افغانستان کے مسئلے پر منعقد ہونے والے نیٹو وزرائے خارجہ کے خصوصی اجلاس میں نیٹو نے افغانستان میں انتشار ختم کرنے اور ایک متفقہ حکومت بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزرائے خارجہ کے اس خصوصی اجلاس کے بعد نیٹو ہیڈ کوارٹر برسلز میں آن لائن پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیٹو سیکٹری جنرل جینز اسٹولٹنبرگ نے کہا کہ اس وقت ساری دنیا کی نظریں افغانستان پر ہیں۔
ہم توقع کرتے ہیں کہ طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغانستان دوبارہ بین الاقوامی دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ نہ بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کو ملک بھر میں تشدد کا خاتمہ کرنا چاہیے اور تمام افغان شہریوں، مردوں، عورتوں اور بچوں کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھیں۔
سیکریٹری جنرل نیٹو نے کہا کہ برسوں وہاں نیٹو کی موجودگی اور پوری عالمی برادری کی حمایت نے افغانوں کو بے مثال سماجی، معاشی اور سیاسی ترقی کا موقع دیا ہے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ کوئی بھی افغان حکومت جو اس پیش رفت کو کالعدم کرنے کی کوشش کرے گی، اسے بین الاقوامی تنہائی کا خطرہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اجلاس میں وزراء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم دہشت گردوں کو افغانستان میں دوبارہ بیٹھ کر دھمکانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
سیکریٹری جنرل نے کہا کہ نیٹو کی افغانستان میں شمولیت 9/11 کو امریکہ پر دہشتگرد حملوں کے جواب میں تھی۔ ہمارا مقصد دہشتگردوں کو افغانستان سے مزید حملوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر روکنا تھا۔ اسی لیے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان سے اتحادی سرزمین پر کوئی منظم دہشت گردانہ حملے نہیں کیے گئے۔ اپنی حفاظت کیلئے ہمیں ان فوائد کو محفوظ رکھنا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے نیٹو اتحادیوں کو پیغام دیا کہ شمالی امریکہ اور یورپ کو نیٹو میں ایک ساتھ کھڑے رہنا چاہیے۔ افغانستان میں پیش آنے والے واقعات اس کو تبدیل نہیں کرتے۔
روس کے جارحانہ اقدامات، چین کا عروج اور بدلتا ہوا عالمی توازن اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہم ٹرانس اٹلانٹک بندھن کو مضوط بنائیں۔
قبل ازیں اپنی پریس کانفرنس کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ ہماری ساری توجہ اس افغانستان سے اپنے شہریوں اور اپنے ساتھ کام کرنے والے شہریوں کو نکالنے پر ہے۔ یہ ہماری پہلی ترجیح ہے۔
انہوں نے کابل ائیر پورٹ کو فعال رکھنے پر ترکی ، امریکہ، برطانیہ اور آذربائیجان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ انہوں نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ ہمیں افغانستان سے اپنے انخلاء کے خطرے اور نتائج کا واضح اندازہ تھا۔ لیکن افغانستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اور مسلح افواج کے خاتمے کی اس رفتار کی توقع نہیں تھی۔
اس کے ساتھ ہی نیٹو چیف نے نیٹو وزرائے خارجہ کی اس اجلاس میں گفتگو کے تناظر میں کہا کہ ہم افغانستان کے تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک متفقہ اور نمائندہ حکومت تشکیل دیں جس میں خواتین اور اقلیتوں کی با معنی نمائندگی بھی ہو۔ جبکہ نیٹو وزرائے خارجہ نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان سے جانے والے لوگوں کے محفوظ انخلاء کو یقینی بنائیں۔
Comments are closed.