افغانستان سے وسکونسن: پناہ گزینوں کا خواب صرف اپنا گھر
- انیسہ شاہد
- فورٹ مک کوئے، وسکونسن
جب امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالیں تو اس نے ان لاکھوں افغان شہریوں کے لیے ایک بحران پیدا کر دیا جنھوں نے امریکی فوج کی مدد کی تھی۔ بی بی سی کے لیے لکھتے ہوئے صحافی انیسہ شاہد نے امریکہ میں آباد ہونے والے مہاجرین میں سے کچھ سے ان کے ناقابلِ یقین سفر کے بارے میں بات کی اور ان لوگوں کے بارے میں پوچھا جنہیں وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔
گذشتہ اگست میں جب کابل ہوائی اڈے کے دروازوں سے گزرنا اتنا ہی خطرناک تھا جتنا کہ بحیرہ روم میں بیڑا لے جانا، تقریباً 150,000 افغان باشندے امریکہ جانے کے لیے ہوائی جہازوں میں سوار ہوئے۔
ان میں سے تقریباً 13,000 اپنی مشکلات سے لڑتے ہوئے جنوبی وسکونسن میں ایک امریکی فوجی اڈے میں آ کر آباد ہوئے۔
سکینہ، جو کابل کے دغا آباد علاقے میں ایک پرائیویٹ کنڈرگارٹن ٹیچر تھیں، ان میں سے ایک ہیں۔
وہ روتے ہوئے بتاتی ہیں کہ انھیں وہ دن یاد ہے جب طالبان کابل پہنچے تھے، جب سات یا آٹھ لوگ ان کی کلاس میں میں داخل ہوئے تھے جہاں وہ پڑھاتی تھی اور گولیاں چلائی تھیں، اور پھر سکول کے ڈائریکٹر کو AK-47 سے مارا تھا۔ بعد ازاں ان بچوں کے گھر والے خوفزدہ بچوں کو گھر لے گئے۔
لیکن اس شام کچھ ایسا ہوا جس سے سکینہ کو لگا کہ انھیں اب بھاگنا ہے۔ خود کو طالبان کہنے والے چار افراد نے ان کے گھر پر حملہ کیا۔ ان میں سے دو نے انھیں اور ان کے شوہر کو پکڑ لیا، جبکہ دیگر دو نے ان کی 14 سالہ بیٹی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی۔ ان کی چیخ و پکار نے ان کے پڑوسیوں کو چوکنا کر دیا، جو ان کی مدد کو آئے اور وہ بچ گئے۔
امریکی افواج کی مدد سے انھوں نے ہوائی اڈے کی طرف اپنا راستہ بنانا شروع کر دیا، جب ایک بم ان کے راستے کے قریب پھٹ گیا۔
اس دھماکے میں کم از کم 95 افراد ہلاک اور 150 دیگر زخمی ہوئے، جن میں ان کے شوہر بھی شامل تھے، جن کے پاؤں کی تین انگلیاں ضائع ہوئیں اور بعد میں انھیں ایک پاؤں کاٹنا پڑا۔
اپنے شوہر سے الگ، سکینہ اور ان کے چھ چھوٹے بچے قطر جانے والے ایک فوجی طیارے میں سوار ہونے سے دو دن قبل ہوائی اڈے پر انتظار کر رہے تھے۔
لیکن افراتفری کے درمیان، سیکنہ کی نوعمر بیٹی کھو گئی تھی اور انھیں اس کے بغیر سفر کرنے کا تکلیف دہ انتخاب کرنا پڑا۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کی بیٹی بھی فرار ہو گئی اور اب وہ ٹیکساس میں ہے اور وہ وسکونسن میں جلد سیکنہ کے پاس آنے والی ہے۔
فوجی اڈے پر موجود لوگوں کی ہر کہانی منفرد تھی۔ لیکن ان سب میں اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑنے کا درد، اور افغانستان کے مستقبل کے لیے امید بھری آواز سنائی دی۔
فوجی اڈے پر بہت سے افغان فورسز کے سابق ارکان اور ان کے اہل خانہ تھے۔ اگر وہ افغانستان میں رہتے تو طالبان انھیں دشمن کے ساتھیوں کے طور پر دیکھتے اور انھیں انتقامی کارروائیوں کا خوف تھا۔
وہ اپنے کام اور افغانستان چھوڑنے کے بارے میں بات کرنے سے گریزاں تھے۔ بعض نے کہا کہ اگر انھیں لڑنے اور حملہ کرنے کی اجازت دی جاتی تو طالبان کبھی حکومت کا تختہ الٹ نہیں سکتے تھے۔
بہت سے لوگوں نے کہا کہ وہ واپس آ کر افغانستان کا دفاع کریں گے۔لیکن دیگر جنگ سے تھک چکے تھے اور دوبارہ ہتھیار اٹھانا نہیں چاہتے۔
فورٹ میک کوئے فوجی اڈہ پناہ کے متلاشیوں کی دردناک کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ بہت سے لوگوں کے خاندان کے افراد طالبان کے قبضے میں ہیں اور کچھ دن رات چھپ کر گزارتے ہیں۔
افغانستان کے شمال میں ایک نجی ریڈیو سٹیشن کے لیے کام کرنے والے احمد شاہ آریئن کہتے ہیں کہ طالبان نے ان کے ایک بھائی کو گرفتار کر لیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسے اس وقت تک رہا نہیں کریں گے جب تک کہ اس کا بڑا بھائی، جو بغلان میں فوج کا کمانڈر تھا، ان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈال دیتا۔
احمد شاہ آریئن نے شہریوں کے خلاف طالبان کے مظالم کی بات کی، بشمول ان کی بھانجی کے خلاف، جس نے چند سال قبل بغلان کی ایک عدالت میں اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی۔
احمد شاہ کہتے ہیں کہ طالبان نے اب ان کی بھانجی نگینہ کے والد اور بھائی کو اغوا کر لیا ہے اور جب تک نگینہ اپنے سابق شوہر سے دوبارہ شادی نہیں کر لیتی، تب تک انھیں رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
55 سالہ حوا نے افغانستان کی وزارت برائے قومی سلامتی میں 22 سال کام کیا۔ اب وہ امریکہ میں گمنام زندگی گزرار رہی ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں اسی محکمے میں اہلکار تھیں، اور ان کے شوہر اور دو بیٹے بھی وزارت دفاع کے افسر تھے۔
حوا کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی ثنا طالبان کے آنے سے پہلے کابل میں تعلیم و تربیت اور صحت کی خدمات کے حوالے سے معلومات جمع کرنے کی انچارج تھیں۔
ان کے شوہر، جو ایک پولیس افسر تھے، طالبان کے آنے اور مزاحمتی فورسز میں شامل ہونے کے بعد کابل سے پنجشیر چلے گئے۔ لیکن جب طالبان نے پنجشیر کے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کیا تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ زندہ ہیں یا ہلاک ہوگئے ہیں۔ اب ثنا اپنے دو بچوں کے ساتھ اکیلی رہ گئی ہیں اور چھپنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ان کے خاندان کے پانچ افراد میں سے صرف حوا اور ان کی ایک بیٹی مرجان کاہمدیر امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
مرجان کاہمدیر اپنی والدہ کے ساتھ وزارت قومی سلامتی میں کام کرنے سے پہلے ایک نرس تھیں۔
جب ان کی والدہ نے افغانستان چھوڑنے کی بات کی، تو وہ حواس باختہ ہوگئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میں لوگوں کی خدمت کے لیے افغانستان میں رہنا چاہتی تھی، اور میں ایک دن واپس جانا چاہتی ہوں۔‘
لیکن دوسروں کے لیے، یہاں پر ہی مستقبل کی امید ہے۔
ننگرہار سے تعلق رکھنے والے ایک سپاہی مجیب زادہ تالاش، اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔
افغانستان میں انھوں نے صرف سیکنڈری سکول تک تعلیم حاصل کی تھی، اور ان کی بیوی غیر تعلیم یافتہ تھیں مگر لیکن ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ننگرہار کے سکول میں پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں انھیں کام مل جائے گا، لیکن ان کی بیوی اور بچے تعلیم حاصل کریں گے۔
Comments are closed.