افغانستان: سابق سکیورٹی فورسز پر حملوں کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طالبان کو تنبیہ
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کو متنبہ کیا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی فورسز کے سابق اہلکاروں کی ’ٹارگٹ کلنگ‘ بند کی جائے۔
ایک مشترکہ بیان میں 22 ممالک کے اتحاد نے طالبان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سابقہ حکومت یا سکیورٹی اہلکاروں کے احترام کا وعدہ پورا کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہمیں قتل اور جبری گمشدگی کے واقعات کی اطلاعات پر گہری تشویش ہے۔‘
یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب ایسے واقعات پر متعدد رپورٹس جاری کی گئی ہیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں 100 سے زیادہ ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں ملک پر طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے سابقہ حکومت اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو قتل یا اغوا کیا گیا۔
اس رپورٹ میں افغان سکیورٹی فورسز کے ان 47 اراکین کے نام بھی دیے گئے ہیں جنھیں 15 اگست سے 31 اکتوبر کے درمیان ہتھیار ڈالنے یا حراست میں لینے کے بعد قتل کر دیا گیا۔
طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ سابقہ حکومت کے اہلکاروں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
طالبان کو تنبیہ کا یہ مختصر بیان امریکہ نے جاری کیا ہے اور اس پر برطانیہ، یورپی یونین اور مزید 19 ملکوں کے دستخط ہیں۔ اس میں ٹارگٹ کلنگ کی اطلاعات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے اور ماورائے عدالت قتل و جبری گمشدگیوں پر مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بیان کے آخر میں کہا گیا کہ ’ہم طالبان کو ان کے اقدامات پر پرکھتے رہیں گے۔‘
طالبان نے ایک بار پھر ان الزامات کی تردید کی ہے۔ تاہم ان میں سے کچھ الزامات کو بی بی سی کی اپنی رپورٹنگ سےتقویت ملتی ہے ۔ طالبان نے کہا ہے کہ وہ ان الزامات پر آزادانہ تحقیقات کی اجازت دیں گے۔
طالبان نے بی بی سی کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ’ایسے کوئی شواہد نہیں جو اس بات کی گواہی دیں کہ ایسا کچھ ہوا ہے۔‘
’ہم ان الزامات پر آزاد تحقیقات کی اجازت دیں گے اور اس میں مکمل تعاون فراہم کریں گے۔‘
بیان میں طالبان نے مزید کہا کہ انھیں امید ہے عالمی برداری ان الزامات کی بنیاد پر افغانستان سے متعلق فیصلے نہیں کرے گی۔
ایسا کئی بار ہوا ہے کہ طالبان کے اقدامات نے ان کے وعدوں کی نفی کی ہے۔ اور انسانی حقوق سے متعلق گذشتہ رپورٹس میں بھی ٹارگٹ کلنگ یا ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
اگست میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 30 اگست کو 300 طالبان جنگجو دھانی قل نامی گاؤں گئے جہاں سابقہ حکومت کے فوجی اپنے خاندانوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔
رپورٹ کے مطابق جنگجوؤں نے وہاں نو فوجیوں کو ہلاک کیا جنھوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ جبکہ کراس فائر میں مزید دو فوجی اور دو شہری ہلاک ہوئے۔ ان میں ایک 17 سالہ لڑکی شامل تھی۔
Comments are closed.