افغانستان کے بارے میں صدر بائیڈن کی تقریر میں دعوے اور تضادات
- ریئلٹی چیک ٹیم
- بی بی سی نیوز
پیر کی شام اپنی تقریر میں صدر جو بائیڈن نے افغانستان میں امریکی پالیسی اور ملک سے افواج کے انخلا کے فیصلے کے پس پردہ وجوہات کے بارے میں متعدد دعوے کیے۔
بی بی سی نیوز نے ان کے کچھ دعووں کی حقیقت کا جائزہ لیا ہے اور ان کا موازنہ ان کے افغانستان سے متعلق پہلے بیانات اور زمینی صورتحال سے کیا ہے۔
‘افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم کی تعمیر نو نہیں تھا۔’
صدر بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں امریکی مداخلت کے پیچھے مقصد ‘ہمیشہ امریکی سرزمین پر دہشت گردوں کے حملے کو روکنا رہا ہے’ اور ‘کبھی بھی متفقہ مرکزی جمہوریت لانا نہیں تھا’۔
یہ واضح طور پر افغانستان میں امریکی مقاصد پر ان کے سابقہ موقف سے متصادم ہے۔
سنہ 2001 میں تنازع کے آغاز میں جب جو بائیڈن امریکی سینیٹر تھے تب انہوں نے امریکی فوجی مداخلت کے طویل مدتی مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم امید کرتے ہیں کہ ہم افغانستان میں ایک نسبتاً مستحکم حکومت دیکھیں گے جو کہ۔۔۔ اس ملک کی مستقبل میں تعمیر نو کی بنیاد بنے گی۔’
اور پھر 2003 میں ایک اور بیان میں جسے پولیٹیکو ویب سائٹ نے ڈھونڈ نکالا اس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘قوم کی تعمیر نو کا متبادل انتشار ہے، ایک ایسا انتشار جو خونخوار جنگجوؤں، منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کو پیدا کرتا ہے۔’
امریکی فوجی افغان فوجیوں کے ساتھ تربیتی مشق پر۔
’میں جانتا ہوں کہ اس بارے میں خدشات ہیں کہ ہم نے افغان شہریوں کو جلد از جلد نکالنا کیوں شروع نہیں کیا۔ اس جواب کا ایک حصہ یہ ہے کہ کچھ افغان پہلے نہیں نکلنا چاہتے تھے (وہ) اپنے ملک کے لیے پر امید تھے۔’
طالبان تک اقتدار کی تیزی سے منتقلی نے بہت سے افغان شہریوں کو حیران کر دیا اُنھیں اتنا وقت نہیں ملا کہ وہ ملک چھوڑنے کے منصوبے بنا سکیں۔
تاہم افغانستان میں خطرے کا سامنا کرنے والوں کے لیے امریکی ویزا پروگرام کی بہت زیادہ مانگ تھی اور یہ سکیم تاخیر کا شکار تھی۔
ایک اندازے کے مطابق 18000 درخواست دہندگان کی درخواستیں پھنسی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہزاروں رشتہ دار متاثر ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
تقریبا نصف نے افغانستان میں امریکی چیف آف مشن کو مکمل درخواستیں جمع کرائی ہیں اور بقیہ نے ابھی تک تمام دستاویزات فراہم نہیں کی ہیں۔
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے مطابق درخواست کے نظام میں پھنسے افراد کو امریکہ پہنچ کر تحفظ حاصل کرنے میں مزید دو سے تین سال لگیں گے۔
صدر بائیڈن نے اپنی تقریر میں بتایا کہ 2 ہزار افغان شہری اور ان کے خاندان جو خاص امیگریشن ویزا کے اہل تھے وہ امریکہ منتقل کیے جا چکے ہیں اور مزید کا منصوبہ ہے۔
بحران کے تناظر میں کانگریس نے ایک بل کی منظوری دی ہے جس میں ویزوں کی تعداد میں 8000 کا اضافہ کیا گیا ہے اور پناہ گزینوں کی آباد کاری کی سکیم کو بڑھایا گیا ہے۔
افغانستان میں امریکی افواج نے افغان مترجموں اور معاون عملے پر بہت زیادہ انحصار کیا۔
’افغانستان کے سیاسی رہنماؤں نے ہار مان لی اور ملک چھوڑ گئے۔’
طالبان کی کابل میں پیش قدمی سے قبل صدر اشرف غنی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملک چھوڑ دیا حالانکہ انھوں نے کئی بار ملک میں رہنے کا عزم کیا تھا۔
لیکن دوسرے سیاسی رہنما ملک میں رہے ہیں اور ایسا کرنے کے بارے میں عوامی بیانات دے رہے ہیں۔
سابق صدر حامد کرزئی جو سنہ 2001 سے 2014 تک ملک کے صدر رہے ہیں وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایک ویڈیو میں نظر آئے، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ کابل میں ہیں اور سرکاری فورسز اور طالبان پر زور دیا کہ وہ شہریوں کی حفاظت کریں۔
حامد کرزئی نے کہا کہ ملک کے تمام سیاسی رہنما مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے کام کریں گے اور لوگوں سے صبر کی درخواست کی۔
افغانستان کے پہلے نائب صدر امر اللہ صالح بھی اس وقت ملک میں موجود ہیں، ان کے ساتھ دیگر رہنما بھی ہیں جیسے احمد مسعود جو سویت مخالف فوجی رہنما اور سیاستدان احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں۔
بی بی سی نیوز کی یلدا حکیم نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت افغانستان میں موجود سیاسی رہنما طالبان مخالف اتحاد بنا رہے ہیں۔
افغان فوج منہدم ہوگئی کہیں تو بغیر لڑے۔
یہ سچ ہے کہ تنازعے کے آخری چند ہفتوں میں افغان افواج کا خاتمہ ڈرامائی تھا۔
تاہم اسے ملک سے بین الاقوامی افواج کی تیزی سے اور بڑی حد تک بے ترتیب روانگی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
جب صدر بائیڈن نے اپریل میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا تو آٹھ ہزار اتحادی افواج اور اٹھارہ ہزار کنٹریکٹرز جنہوں نے افغان فورسز کو فوجی نقل و حرکت میں مدد فراہم کی وہ بھی وہاں سے چلے گئے۔
افغان فورسز نے پچھلے 20 برس میں ان کنٹریکٹرز اور تربیت فراہم کرنے والوں پر بہت زیادہ انحصار کیا تھا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کاغذی کارروائی کے مطابق تو افغان فوج کو اچھی فنڈنگ حاصل تھی اور ساز وسامان سے لیس کیا گیا تھا، لیکن زمینی حقیقت مختلف تھی جس کے لیے اکثر اوقات کرپشن اور پست حوصلوں کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔
پچھلے 20 برس میں طالبان سے لڑتے ہوئے تقریبا 70 ہزار افغان پولیس اور فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
Comments are closed.