدہ عرب امارات فرار ہو جانے کے بعد ان کے اپنے ایک سفیر کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ ڈاکٹر اشرف غنی اپنے ساتھ 16 کروڑ 90 لاکھ امریکی ڈالر بھی لے گئے ہیں۔
زیک کوپلن نے صدر جو بائیڈن کی طرف سے افغان عوام کو کابل پر طالبان کے قبضے کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بیان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی اور اسی وجہ سے عوام نے اس حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے سے انکار کر دیا۔
افغانستان میں کرپشن کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی اور سنہ 2020 میں انسداد بدعنوانی کی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے افغانستان کو دنیا کے 20 کرپٹ ترین ملکوں کی فہرست میں شمار کیا۔
اگر افغان عوام اور افغان فوج نے ریاست کے لیے کھڑے ہونے سے انکار کر دیا تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انھیں ریاست پر اعتماد نہیں تھا۔
زیک کوپلن لکھتے ہیں کہ تین لاکھ کے قریب جس افغان فوج کا ذکر کیا جا رہا تھا اس کی افرادی قوت اس سے کہیں کم تھی۔
اس سال جولائی میں صدر بائیڈن نے دعوی کیا تھا کہ افغانستان کی فوج میں 3 لاکھ فوجی تھے لیکن امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگون کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ تعداد حقیقت پر مبنی نہیں تھی۔
افغانستان کے ملٹری کمانڈر فرضی فوجیوں کے نام پر لی گئی رقوم سے اپنی جیبیں گرم کر رہے ہیں۔
امریکہ کے ادارے سپیشل انسپیکٹر جرنل آف افغان ری کنسٹرکشن کے اہلکار جان سوپکو کے مطابق فرضی فوجیوں کی تعداد دسیوں ہزاروں میں تھی۔
ویسٹ پوائنٹ کی جنوری میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ افغان فوج کی اصل میں لڑنے والے فوجیوں کی قوت 96 ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ کابل پر طالبان کی چڑھائی کے وقت ان فوجیوں کو نہ تو تنخواہ دی جا رہی تھی اور نہ خوراک۔
نہ صرف یہ کہ افغان فوج کا وجود کاغذوں کی حد تک ہی تھا بلکہ امریکی فوج کے دفاع ٹھیکیدار اور پینٹاگون لاعلمی میں طالبان کو مالی وسائل فراہم کر رہے تھے۔
سنہ 2009 میں امریکی جریدے ’دی نیشن‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر میں امریکی فوجی حکام کے حوالے سے کہا گیا کہ پینٹاگون کی طرف سے افغانستان میں پینٹاگون کے لاجسٹک ٹھیکوں کے لیے فراہم کردہ دس سے 20 فیصد رقم جو کہ کئی کروڑ ڈالر بنتی ہے طالبان کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔
اخبار نے مزید لکھا تھا کہ افغانستان کے خفیہ ادارے دی نیشبنل ڈائریکریٹرٹ آف سیکیورٹی نے امریکی فوج کو اس بارے میں خبردار بھی کیا تھا۔ لیکن دس سال گزر جانے کے باوجود اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور یہ رقم اب بھی طالبان تک پہنچ رہی تھی۔
سنہ 2019 میں کچھ خاندانوں نے جن کے پیارے افغانستان مارے گئے تھے انھوں نے مختلف دفاعی ٹھیکیداروں کے خلاف طالبان کو رقوم ادا کرنے کے الزام میں ہرجانے کا مقدمہ قائم کیا تھا جو ابھی تک چل رہا ہے۔
امریکی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ مالی امداد سے جنگجو سرداروں اور جرائم پیشہ گروہوں کی جیبوں میں جانے کی خبریں بڑی عام تھیں اور اقربا پروی نے انتظامیہ پر سے عوام کا اعتماد ختم کر دیا تھا۔
طالبان کے لیے مالی وسائل حاصل کرنے کا ایک اور ذریعہ جس میں انھیں پینٹاگون اور افغان اشرافیہ کی معاونت حاصل تھی وہ افغانستان کی معدنیات کی کھدائی تھی۔
اس سال اپریل میں زیک کوپلن نے منظم جرائم اور کرپشن کی رپورٹنگ کے ایک منصوبے کے تحت ایک تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا جس میں افغان صدر کے رشتہ داروں کو امریکی فوج کے دفاعی ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے افغانستان کے معدانی وسائل کی لوٹ مار میں ملوث پایا گیا۔
افغانستان سرزمین میں ایک اندازے کے مطابق ایک کھرب ڈالر سے زیادہ مالیت کے معدانی خزانے موجود ہیں۔ طالبان کے غلبے سے پہلے افغانستان میں قانونی طور پر نجی کمپنیوں کو غیر رجسٹرڈ چھوٹی کانوں سے معدنیات خریدنے پر پابندی عائد تھی۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بہت سے چھوٹی کانیں طالبان، مختلف دہشت گردوں گروہوں یا جنگجو سرداروں کے قبضے میں تھیں۔ ان سے معدنیات خریدنے کا مطلب دشمنوں کو مالی وسائل فراہم کرنا تھا۔
لیکن ہماری تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ایک کمپنی ایسی تھی جو اس قانون سے استثنیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور بظاہر یہ استثنیٰ سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی منظوری سے دیا گیا۔
صدر کے دفتر سے ایک امریکی دفاعی ٹھیکیدار کی ذیلی کمپنی کو اس قانون کے برخلاف یہ اجازت دی گئی کہ وہ چھ افغان صوبوں میں غیر قانونی کانوں سے سٹیل لیس سٹیل بنانے میں کام آنے والی اہم دھات کرومائٹ خرید سکے۔ اس کمپنی نے کابل کے مضافات میں کرومائٹ کو برآمد کرنے کے لیے کرشنگ فیکٹری لگائی۔
اس کمپنی کے امریکی فوج اور خفیہ اداروں سے قریبی روابط تھے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی کا بھی اس کمپنی میں 20 فیصد حصہ تھا۔
کرپشن کی وجہ سے افغانستان کے سرکاری ادارے کھوکھلے ہو چکے تھے جس کی وجہ سے افغانستان کے عوام اس حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ حکومت بھی افغانستان کے عوام کا چوری، بدعنوانی، بھتہ خوری اور اقربا پروی سے طالبان کی طرح استحصال کر رہی تھی فرق صرف یہ تھا کہ طالبان ان کا استحصال جبر اور زور اور زبردستی سے کرتے تھے۔
امریکی نجی کمپنی کے سودوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس میں صرف افعان حکومت کے اعلی ترین اہلکار ہی ملوث نہیں تھے بلکہ بااثر امریکی کمپنیاں بھی پیسے بنار رہی تھیں۔
گارڈین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’افغانستان کی سرکاری فوج زیادہ تر ایک سیراب کی ماند تھا جو قابض امریکی فوج کے سائے میں نظر آ رہا تھا اور اس میں کوئی حیران کن بات نہیں تھی کہ افغان اس کے لیے کھڑے ہونے اور اپنی جانیں دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔”
رپورٹ میں مزید کہا گیا:” لیکن اس کا ذمہ دار انھیں نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ افغانستان کی حکومت اس وجہ سے منہدم ہو گئی کیونکہ امریکی اور افغان اشرافیہ جو کچھ لوٹ سکتی تھی وہ لوٹ کر افغان شہریوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر فرار ہو گئی۔ ایک شکستہ نظام کے لیے کون لڑتا؟”
Comments are closed.