meet japanese singles free pen pals usa asian dating uk free alice facebook profiles russian dating site profiles

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

افغانستان میں طالبان ’اقتدار‘ میں، اشرف غنی کس حد تک ذمہ دار ہیں؟

افغانستان میں طالبان ’اقتدار‘ میں، اشرف غنی کس حد تک ذمہ دار ہیں؟

  • سروج سنگھ، مانسی داش
  • بی بی سی، ہندی

اشرف غنی

،تصویر کا ذریعہPOOL/GETTY

،تصویر کا کیپشن

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک چھوڑنا ہی ملک کے حق میں بہتر ہے

طالبان نے جس تیزی سے افغانستان پر اپنا قبضہ جمایا ہے اس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں افغانستان کے صوبائی دارالحکومت طالبان جنگجوؤں کے سامنے تاش کے پتوں کی طرح بکھرتے نظر آئے۔

ممکنہ خون خرابے سے بچنے کے لیے کئی صوبوں کے گورنروں نے خود طالبان کے سامنے سرنڈر کیا اور سکیورٹی فورسز کو مزاحمت نہ کرنے کے آرڈرز جاری کیے۔ دارالحکومت کابل پر طالبان نے جتنی آسانی سے قبضہ کیا ہے یہ اس حقیقت کی بہترین مثال ہے کہ طالبان کے سامنے افغانستان کی صوبائی حکومتیں کس قدر کمزور تھیں۔

اتوار کو طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا اور صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے جانے سے ملک میں ایک سیاسی ویرانی پھیل گئی۔ لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ جن لوگوں کو ملک کی کمان سونپی تھی اور عوام کے تحفظ کی ذمہ داری دی گئی تھی وہ مشکل کے وقت میں اس طرح الٹے پیروں کیوں بھاگ گئے۔

افغانستان کے عوام اس وقت بے حد بے بس محسوس کر رہے ہیں۔

امریکہ کی پیشن گوئی غلط ثابت ہوئی

گذشتہ ہفتے امریکی خفیہ ادارے کی ایک لیک ہونے والی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ دارالحکومت کابل آنے والے ہفتوں میں طالبان کے حملے کی زد میں آ سکتا ہے اور ملک کی حکومت تین ماہ کے اندر گر سکتی ہے۔

لیکن صرف تقریباً دس دنوں میں طالبان نے ملک کے تمام اہم شہروں میں اپنے قدم جما لیے ہیں اور اب دارالحکومت بھی اب ان کے قبضے میں ہے۔ گذشتہ 48 گھنٹوں میں افغانستان میں جو کچھ بھی ہوا ہے اسے دیکھ کر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک جمہوری ملک میں حکومت اتنی تیزی سے کیسے گر سکتی ہے۔

جاتے جاتے صدر اشرف غنی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا تھا ’عوام غیر یقینی مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہے۔ طالبان کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ تمام عوام کو، پورے ملک کو، سماج کے ہر طبقے اور افغانستان کی خواتین کو یقین دلائیں اور ان کے دلوں کو جیتیں۔‘

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اشرف غنی یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے ملک کی اندرونی حالات کیا ہیں؟ یا کیا وہ سب کچھ جانتے ہوئے اس دن کا انتظار کر رہے تھے یا یہ سب قسمت کا کھیل تھا جس سے افغان حکومت اور امریکی خفیہ ادارے مکمل طور پر لاعلم تھے؟

افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ستمبر 2001 میں امریکہ پر ایک بڑا دہشت گردی کا حملہ ہوا جس کے لیے امریکہ نے القاعدہ کو قصوروار ٹھہرایا۔ اس کے بعد القاعدہ کی حمایت کرنے کے الزام میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر کے وہاں ایک جمہوری حکومت کی راہ ہموار کی۔ تب سے اب تک امریکہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے تھا۔

لیکن طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کے آغاز کے بعد امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوج واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ دوحہ کے دارالحکومت قطر میں ابھی مذاکرات جاری تھے کہ طالبان نے تیزی سے افغانستان کے شہروں اور قصبوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کر دیا۔ افغانستان کی فوج طالبان جنگجوؤں کے سامنے ڈھیر ہوتی گئی۔

امریکہ، برطانیہ اور نیٹو افواج نے گذشتہ 20 برسوں میں افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت میں کافی پیسہ اور وقت خرچ کیا ہے۔

امریکہ اور برطانیہ کے متعدد فوجی جرنیلوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے ایک مضبوط اور طاقتور افغان فوج تیار کر دی ہے لیکن طالبان نے جتنی تیزی سے ملک پر اپنا کنٹرول مستحکم کیا ہے اس کے سامنے یہ سارے وعدے اور دعوے کھوکھلے لگ رہے ہیں۔

طالبان امریکہ کی پیشن گوئی سے بہت تیزی سے ملک پر قابض ہوئے ہیں۔

جب طالبان جنگجو دارالحکومت کابل کے مضافات میں تھے تب صدر اشرف غنی عوام کو یقین دلا رہے تھے کہ حالات قابو میں ہیں۔

ٹوئٹر پر ایک پیغام میں انھوں نے لکھا تھا کہ ’دارالحکومت کابل میں فائرنگ کے معمولی واقعات ہوئے ہیں لیکن شہر پر حملہ نہیں ہوا ہے۔ سکیورٹی فورسز اور فوج کابل کو محفوظ رکھنے کے لیے بین الاقوامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں اور حالات قابو میں ہیں۔‘

لیکن اس پیغام کے چند گھنٹوں کے بعد ہی یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ طالبان جنگجو کابل شہر میں داخل ہوئے اور رات کو یہ خبر آئی کہ اشرف غنی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

ملک چھوڑنے پر وضاحت دیتے ہوئے اشرف غنی نے لکھا کہ طالبان کے کابل پہنچنے کے بعد اگر میں وہاں رہتا تو تشدد ہوتا جو لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا تھا۔

ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اشرف غنی نے اچانک ملک چھوڑ کر ملک کو ایک نئے قسم کے بحران میں ڈال دیا ہے۔

افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

طالبان اشرف غنی کے خلاف

سنہ 2017 میں اشرف غنی نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اس دنیا میں افغانستان کا صدر بننا سب سے مشکل کام ہے۔ یہاں مسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اور اس میں سب سے بڑا چیلنج سکیورٹی ہے۔‘

جس وقت انھوں نے یہ انٹریو دیا تھا اس وقت انھیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ ان کا آنے والا وقت اور بھی مشکل اور چلینجیز سے بھرا ہو گا۔

بینرر

لائن

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدے کی کوششوں کے درمیان طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان پر طاقت کے زور پر کنٹرول نہیں چاہتے ہیں اور جب تک کابل میں نئی ​​حکومت نہیں بنے گی اور صدر اشرف غنی کو عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا تب تک ملک میں امن کا قیام نہیں ہو گا۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ ’مذاکرات کے بعد کابل میں ایک حکومت بنائی جائے گی جو تمام فریقوں کے لیے قابل قبول ہو گی اور اشرف غنی کی حکومت ختم ہو جائے۔‘

اشرف غنی اور طالبان

اشرف غنی ایک سابق ٹیکنوکریٹ ہیں جنھوں نے افغانستان واپس لوٹنے سے پہلے اپنی زندگی کا بیشتر وقت بیرونی ممالک میں گزارا ہے۔ اشرف غنی ایک لمبے وقت تک امریکہ میں ایک پروفیسر رہے اور انھوں نے ورلڈ بینک میں بھی ملازمت کی ہے۔

اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کو اتنے بہتر طریقے سے نہیں سمجھتے ہیں جتنے بہتر طریقے سے سابق صدر حامد کرزئی سمجھتے ہیں۔

طالبان کے زوال کے بعد اشرف غنی کو پہلی بار شہرت اس وقت ملی جب وہ لویا جرگے کے ممبر تھے۔

2002 میں جب حامد کرزئی افغانستان کے صدر تھے اس وقت اشرف غنی ان کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ حامد کرزئی کی حکومت میں انھیں وزیر خزانہ بنایا گیا۔ ان کے آج کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ اس وقت وزیر خارجہ تھے۔

حامد کرزئی کی حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد اشرف غنی دوبارہ تعلیم کے شعبے سے منسلک ہو گئے اور سنہ 2004 میں انھیں کابل یونیورسٹی کا چانسلر منتخب کیا گیا۔

اس وقت افغانستان کو بے حد بیرونی مالی امداد موصول ہو رہی تھی اور خاص طور امریکہ مالی امداد دے رہا تھا۔

اشرف غنی اس طرح کی امداد کے سخت مخالف تھے۔ ان کے خیال تھا کہ اس طرح کی امداد کے ذریعے افغانستان میں ایک متوازی حکومت چلانے کی کوشش کی جا رہی تھی جو ایک طرح سے افغانستان کے اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش تھی۔

جو بائیڈن اور اشرف غنی

،تصویر کا ذریعہREUTERS/Jonathan Ernst/File Photo

،تصویر کا کیپشن

طالبان اشرف غنی کی حکومت کو امریکہ کے ہاتھوں کی ایک کٹھ پتلی سمجھتے تھے

اشرف غنی اور طالبان کے اختلافات

پشتون برادری سے تعلق رکھنے والے اشرف غنی جب 2014 میں صدر کا الیکشن جیتے تو اس وقت ان پر دھوکہ دہی کے الزامات بھی لگے تھے۔

سنہ 2019 کے انتخابات میں طالبان نے ان پر اتنخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا۔ ان کے اقتدار سنبھالتے ہی طالبان نے ان کی ساکھ کو چیلنج کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔

وہ سنہ 2019 میں امریکہ اور طالبان کے مابین افغانستان کے بارے میں ہونے والے امن مذاکرات میں شریک نہیں تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان نے انھیں امریکہ کی کٹھ پتلی کے طور پر دیکھا ہے۔ اقتدار کی مجبوری کہیے یا اس کو مضبوط کرنے کی کوشش، اشرف غنی نے ہمیشہ طالبان سے سمجھوتے کی کوشش کی ہے۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار 2018 میں اشرف غنی نے طالبان کو معاہدے کی پیشکش کی تھی جس کے بعد اسی سال جون کے مہینے میں تین دنوں تک سیز فائر یعنی جنگ بندی بھی رہی تھی۔

چار مئی 2021 کو فارن افئیرز ڈاٹ کام کے لیے لکھے ایک آرٹیکل میں اشرف غنی نے کہا تھا ’میری حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔ اگر طالبان کو امن قبول ہے تو میں اپنا دور اقتدار جلد ختم کرنے کو تیار ہوں۔‘

لندن کے ایس او ایس ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ میں عالمی امور کے سینیئر لیکچرار اوینشاش پالیوال نے افغانستان کے بارے میں ایک کتاب ’مائی انیمیز اینمی‘ لکھی ہے۔

بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے اویناش پالیوال کا کہنا تھا ’طالبان کے اشرف غنی سے نظریاتی اختلافات ہیں۔ اشرف غنی ایک ایسے نظام کی علامت ہیں جو طالبان کو منظور نہیں ہے۔ اشرف غنی جمہوری نظام کے سربراہ ہیں اور اگر طالبان نے اشرف غنی کو قبول کر لیا تو اس کا یہ مطلب یہ نکالا جائے گا کہ انھوں نے جمہوریت کو قبول کر لیا۔ اس طرح طالبان جس طرح کے افغانستان کا تصور کرتے ہیں وہ بیکار ہو جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’افغانستان میں گذشتہ 20 برسوں میں جو سیاسی نظام بنا ہے ہم اس کو راتوں و رات ختم نہیں ہونے دیں گے۔۔ یہ واضح ہے کہ یہ دو مختلف نظریوں کا ٹکراؤ ہے۔‘

’یہی ہے طالبان اور اشرف غنی کے درمیان اختلافات کی اہم وجہ۔ ویسے اس وقت افغانستان کو جو بھی صدر ہوتا طالبان اس کو ہٹانے کی شرائط رکھتے۔‘

ملا برادر

،تصویر کا ذریعہReuters

پروفیسر غنی اور صدر غنی

اشرف غنی نے ’فکسنگ فیلڈ سٹیٹ‘ نامی ایک کتاب لکھی ہے۔ یہ کتاب متعدد بار ان پر تنقید کی وجہ بھی بنتی ہے۔

کتاب میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ جب اُن کے ہاتھوں میں افغانستان کا اقتدار آیا تو وہ خود اس میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں لا سکے یعنی ایک ’فیلڈ سٹیٹ‘ یا ناکام ریاست کو درست کرنے کے لیے وہ اپنی ہی تجویز کی ہوئی ہدایات کو عمل میں نہیں لا سکے۔

ڈاکٹر اویناش پالیوال کہتے ہیں ’کتاب لکھنا اور اپنے اقتدار کے دوران ان باتوں پر عمل کرنا دو علیحدہ باتیں ہیں۔ اکیلا انسان یہ سب کر بھی نہیں سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر ایوناش کا کہنا ہے کہ ان ہدایات کو عملی جامہ نہ پہنانے کے پیچھے اشرف غنی کی شخصیت بھی ایک اہم وجہ رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’اقتدار سنبھالنے کے بعد شروعات میں وہ اپنی کتاب کے مطابق ’سپہ سالاری کے نظام‘ کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ ایسا کرنے کی کوشش میں انھوں نے اس وقت سخت مؤقف اختیار کیا اور انتخابات کرانے کی بات کرنے لگے۔ اس وقت انھیں امریکہ کی حمایت اور اپنی طاقت پر غرور تھا۔‘

ایسا کرنے کی کوشش میں انھوں نے اقتدار میں بیٹھے طاقتور لوگوں سے اپنے رشتے خراب کر لیے۔ سنہ 18-2017 تک جب انھيں تبدیلی لانے کا تھوڑا احساس ہوا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور کھویا ہوا اعتماد وہ دوبارہ حاصل نہیں کر سکے۔

اب حالات یہ ہیں کہ افغانستان کو تحفظ فراہم کرنے اور ترقی کی راہ پر لے جانے کا دعویٰ کرنے والے اشرف غنی خود ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

یہ سوالات پوچھے جاتے رہیں گے کہ واقعی وہ طالبان کی طاقت کو نہیں سمجھ پائے تھے؟ کیا حقیقت میں انھوں نے امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو افغانستان کی صحیح تصویر پیش نہیں کی تھی؟ یا پھر وہ سب کچھ جاتنے ہوئے خاموش رہے؟ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.