بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

افغانستان پر طالبان کا کنٹرول، سعودی عرب اب تک خاموش کیوں ہے؟

افغانستان میں طالبان: سعودی عرب افغانستان کے معاملے میں اب تک خاموش کیوں ہے؟

  • اعظم خان
  • بی بی سی اردو، اسلام آباد

فائل فوٹو

،تصویر کا ذریعہReuters

جب 1996 میں طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا تھا تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان وہ تین ممالک تھے جنھوں نے سب سے پہلے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے چند روز بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘افغانستان میں (لوگوں) نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں’۔

دوسری جانب متحدہ عرب امارات نے افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کو سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انھوں نے ’صدر غنی اور ان کے خاندان کو انسانی بنیادوں پر اپنے ملک میں خوش آمدید کہا ہے۔‘

تاہم متحدہ عرب امارات نے اب تک افغانستان میں طالبان کے قبضے کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

سعودی عرب کی حکومت نے اس پورے معاملے پر صرف اس حد آگاہ کیا ہے کہ افغانستان سے اس کے تمام سفارتکار بحفاظت ریاض واپس آ گئے ہیں۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق وزارت خارجہ نے (سفارتکاروں کو واپس بلانا) یہ فیصلہ افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال کے پیش نظر کیا ہے۔

لیکن اس کے علاوہ سعودی عرب نے پورے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے ایک ہفتے بعد گذشتہ پیر کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی وزیر خارجہ سے فون پر بات کی تھی۔ اس حوالے سے سرکاری سطح پر فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان افغانستان کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ طالبان کے حوالے سے کیا بات چیت ہوئی۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب جو سنہ 1996 میں طالبان کے ساتھ تھا، آج اتنا خاموش کیوں ہے؟

طالبان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آج کا سعودی عرب بدل چکا ہے

کابل میں پاکستان کے سابق سفیر سید ابرار حسین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ افغانستان میں صورتحال اتنی جلدی تبدیل ہوئی کہ سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے تقریباً سارے ممالک ابھی ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی پر گامزن نظر آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ پاکستان پڑوسی ملک ہے تو اس وجہ سے کسی حد تک اس کا نمایاں کردار نظر آ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ان کے مطابق ماضی میں سعودی عرب کے طالبان کے ساتھ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی حوالگی سے متعلق بے نتیجہ مذاکرات تلخیوں کا باعث بنے تھے۔ تاہم ان کے مطابق اب طالبان کی نظریاتی سمت میں بھی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ اب ’سعودی عرب بدل چکا ہے اور اس کی سوچ میں بھی مکمل تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔‘

تاہم ان کے مطابق یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ اب 20، 25 سال پہلے والے طالبان بھی نہیں رہے جن پر سعودی عرب کے گہرے اثرات تھے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے شمشاد احمد خان نے کہا کہ اب طالبان اور سعودی عرب کے درمیان وہ گرمجوشی نہیں رہی جو طالبان کے پہلے دور حکومت میں نظر آتی تھی۔

طالبان

،تصویر کا ذریعہEPA

ان کے مطابق بظاہر اب یوں لگتا ہے کہ طالبان کے لیے ’قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکی کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔‘

ان کے خیال میں جس شہر کو طالبان نے اپنا سیاسی ہیڈ کوارٹر بنائے رکھا (یعنی دوجہ)، سعودی عرب کو تو ’اس نام سے بھی گھن آتی ہے۔‘

سعودی عرب میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک صحافت کرنے والے تجزیہ کار راشد حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ عرصے میں سعودی عرب میں بڑی زبردست تبدیلی واقع ہو چکی ہے مگر یہ صرف قیادت کی تبدیلی نہیں بلکہ مکمل سوچ کی تبدیلی ہے۔

راشد حسین کے مطابق ’اُس وقت سعودی عرب پین اسلام ازم کی راہ پر گامزن تھا اور اس نے اپنے انتہا پسند عناصر کو افغانستان کی طرف راغب کیا تھا جبکہ آج سعودی عرب میں محمد بن سلمان ہیں جو اپنے آپ کو ایک عملیت پسند لیڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں، اگرچہ ان کے اس تاثر کو سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے بہت دھچکا پہنچا۔‘

کابل میں پاکستان کے سابق سفیر ابرار حسین کے خیال میں سعودی عرب ’تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو‘ کی پالیسی پر گامزن نظر آتا ہے۔ ان کے مطابق ’بظاہر پورا گلف ہی مغرب کی طرف دیکھ رہا ہے جبکہ اس بار چین، روس اور ایران طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر آ رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق کچھ عرصہ قبل ’پاکستان اور افغانستان کے علما کے نمایاں وفود افغانستان میں اتفاق رائے کے حوالے سے سعودی عرب ضرور گئے تھے مگر اس کے علاوہ سعودی عرب کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا ہے۔‘

کیا سعودی عرب ایک نئی ڈگر پر چل رہا ہے؟

اس سوال کے جواب میں کہ سعودی عرب کیسے مکمل طور پر ایک نئی ڈگر پر ہے، ابرار حسین کا جواب تھا کہ ’آج سعودی عرب جہادی عناصر سے دوری اختیار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور اس کے لیے اسرائیل اہمیت کا حامل ملک بن چکا ہے۔ اس وقت ایران کے خلاف اسرائیل اور سعودی عرب آگے آگے نظر آتے ہیں۔‘

طالبان

لائن

ان کے مطابق اگرچہ امریکہ میں جو بائیڈن کے آنے کے بعد سعودی عرب کے ایران کی جانب لہجے میں کسی حد تک تلخی کم ہوئی ہے مگر بظاہر سعودی عرب کی توجہ کا مرکز اب اسرائیل بن چکا ہے۔

ان کے مطابق ماضی میں سعودی عرب کو ایران کے خلاف پاکستان سے توقعات تھیں ’مگر وہ پوری نہ ہو سکیں جس بنیاد پر سعودی عرب نے نئے اتحادی تلاش کر لیے، جسے محمد بن سلمان کی عملیت پسند پالیسی کہا جاتا ہے۔‘

صحافی راشد حسین کے مطابق اس وقت ’سعودی عرب میں طالبان کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق کوئی بحث نہیں چل رہی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب طالبان اور دیگر افغان دھڑوں کا مرکز طائف نہیں بلکہ دوحہ ہے۔‘

شمشاد احمد خان اور راشد حسین اس بات پر متفق ہیں کہ سعودی عرب اسلامی دنیا میں کسی حد تک اپنی اہمیت ضرور برقرار رکھنا چاہتا ہے مگر اس وقت وہ افغانستان میں طالبان گیم کا مرکزی حصہ نہیں ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.