یورپی یونین، بیلجیئم اور لکسمبرگ کیلئے سفیر پاکستان ظہیر اے جنجوعہ نے کہا ہے کہ پاکستان اس بات کا شدت سے حامی ہے کہ افغانستان کا فیصلہ افغانستان کے عوام ہی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ وہاں ایسی جامع اور مشترکہ حکومت بنے جس میں وہاں کے تمام گروپوں کی نمائندگی ہو۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے نمائندہ جنگ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
سفیر پاکستان نے کہا کہ ہمارا افغانستان کے ساتھ مذہبی، ثقافتی، لسانی اور ایک پڑوسی کا تعلق ہے۔ افغانستان میں کچھ بھی ہو، اس کے اثرات ہم پر ہی ہونگے۔ اس حوالے سے دنیا کیلئے پاکستان کا پیغام واضح ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں ایک مستحکم، پرامن اور خوشحال افغانستان دیکھنا چاہتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم کا ایک طویل عرصے سے یہی موقف رہا ہے کہ جنگ کے ذریعے افغانستان کو پرامن نہیں رکھا جا سکتا۔ اسی طرح اب بھی وہاں پر چیزیں مسلط نہیں کی جاسکتیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ساری دنیا کو یہی پیغام دے رہے ہیں۔ وہ خطے میں افغانستان کے تمام پڑوسیوں کو ساتھ لیکر چلنے کے علاوہ دنیا کو باور کروا رہے ہیں کہ اس وقت افغانستان کے عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ ورنہ مہاجرین کے سیلاب سے لیکر منشیات اور دہشت گردی سے جڑے وہ تمام خطرات صرف افغانستان یا خطے تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ ہر جگہ جائیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ افغانستان میں امن کو ایک موقع دیا جائے۔
سفیر پاکستان نے مزید کہا کہ زمینی حقائق کے ساتھ ہی چلنا پڑتا ہے۔ ہمارے چاہنے نہ چاہنے کے باوجود طالبان اب افغانستان میں ایک حقیقت کے طور پر موجود ہیں۔
ظہیر اے جنجوعہ نے یاد دلایا کہ یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن کے عمل کیلئے گفتگو امریکہ نے خود شروع کی تھی۔ جسے صدر ٹرمپ نے شروع کیا اور اسے صدر بائیڈن نے اختتام تک پہنچایا۔ دونوں صدور میں صرف انخلاء کی آخری تاریخ دینے کا فرق ہے۔ پاکستان نے تو امن کے اس حل تک پہنچنے میں سہولت کاری کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی سہولت کاری کا نتیجہ ہے کہ مشکل وقت میں پاکستان، افغانستان سے بین الاقوامی دنیا کے انخلاء میں مدد فراہم کر سکا ہے۔
یورپ تک پاکستانی موقف کی رسائی کے سوال پر سفیر پاکستان ظہیر اے جنجوعہ نے اشارہ کیا کہ مختلف یورپین وزرائے خارجہ کے پاکستان کے دورے اور پاکستانی قیادت کی جانب سے بین الاقوامی رہنماؤں سے گفتگو اور انہیں اعتماد میں لینا اس بات کا بین اظہار ہے۔
انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ کسی بھی فریق کی جانب سے یہ سمجھ لینا کہ افغانستان کا عدم استحکام اس کے پڑوسیوں یا خطے تک ہی محدود رہے گا، یہ ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ خطے میں مزید عدم استحکام برداشت کرنے کی نہ استطاعت ہے اور نہ وسائل۔
Comments are closed.