بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

افغانستان کی جنگ امریکہ کو کتنی مہنگی پڑی ہے؟

افغانستان کی جنگ امریکہ کو کتنی مہنگی پڑی ہے؟

افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

افغانستان میں تنازع کو ختم کرنے اور امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے امریکہ اور طالبان کے مابین کئی ماہ تک بات چیت ہوئی ہے۔

صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کو اب ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

ہم نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ اس جنگ پر امریکہ نے کتنا پیسہ خرچا ہے؟

یہ بھی پڑھیے

امریکہ نے کون سی فورسز بھیجی تھیں؟

اکتوبر 2001 میں امریکہ نے طالبان کو بے دخل کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا، جو امریکہ کے بقول اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر افراد جو نائن الیون حملوں سے وابستہ ہیں، انھیں پناہ دے رہے تھے۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ اس وقت ہوا جب واشنگٹن نے طالبان کی شورش کا مقابلہ کرنے اور تعمیر نو کے لیے فنڈ کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کیے۔

امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، 2010 سے لے کر 2012 کے درمیان، جب امریکہ کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی افغانستان میں موجود تھے، تو اس جنگ پر آنے والی لاگت ایک کھرب ڈالر سالانہ تک بڑھ گئی تھی۔

جب امریکی فوج نے اپنی توجہ جارحانہ کارروائیوں سے ہٹا کر افغان افواج کی تربیت پر مرکوز کی تو ان اخراجات میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔

افغانستان

2016 سے 2018 کے درمیان سالانہ اخراجات 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے، اور 2019 (ستمبر تک) کے لیے خرچ کا تخمینہ 38 ارب ڈالر ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک) مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے۔

اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے تعمیر نو کے منصوبوں پر 44 ارب ڈالر خرچ کیے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں جنگ کے آعاز سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن اس میں پاکستان میں آنے والے اخراجات شامل نہیں جسے امریکہ افغان سے متعلقہ کارروائیوں کے لیے اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔

براؤن یونیورسٹی کے ‘کاسٹ آف وار ‘ منصوبے میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی جنگ کے بارے میں امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کافی حد تک کم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کانگریس نے افغانستان اور پاکستان میں آپریشنز کے لیے 978 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔

Afghanistan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

‘کاسٹ آف دی وار’ منصوبے کے شریک ڈائریکٹر نیٹا کرورفورڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں ‘جنگ کے سابق فوجیوں کی دیکھ بھال، جنگ سے متعلقہ سرگرمیوں کے لیے دوسرے سرکاری محکموں پر خرچ کی جانے والی رقم اور قرض پر سود کی لاگت کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔’

پیسہ کہاں گیا؟

اس رقم کا زیادہ تر حصہ انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں اور امریکی فوجیوں کی ضروریات جیسے کھانے، لباس، طبی دیکھ بھال، خصوصی تنخواہ اور مراعات پر خرچ کیا گیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں پچھلے 18 سالوں میں ہونے والی تعمیر نو کی کوششوں میں خرچ ہونے والی تمام رقم کا تقریباً 16 فیصد یعنی 143.27 ارب ڈالر ادا کیا۔

اور اس میں سے نصف سے زیادہ یعنی 88.32 ارب ڈالر افغان نیشنل آرمی اور پولیس فورس سمیت افغان سکیورٹی فورسز کی تیاری میں خرچ ہوا۔

افغانستان

باقی رقم بنیادی طور پر گورننس اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے ساتھ ساتھ معاشی اور انسان دوست امداد اور منشیات کے خلاف اقدامات پر خرچ کی گئی۔

امریکہ نے انسداد منشیات کی کوششوں پر اوسطاً 15 لاکھ ڈالر یا 2002 سے گذشتہ سال ستمبر تک نو ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔

پھر بھی اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2017 میں افیون کی کاشت کے لیے مختص رقبے میں ہونے والا اضافہ ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

2017 میں، تعمیر نو کے نگراں ادارے کا کہنا تھا کہ گذشتہ 11 سالوں میں ‘ضیاع، دھوکہ دہی اور غلط استعمال‘ پر تقریباً 19 ارب ڈالر ضائع ہوچکے ہیں۔

نگراں ادارے کے مطابق شاید یہ تعداد کل ضائع ہونے والی رقم کا صرف ایک حصہ ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ امریکی پیشہ ‘اکثر تنازعات کو بڑھاتا ہے، بدعنوانی کا باعث بنتا ہے اور باغیوں کے لیے حمایت کو تقویت دیتا ہے۔’

انسانی قیمت کتنی چکائی گئی؟

2001 میں جب سے طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تب سے اب تک امریکی افواج کو 2300 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کارروائی میں 20660 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2019 تک امریکی فوج کے تقریباً تیرہ ہزار اہلکار افغانستان میں تھے لیکن وہاں تقریباً گیارہ ہزار امریکی شہری بھی تھے جو کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔

لیکن افغان سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے جانی نقصان کے مقابلے میں امریکی ہلاکتوں کے اعداد و شمار بہت کم ہیں۔

افغان صدر اشرف نے پچھلے سال کہا تھا کہ 2014 میں ان کے صدر بننے کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز کے 45 ہزار سے زیادہ ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔

افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

افغان صدر اشرف نے پچھلے سال کہا تھا کہ 2014 میں ان کے صدر بننے کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز کے 45 ہزار سے زیادہ ارکان ہلاک ہوچکے ہیں

صدر غنی کا ہلاکتوں کے اعداد و شمار ظاہر کرنے کا فیصلہ غیر معمولی تھا کیونکہ امریکی اور افغان حکومتیں عام طور پر افغان ہلاکتوں کی تعداد شائع نہیں کرتی تھیں۔

تاہم کچھ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئیں اور بعض اوقات ایک دن میں اوسطاً 30 سے 40 اموات ہوتی ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) کے مطابق جب سے اس نے 2009 میں باقاعدگی سے شہری ہلاکتوں کا شمار رکھنا شروع کیا تھا تب سے ایک لاکھ سے زیادہ شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.