بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد القاعدہ کی واپسی کا خوف

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد القاعدہ کی واپسی کا خوف

  • فرینک گارڈنر
  • بی بی سی، سیکیورٹی کے امور کے نامہ نگار

طالبان مخالف جنگجو

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

مغربی افواج کے انخلا کے بعد سے مقامی عسکریت پسندف گروہ افغان سیکیورٹی فورسز کے گرد گھیرا تنگ کرتے نظر آ رہے ہیں۔

مغربی انٹیلیجنس ایجینسیوں کے سربراہان پریشان ہیں۔ ان کے پاس اس پریشانی کی اچھی خاصی وجہ ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے احکامات کے مطابق افغانستان سے بقیہ مغربی افواج کے رواں ماہ انخلا نے طالبان شورش پسندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

حالیہ دنوں میں انھوں نے ایک کے بعد ایک ضلعے پر قبضہ کر لیا ہے، ایسے بہت سے اڈوں پر بھی قبضہ حاصل کرلیا ہے جہاں پست حوصلے کے شکار سرکاری فوجی اہلکار یا تو ہتھیار ڈال چکے ہیں یا فرار ہوگئے ہیں۔

مبصرین کو خدشہ ہے کہ اچانک انخلا کے بعد بین الاقوامی دہشت گردی کی افغانستان میں واپسی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

سکیورٹی اور دہشت گردی سے متعلق تجزیہ کار ڈاکٹر سجن گوہیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد طالبان کا قبضہ ناگزیر ہو جاتا ہے اور القاعدہ کو اپنے نیٹ ورک کی تعمیر نو کا موقع ملتا ہے، جہاں وہ ایک بار پھر دنیا بھر میں حملوں کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔‘

کارروائیوں میں توسیع

یہ یقینی طور پر افغان صورتحال کا زیادہ مایوس کن اختتام ہے لیکن یہاں دو چیزیں یقینی ہیں۔

اول یہ کہ طالبان جنھوں نے 1996-2001 تک طاقت کے زور پر افغانستان میں حکمرانی کی، وہ کسی نہ کسی صورت میں واپس آرہے ہیں۔

تاحال طالبان کا کہنا ہے کہ انھیں طاقت کے ذریعے دارالحکومت کابل پر قبضہ کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ لیکن ملک کے بڑے حصوں میں وہ پہلے ہی غالب طاقت ہیں اور انھوں نے اپنی انتہا پسند سوچ کے مطابق ملک کو اسلامی ریاست بنانے کا مطالبہ کبھی ترک نہیں کیا۔

دوسری بات یہ کہ صوبہ خراسان میں القاعدہ اور اس کی حریف دولت اسلامیہ، افغانستان میں اپنی کارروائیوں کو بڑھانے کے لیے مغربی افواج کی روانگی سے فائدہ اٹھانا چاہیں گی۔

line

مزید پڑھیے:

القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ (آئی ایس) پہلے ہی افغانستان میں وجود رکھتی ہیں جس کا بڑا حصہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔

اب تک افغان حکومت کی انٹیلیجنس سروس، این ڈی ایس، امریکی اور دیگر خصوصی دستوں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہے۔ یہ حکمت عملی اور تعاون صورتحال کو جزوی طور پر ہی قابو کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

Afghan special force commando unit officers and soldiers attend a graduation ceremony at the military academy in Kabul, Afghanistan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکی افواج کے بغیر افغان حکومت کا طالبان کے خطرے سے بچنا مشکل کام ہوگا

ابھی سے افغان فورسز کے حملوں کا آغاز ہو چکا ہے اور بمباری بھی شروع ہو چکی ہے۔ لیکن ان گنت مواقع پر مخبروں کے ذریعے حاصل ہونے والی اطلاع یا کسی موبائل فون کال کے نتیجے میں علم میں آنے والی دشمن کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات کی مدد سے افغان اور مغربی افواج کے دستے کارروائی کرتے ہیں۔

اب تک یہ رات کے اوقات میں کسی وقت اچانک اپنے دشمن کو پکڑ کر منٹوں میں ہی جوابی حملہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

اب اس طرح کے حملوں کا سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔

’برطانیہ کے لیے خطرہ بڑھے گا‘

طالبان نے اس ہفتے واضح کر دیا ہے کہ اگر گیارہ ستمبر کے بعد غیر ملکی افواج افغانستان میں رہ گئیں، چاہے وہ سفارت خانوں یا کابل کے ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے ہی تعینات کیوں نہ ہوں، تو وہ اُسے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی سمجھیں گے۔

طالبان نے افغانستان میں پیچھے رہ جانے والے کسی بھی غیر ملکی فوجی دستوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔

برطانوی انٹیلیجنس سروس کے سابق چیف، سر الیکس ینگر نے سکائی نیوز کو بتایا کہ ‘اگر مغرب نے افغانستان کو چھوڑ دیا تو اس سے براہ راست برطانیہ کے لیے دہشت گردی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔‘

برطانیہ کے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ امریکی فوجی اڈوں اور فوری ہوائی مدد کے بغیر ملک میں چند درجن ایس اے ایس یا برطانوی کمانڈو کو کیسے پیچھے چھوڑیں، اور نتیجتاً انھیں ایک شورش پسند طالبان کا شکار ہونے دیں۔

جیسا کہ طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ مغربی افواج کا مکمل انخلا ہونا چاہیے، تو ایسی صورت میں مغربی افواج کے پاس دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے میں انٹیلیجنس کی مدد سے کارروائی کرنے کا راستہ موجود نہیں رہے گا۔

القاعدہ-طالبان کے روابط

تو پھر طالبان اور القاعدہ کے تعلق کی حقیقت کیا ہے؟

کیا کسی طرح سے طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کا مطلب لامحالہ القاعدہ، اس کے تمام اڈوں، اس کے دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں جہاں کتوں پر زہریلی گیس کے گھناؤنے تجربات کیے گئے، اُن سب سرگرمیوں کی واپسی ہے؟

مختصر یہ کہ یہی تو سنہ 2001 میں امریکی قیادت میں ہونے والے حملے کا مقصد تھا کہ القاعدہ کے تمام مراکز کا خاتمہ۔

یہ سوال برسوں سے مغربی انٹیلیجنس کے سربراہان کو پریشان کر رہا ہے۔

اب دو مرتبہ، سنہ 2008 اور اس سال، برطانوی حکومت کی خفیہ دستاویزات نے انکشاف کیا ہے کہ ان دونوں گروہوں (القاعدہ اور طالبان) کے درمیان رابطوں کے بارے میں برطانیہ کو کتنی تشویش ہے۔

اپ کی ڈیوائس پر پلے بیک سپورٹ دستیاب نہیں
،آڈیو کیپشن

عنبر خیری نے ’دا ایگزائل‘ کے مُصبف ایڈرئین لیوی سے پوچھا:سب سے حیران کُن معلومات کیا تھیں؟

ڈاکٹر گوہل، جو برسوں سے اس خطے میں شدت پسند گروہوں کا مطالعہ کر رہے ہیں، انھیں ان رابطوں کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔

ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر گوہل نے کہا کہ ‘طالبان القاعدہ سے الگ نہیں ہیں۔ وہ ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی تعلقات اور روابط کو ترک نہیں کرسکیں گے، چاہے اس کی قیادت واقعی القاعدہ سے روابط ترک بھی کرنا چاہتی ہو۔’

بد شگونیاں

جب القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن نے سنہ 1996 میں اپنی سرگرمیاں سوڈان سے واپس افغانستان منتقل کیں، تب سے سنہ 2001 میں اپنی کاروائیوں تک، طالبان نے ان کو ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کی۔

اس وقت طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے صرف تین ممالک میں سے ایک سعودی عرب نے اپنے انٹیلیجنس کے سربراہ، شہزادہ ترکی الفیصل کو طالبان کے پاس بھیجا تھا تاکہ طالبان اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے پر راضی ہو جائیں۔

اُس وقت طالبان نے انکار کردیا تھا اور یہ القاعدہ کے افغان اڈے ہی تھے کہ جہاں سے القاعدہ نے گیارہ ستمبر، سنہ 2001 کے تباہ کن حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔

Osama bin Laden

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسامہ بن لادن کی قیادت میں القاعدہ نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان ہی میں کی تھی

لیکن برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس سٹاف، جنرل سر نِک کارٹر، جنھوں نے افغانستان میں مختلف قسم کی خدمات انجام دیں، کا خیال ہے کہ شاید طالبان کی قیادت کو اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق حاصل ہوچکا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ اگر طالبان اقتدار میں شراکت کے لیے، یا اس پر قبضہ کرنے کی توقع کرتے ہیں تو پھر وہ اس بار بین الاقوامی طور پر ایک الگ تھلگ حکومت نہیں بننا چاہیں گے۔

اور یہ ایک مشکل ہے۔ طالبان میں وہ سمجھدار رہنما جنھوں نے دوحہ کی عالیشان زندگی کا مزا لیا ہے، اپنی آئندہ کی حکومت کے لیے چاہیں گے کہ انھیں بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جائے، جس کے لیے وہ القاعدہ سے فاصلہ رکھنے کے لیے آپس میں بحث کر سکتے ہیں۔

لیکن افغانستان جیسے وسیع و عریض ملک میں جہاں ایک مرکزی حکومت کا وجود نہیں رہا ہے، وہاں یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ طالبان کی حکومت بھی القاعدہ پر قابو پاسکے گی، کیونکہ القاعدہ آسانی سے افغانستان کے دیہاتوں اور دور دراز وادیوں میں سرایت کرسکتی ہے۔

آخر کار اپنے اثر کو مزید پھیلانے کے لیے القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ کے گروہوں کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک انتشار والی اور ایک غیر مستحکم صورتحال ہے۔

تمام اشارے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں اس قسم کے حالات حاصل کرنے والے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.