بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

افغانستان سے انخلا کے بعد دنیا دہشت گردی کے خلاف کیسے لڑے گی؟

افغانستان سے انخلا کے بعد دنیا القاعدہ، دولتِ اسلامیہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کیسے لڑے گی؟

  • فرینک گارڈنر
  • بی بی سی کے سکیورٹی امور کے نامہ نگار

افغانستان

،تصویر کا ذریعہReuters

امریکہ، برطانیہ اور نیٹو کی افواج رواں سال گرمیوں میں افغانستان سے نکل رہی ہیں۔ طالبان ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور القاعدہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ نامی تنظیم کے حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب جب کہ مغرب کے فوجی وسائل افغانستان میں دستیاب نہیں ہوں گے تو دہشت گرد عناصر کا افغانستان میں سدباب کیسے ممکن بنایا جائے گا؟

مغربی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو اب بھی یقین ہے کہ یہ شدت پسند گروہ افغانستان میں بیٹھ کر مغربی ملکوں میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے کے ارادے رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح اوسامہ بن لادن نے گیارہ ستمبر سنہ 2001 میں کیا تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کرنے کی اعلان کردہ گیارہ ستمبر کی تاریخ کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ برطانوی پالیسی سازوں کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔

برطانوی چیف آف ڈیفینس سٹاف سر نک کارٹر نے حال ہی کہا تھا کہ ‘یہ وہ نتیجہ تو نہیں ہے جس کی ہمیں امید تھی۔’

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں صورتحال کے غیر یقینی کروٹ لینے سے یہ حقیقی خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ 20 برس میں دہشت گردی کے خلاف بھاری قیمت ادا کر کے جو کچھ حاصل کیا گیا ہے وہ بالکل بے کار چلا جائے گا۔

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں خطے کے امور کے ماہر جان رینی کا کہا ہے کہ ‘مسئلہ یہ ہے کہ صورت حال اس قدر تیزی سے خراب ہو کر کوئی ایسا رخ اختیار کر سکتی ہے کہ جس پر افغان حکومت بیرونی امریکی تعاون کے باوجود قابو نہ پا سکے۔’

لیکن صدر بائیڈن کی ہمیشہ سے یہ ہی سوچ رہی ہے۔ جو بائیڈن نے سابق صدر اوباما کے دورۂ حکومت میں سنہ 2009 اور 2011 میں بحیثیت نائب صدر کے افغانستان کے دورے کیے تھے۔ اس وقت بھی انھوں نے کہا تھا کہ ملک کی تعمیر نو وقت کا زیاں ہے اور اس کے بجائے امریکہ کو دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے فضائی حملوں اور خصوصی دستوں کی کارروائیوں پر توجہ دینی چاہیے۔

امریکی وزارتِ دفاع اس سوچ سے متفق نہیں تھی اور سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے جو بائیڈن کے بارے میں اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ جو بائیڈن گزشتہ 40 برس میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے ہر مسئلہ پر ہمیشہ غلط ثابت ہوئے ہیں۔

لہذا رواں سال گیارہ ستمبر کے بعد افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف مغرب کی حکمت عملی کی عملاً کیا شکل ہو گی؟

افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈرون حملے

ڈرون حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ڈرون یا اگر انھیں ان کے اصل نام سے پکارا جائے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلائے جانے والے جہاز (آر اے پیز) یا بغیر پائلٹ کے ہوائی جہازوں (یو اے ویز) کے استعمال کو سابق صدر اوباما کے دور میں جب جو بائیڈن نائب صدر تھے تو بہت ترجیح حاصل رہی۔

افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے دور دراز قبائلی علاقوں اور یمن کے وسیع حصوں میں جہاں القاعدہ کے سرکردہ لوگ چھپے ہوئے تھے تواتر کے ساتھ ڈرون حملوں نے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے مطابق ان کی کارروائیوں کو منجمد کر دیا تھا۔ ان حملوں کی وجہ سے کمانڈروں کو مستقل اپنی جگہ بدلتے رہنا پڑتا تھا اور وہ کسی ایک جگہ ایک یا دو راتوں سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ اس سے ان کے آپس میں روابط رکھنا بھی ممکن نہیں رہا تھا اور ہمیشہ انھیں اس بات کا خوف رہتا تھا کہ کب کسی مہمان کے رخصت ہو جانے کے بعد ایک ان دیکھے دشمن کی طرف سے انھیں ‘ہیل فائر’ میزائل کا نشانہ بنایا جائے گا۔

لیکن ڈرون حملے متنازع رہے۔ ان کے استعمال سے ہمیشہ خطرہ رہا ہے، یقیناً چلانے والوں کے لیے نہیں جو ہزاروں میل دور کہیں نویڈا یا لنکن شائر میں ایئر کنڈیشن شپنگ کنٹینروں میں بیٹھے ہوتے ہیں بلکہ ان شہریوں کے لیے جو اہداف کے ارد گرد موجود ہوتے ہیں۔

ڈرون چلانے والے آپریٹروں کے ‘کونسولز’ یا سکرینوں پر باوجود اس کے کہ بہت واضح مناظر نظر آ رہے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی یہ اندیشہ ہمیشہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے کہ آخری لمحات میں کوئی عام شہری اس طرف نہ آ جائے جیسا کہ شام اور عراق میں متعدد مرتبہ ہو چکا ہے۔

ایک سے زیادہ مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ دولت اسلامیہ کے ‘جلاد’ جو ‘جہادی جونز’ کے نام سے مشہور تھا امریکی فوج نے اس کا نشانہ باندھ لیا لیکن آخری لمحے پر شہریوں کے قرب و جوار میں پائے جانے کی وجہ سے اس پر حملہ ترک کرنا پڑا۔

یمن میں ڈرون حملوں پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے ہمیشہ شدید اعتراضات سامنے آئے ہیں جن کے مطابق متعداد مرتبہ بے ضرر قبائلی اجتماعات کو مسلح گروہوں کا اجتماع سمجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے۔

بحیرہ احمر کے پار جبوتی میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے صومالیہ سے تعلق رکھنے والے الشباب نامی شدت پسند تنظیم سے تعلفق رکھنے والوں کے خلاف ڈرون حملوں کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے اور وہ ایسا کیمرے کے سامنے بھی کہنے کو تیار ہیں۔

خفیہ اداروں کی پہنچ

امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے اور برطانوی خیفہ ادارے ایم آئی سکس اور دیگر خفیہ ایجنسیوں نے افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے ساتھ قریبی تعلقات بنا لیے تھے تاکہ خطرات کی پیشگی اطلاعات حاصل کی جا سکیں۔

رواں ہفتے ایک مغربی سکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ انھیں انخلا کے بعد بھی این ڈی ایس سے مدد ملتی رہے گی صرف طریقہ کار بدلنا ہو گا۔

امریکی فوج

،تصویر کا ذریعہUS ARMY

یہ بعید از قیاس نہیں کہ طالبان مسقبل میں افغان حکومت کا حصہ ہوں گے۔ تو کیا مغرب کے خفیہ ادارے ان سے اتنے عرصے تک برسر پیکار رہنے کے بعد ان سے خفیہ معلومات کا تبادلہ کر سکیں گے۔ اس کے بارے اس اہلکار کا کہنا تھا کہ ایسا تصور کرنا انتہائی مشکل ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ طالبان نے جب دوحا میں یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ انھوں نے القاعدہ سے اپنے تمام تعلقات منقطع کر لیے ہیں تو اس بارے میں وہ کس حد تک سچے تھے۔ یہ تعلقات تاریخی، قبائلی اور مادی ہیں جو کہ گیارہ ستمبر 2001 سے کئی سال پرانے ہیں۔ طالبان یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے مستقبل کی افغان حکومت سنبھالنی ہے جس کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے تو انھیں اس طرح کی کالعدم تنظیموں سے الگ رہنا ہو گا۔

اس کے باوجود برطانیہ کے تھنک ٹینک ایڈن انٹلیجنس کے ڈائریکٹر گیون میکنیکول کا کہنا ہے کہ طالبان پر یقین کرنا بڑی سادگی ہو گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘لگتا ہے کہ امریکی انتظامیہ ناممکنات کی ایک خوابی دنیا میں بستی ہے کہ طالبان القاعدہ اور دولت اسلامیہ سے اپنے تعلقات ختم کر لیں گے اور ان کو واپس نہیں آنے دیں گے۔’ انھوں نے کہا کہ ‘ان کے الفاظ پر نہ کبھی یقین کیا گیا ہے نہ کیا جا سکتا ہے اور نہ کبھی کیا جائے گا۔’

افغانستان

،تصویر کا ذریعہEPA

خصوصی دستوں کی کارروائیاں

امریکی فوج کے خصوصی دستوں اور ایس بی ایس کے چھاپہ مار دستوں کی طرف سے حاصل کی گئی خفیہ معلومات پر عمل کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف رات کے وقت کی جانے والی کارروائیوں سے شدت پسندوں اور ان کے کمانڈروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اکثر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے کچھ دور اتر کر رات کی تاریکی میں پیدل سفر کر کے ‘قتل یا گرفتار’ کرنے والی ان ٹیموں کی افغان سکیورٹی کی مدد سے کارروائیاں بڑی موثر ثابت ہوئی ہیں اور ان سے بہت سے حملوں کو ناکام بنایا گیا ہے۔

لیکن رواں سال ستمبر کے بعد اس طرح کی کارروائیاں اگر جاری رکھی جاتی ہیں تو ان کی منصوبہ بندی اور یہ کارروائیاں ملک سے باہر رہتے ہوئے کرنی پڑیں گی۔

ان کارروائیوں میں زیادہ وقت لگے گا اور ان کے بارے میں مخبری ہو جانے کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔ اس کے علاوہ ایسی جگہ کی تلاش جہاں سے ان کارروائیوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے اس کی تلاش کا کام بھی ایک دن میں نہیں کیا جا سکتا۔

نئے اڈوں کی تلاش

امریکی فوج

،تصویر کا ذریعہReuters

مشرقی افغانستان میں ایک خفیہ اڈے سے جہاں سے امریکہ کے خصوصی دستے اہم فوجی اہداف کو نشانہ بناتے تھے اس کو بند کیا جا رہا ہے۔

القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے لیے یہ بہت اچھی خبر ہے جہاں سے جدید ہتھیاروں سے لیس امریکی فوجیوں کے رات کو کسی بھی لمحے حملہ آور ہونے کا خطرہ ہر وقت رہتا تھا اب ختم ہو جائے گا۔ تو اب امریکہ کو خطے میں کونسی متبادل جگہ مل سکتی ہے۔

جغفرائی لحاظ سے پاکستان ہی سب سے مناسب متبادل ہو سکتا ہے لیکن مغربی ممالک میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے بارے میں شدید شک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ ان کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جن کے ان شدت پسند اسلامی گروپ سے قریبی روابط ہیں۔

امریکی خفیہ ایجنسی نے مئی سنہ 2011 میں جب اوسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے آپریشن نیپچون سپیر کیا تھا تو امریکہ نے پاکستان کو بتانا مناسب نہیں سمجھا اور اس کے ‘نیوی سیل’ نے رات کی تاریکی میں سٹیلتھ ہیلی کاپٹروں میں سوار ہو کر اس کی فضائی حدود کے سینکڑوں میل اندر جا کر کارروائی کی۔ ان کو خدشہ تھا کہ بن لادن کو پیشگی اطلاع نہ دے دی جائے اور وہ وہاں سے فرار نہ ہو جائیں۔

امریکی فوج

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان کے بجائے عمان ایک اور متبادل ہو سکتا ہے۔ مغرب نواز عمان کی مستحکم حکومت نے کئی غیر ملکی اڈوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ برطانیہ تومریات اور حال ہی میں بحیرہ عرب کے ساحلی علاقے دقم میں قائم کئیے گئے بڑے اڈے استعمال کر رہا ہے۔ دقم افغانستان کی سرحد سے ایک ہزار میل دور ہے اور کسی بھی ہوائی جہاز کو افغانستان تک پہنچنے کے لیے پھر بھی پاکستان کی فضائی حدود سے گزر کر جانا پڑے گا۔

بحرین ایک اور متبادل جگہ ہو سکتی ہے جہاں برطانیہ کا ایک چھوٹا اور امریکی بحریہ کے پانچوں بیڑے کا ایک بہت بڑا بحری اڈہ قائم ہے۔

اس کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک بھی ہیں جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ گیارہ ستمبر 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے فوری بعد امریکہ نے مشرقی ازبکستان میں سویت دور کا ایک پرانا اڈہ استعمال کیا تھا جس کا نام ‘کے ٹو’ تھا۔ لیکن سنہ2005 میں ازبکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے بعد امریکی فوجیوں کو وہاں سے نکال لیا گیا۔ اس اڈے پر دوبارہ امریکی فوجیوں کو مدعو کرنے کے باوجود بھیجنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ یہ اڈہ تابکاری اور کیمائی اجزا سے آلودہ ہو چکا ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ اور دولت اسلامیہ کو افغانستان کے دور دراز علاقوں میں روکنا بہت مشکل کام ہو جائے گا۔ افغانستان کی سرزمین پر فوجی وسائل کا دستیاب ہونا اور ان کو ضرورت پڑنے پر فوری طور پر استعمال میں لانے کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔ اب اس کا انحصار افغان حکومت پر ہو گا کہ وہ کس حد تک ان کالعدم تنظیموں کو روکنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہر کرتی ہے۔

جان رینی، جو ماضی میں برطانیہ حکومت میں اعلی عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں، وہ صورت حال کی ایک بہت تاریک تصویر پیش کرتے ہیں۔

’افغانستان میں جس قدر شدت پسندی موجود ہے اور غیر ملکی عناصر افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کو رکھنے میں جس قدر دفاعی مفادات رکھتے ہیں ان کے مد نظر کہا جا سکتا ہے دہشت گردی کے خطرات بڑھ جائیں گے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.