افغانستان میں ڈرون حملے میں قانون کی خلاف ورزی نہیں غلطی ہوئی: امریکہ
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے انسپکٹر نے کہا ہے کہ 29 اگست کو جس ڈرون حملے میں 10 افغان شہری ہلاک ہوئے اس میں قانون کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ‘غلطی’ ہوئی تھی۔
امریکی فضائیہ کے انسپکٹر لیفٹیننٹ جنرل سمیع سعید نے رپورٹروں کو بتایا کہ یہ ایک ‘دیانت دارانہ غلطی’ تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ حملہ کرنے والے امریکی اہلکار دیانت داری سے یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ کابل ایئرپورٹ پر موجود امریکی فوجیوں اور سفارتی عملے کو شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے لاحق ‘متوقع خطرے’ کو ہدف بنا رہے تھے۔
اس حملے میں تین بالغ افراد اور سات بچے ہلاک ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ امریکہ نے یہ ڈرون حملہ کابل ایئرپورٹ پر خوفناک دہشتگرد حملے کے بعد کیا تھا۔ 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر دولت اسلامیہ خراساں کے ایک دہشتگرد حملے میں 170 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کابل میں 29 اگست کو امریکی ڈرون حملے میں ایک امدادی تنظیم کا کارکن اور اس کے خاندان کے نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں سات بچے شامل تھے اور سب سے کم عمر بچی محض دو سال کی تھیں اور سب سے بڑے بچے فرزاد کی عمر 12 سال تھی۔
حملے کے بعد اس خاندان کے ایک رشتے دار رامین یوسفی نے کہا تھا کہ یہ ‘غلط معلومات’ پر مبنی ایک ‘ظالمانہ حملہ’ تھا۔
‘اُنھوں نے ہمارے خاندان کو کیوں مارا؟ ہمارے بچوں کو؟ یہ اس قدر جل چکے ہیں کہ ہم اُن کی لاشوں، اُن کے چہروں کو بھی نہیں پہچان سکتے۔’
دوسری جانب لیفٹیننٹ جنرل سمیع سعید نے کہا ‘عملدرآمد میں غلطی، تصدیق کا تعصب، اور کمیونکیشن کے مسائل’ نے اس ‘شہریوں کی افسوسناک ہلاکتوں’ میں کردار ادا کیا۔
لیکن اُنھوں نے کہا کہ تحقیقات میں جنگ کے قانون سمیت دیگر قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں پائی گئی۔
ملکہ خان ان سات بچوں میں سے ایک تھیں جو کابل میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے
’افسوسناک غلطی‘
امریکی ڈرون حملہ اس وقت ہوا تھا جب امدادی کارکن زمیری احمدی اپنے گھر کے گیراج میں آئے جو ایئرپورٹ سے قریب تین کلومیٹر دور تھا۔
امریکی ڈرون حملے کے فوراً بعد ایک دوسرے دھماکے کی بھی آواز سنی گئی تھی۔ امریکی فوج کو لگا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کار میں دھماکہ خیز مواد تھا مگر حالیہ تحقیق میں پتا چلا ہے کہ اس دوسرے دھماکے کی ممکنہ وجہ گیراج میں پڑا گیس سلنڈر تھی۔
ہلاک ہونے والوں میں احمد ناصر شامل تھے جو امریکی فوج کے لیے مترجم تھے۔ دیگر متاثرین عالمی تنظیموں کے ساتھ ماضی میں ملازمت کر چکے تھے اور کچھ کے پاس امریکہ داخلے کے ویزے بھی تھے۔
یہ بھی پڑھیے
حملے کے چند دن بعد ایک بیان میں امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن نے کہا تھا کہ ’ہمیں اب معلوم ہے کہ زمیری احمدی اور دولت اسلامیہ خراسان میں کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس دن ان کی سرگرمیاں کسی خطرے کا باعث نہیں تھیں۔‘
’ہم معذرت خواہ ہیں اور ہم ایسی خوفناک غلطی سے سیکھنے کی کوشش کریں گے۔‘
اسی طرح سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینیتھ مکینزی کے مطابق امریکی انٹیلیجنس نے امدادی تنظیم کے کارکن کی گاڑی کو آٹھ گھنٹے تک ٹریک کیا۔ انھیں لگا کہ اس کا تعلق نام نہاد دولت اسلامیہ خراساں گروپ سے ہے۔
تحقیق سے پتا چلا کہ موصول ہونے والی انٹیلیجنس کا دعویٰ تھا کہ یہ کار دولت اسلامیہ خراساں سے منسلک ہے اور کابل ایئرپورٹ پر ایک مزید حملے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
انٹیلیجنس کا دعویٰ تھا کہ ڈرون کیمرے میں ایک شخص کو اس کار میں دھماکہ خیز مواد رکھتے دیکھا جا سکتا ہے مگر درحقیقت یہ پانی کے کنٹینر تھے۔
’درست ٹویوٹا کرولا نہیں پہچانی‘
مگر اب لیفٹیننٹ جنرل سعید کا کہنا تھا کہ ‘ممکنہ طور پر غلطی انٹیلیجنس سے نہیں ہوئی بلکہ اس انٹیلیجنس سے متعلقہ گھر کا تعین کرنے میں ہوئی۔’
اُنھوں نے کہا کہ انٹیلیجنس معلومات کے مطابق ایک سفید ٹویوٹا کرولا گاڑی میں دھماکہ خیز مواد تھا مگر امریکہ نے غلط گاڑی کو ٹریک کیا۔
‘ہم نے وہ ٹویوٹا کرولا نہیں پہچانی جو ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں پہچاننی چاہیے تھی۔’
اُنھوں نے کہا کہ حملے میں شامل افراد کو یقین تھا کہ گھر خالی ہے مگر وہ راکٹ حملے سے صرف دو منٹ قبل مذکورہ جگہ پر ایک بچے کو داخل ہوتے دیکھنے میں ناکام رہے تھے۔
امریکی فوج کا کہنا تھا کہ چونکہ ایئرپورٹ پر گذشتہ حملے میں دھماکہ خیز مواد ایک کمپیوٹر بیگ میں رکھا گیا تھا، اس لیے جب ڈرون حملے میں شامل اہلکاروں نے کمپیوٹر بیگ اٹھائے لوگوں کو دیکھا تو اُنھیں لگا کہ یہی ہدف ہیں، اور یہ ‘تصدیق کا تعصب’ تھا۔
اس پر لیفٹیننٹ جنرل سمیع سعید نے کہا کہ ‘جیسا کہ ثابت ہوا، اور ہم یہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ یہ کمپیوٹر بیگ تھا’ نہ کہ دھماکہ خیز مواد۔
Comments are closed.