امریکا میں مقیم افغان فٹ بال کپتان شبنم موباریز نے عالمی فٹ بال گورننگ باڈی فیفا سے مطالبہ کیا کہ وہ مداخلت کرے اور ان کے ساتھیوں کو طالبان سے بچائے کیونکہ طالبان نے گزشتہ ہفتے ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔
طالبان کی افغانستان میں فتح کے بعد، افغان خواتین کا مستقبل غیر یقینی ہے کیونکہ طالبان نے (1996-2001) تک اپنی حکمرانی کے دور میں خواتین کو بری طرح ظلم کا نشانہ بنایا۔
افغانستان کی قومی خواتین فٹ بال ٹیم کی کپتان شبنم موباریز نے فیفا سے اپنی ساتھی کھلاڑیوں کی مدد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
شبنم موباریز نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ساتھی کھلاڑی کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بارے میں بتایا ہے۔
انہوں نےاپنی ساتھی کھلاڑی سے خیریت دریافت کی جس کا جواب انہیں ملا کہ ’نہیں میں ٹھیک نہیں ہوں، میں جانتی ہوں کہ وہ جلد میرے پاس آئیں گی، کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں؟‘
شبنم نے اپنی ساتھی کھلاڑی کااحوال سناتے ہوئے عالمی فٹ بال گورننگ باڈی فیفا سے سوال کیا کہ ’میں سوال کا جواب کیسے دوں؟ ہمیں اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے کام کرنا چاہیے، وہ میری بہنیں ہیں۔‘
افغان حکمرانی میں 1996سے لیکر 2001 تک، افغان خواتین کو کام کرنے، پڑھنے یا گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی جب تک کہ ان کے ساتھ کسی محرم مرد کا ساتھ نہ ہو اور انہوں نے اپنے پورے جسم کو ڈھانپا ہوا نہ ہو جبکہ ایسی خواتین جنہوں نے اس طرح کے قوانین کی خلاف ورزی کی انہیں سرعام کوڑوں سے مارا گیا اور پھانسیاں دی گئیں۔
2001ء میں امریکی مداخلت کے بعد طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا جس کے بعد افغانستان کی خواتین فٹ بال ٹیم کو 2007 میں تشکیل دیا گیا تھا اور اس ٹیم نے 2012 میں قطر کے خلاف اپنا پہلا میچ کھیلا تھا۔
گزشتہ ہفتے جب طالبان نے ملک پر قبضہ کیا تو قومی ٹیم کی سابق کپتان خالدہ پوپل نے تمام خواتین کھلاڑیوں پر زور دیا کہ وہ اپنی شناخت اور جانوں کے تحفظ کے لیے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کردیں اور اپنی کٹس کو جلادیں۔
Comments are closed.