- مصنف, ٹام سپینڈر، باران عباسی
- عہدہ, بی بی سی فارسی
- ایک گھنٹہ قبل
اپنے شاندار محلات، دیدہ زیب میناروں اور خوبصورت ٹائلوں سے مزین مساجد کے علاوہ اصفہان کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ یہ ایران کا وہ شہر ہے جو عسکری ساز و سامان بنانے کا مرکز ہے۔یہ وہی شہر ہے جہاں جمعے کی علی الصبح دھماکے سُنے گئے تھے جن کے بارے میں بعد ازاں امریکی حکام نے دعویٰ کیا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کی وجہ سے تھے۔ تاہم اسرائیل نے ابھی تک سرکاری سطح پر ایران پر میزائل داغنے کی تصدیق نہیں کی ہے جبکہ ایران بھی اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔اصفہان ایران کا تیسرا بڑا شہر ہے جسے عرف عام میں ’نصفِ جہاں‘ (یعنی آدھی دنیا) کہا جاتا ہے۔ یہ شہر ایران کے وسط میں اور ’زرگورس‘ پہاڑی سلسلے (جسے فارسی میں کوہ زاگرس کہا جاتا ہے) کے دامن میں واقع ہے۔ یہ شہر اور اس کے قرب و جوار کا علاقہ ڈرون اور بیلسٹک میزائل بنانے والی فیکٹریوں کا مرکز ہے۔اور اس سے قریب ہی ’نتنز‘ جوہری تنصیب واقع ہے جسے ایران کی اہم ترین ایٹمی تنصیبات میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے اور یہ ایران کے جوہری افزودگی کے پروگرام کا اہم مرکز سمجھی جاتی ہے۔
عالمی سطح پر اصفہان کا نام سامنے آتے ہی ذہن فی الفور ایران کی جوہری تنصیبات کی جانب جاتا ہے۔ چنانچہ عالمی سطح پر وہاں ہونے والے مبینہ حملے کو کسی بھی سطح پر نظرانداز نہیں کیا گیا ہو گا۔اگر جمعہ کو کیا گیا حملہ اسرائیل کی جانب سے تھا تو ایسا لگتا ہے کہ بنیامن نتن یاہو کی حکومت ایران کو پیغام دے رہی ہے کہ وہ اصفہان میں اِس نوعیت کے حساس اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، تاہم اس مرحلے پر جانتے بوجھتے وہ ایسا کرنے سے گریز کر رہی ہے۔اگرچہ ایرانی حکام کی جانب سے اس مبینہ حملے کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا گیا تاہم فوری طور پر سرکاری سطح پر یہ اعلان ضرور کیا گیا کہ صوبہ اصفہان میں واقع جوہری تنصیبات ’مکمل طور پر محفوظ‘ ہیں۔ فی الحال ایران جوہری طاقت نہیں ہے اور ایرانی حکام اس بات کی بھی تردید کرتے ہیں کہ وہ اپنے سویلین جوہری پروگرام کو ایک جوہری مسلح ریاست بننے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تاہم اصفہان میں رات کے اندھیرے میں کیا ہوا، اس کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں۔ خلائی تحقیق کرنے والی ایران کی سرکاری ایجنسی کے ترجمان حسین دلیریان نے کہا کہ ’کئی‘ ڈرون ’کامیابی کے ساتھ مار گرائے ہیں۔‘ ساتھ ہی انھوں نے ان اطلاعات کو مسترد کیا کہ ایران پر کوئی میزائل حملہ کیا گیا تھا۔بعد ازاں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ’اسرائیل نواز میڈیا‘ کی رپورٹس کے برعکس ’مِنی (چھوٹے) ڈرونز‘ کے باعث اصفہان میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔دوسری جانب ایرانی میڈیا نے اصفہان کے ہوائی اڈے اور ایک فوجی ائیر بیس کے قریب تین دھماکوں کی اطلاع دی جس پر ایران کی فوج کے کمانڈر ان چیف عبدالرحیم موسوی نے ’ایک مشتبہ چیز پر ایرانی طیارہ شکن دفاعی نظام کی فائرنگ‘ کو اِن دھماکوں کی وجہ قرار دیا۔ایرانی میڈیا اور حکام اسرائیل کا نام لیے بغیر دعویٰ کر رہے ہیں کہ ڈرون ’دراندازوں‘ نے لانچ کیے تھے۔
اصفہان میں نتنز ایٹمی تنصیب کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
ایران میں متعدد جوہری تنصیبات اور سائٹس موجود ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہاں سے ایران اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ان تنصیبات میں ’اراک ہیوی واٹر پروڈکشن ری ایکٹر‘، بوشیر جوہری پلانٹ، اصفہان یورینیم پروسیسنگ پلانٹ، قم میں یورینیم افزودگی کا پلانٹ اور نتنز یورینیم افزودگی کی تنصیب۔سنہ 2002 میں نتنز جوہری تنصیب کا افتتاح کیا گیا تھا جو ایران کے دارالحکومت تہران سے 225 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ نتنز جوہری تنصیب ایران میں یورینیم کی افزودگی کرنے والا سب سے بڑا سینٹری فیوج پلانٹ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس تنصیب میں فروری 2007 سے یورینیم کی افزودگی کا کام کیا جا رہا ہے۔یہ تنصیب تین بڑی زیر زمین عمارتوں پر مشتمل ایک کمپلیکس ہے جو اندازوں کے مطابق 50 ہزار سینٹری فیوجز تک کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 2.7 مربع کلومیٹر پر محیط اس کمپلیکس کی حفاظت کا ذمہ ایران کے پاسداران انقلاب کے سپرد ہے۔ حد سے زیادہ سکیورٹی والے اس علاقے میں اینٹی ایئرکرافٹ سسٹم نصب ہے جبکہ یہ خاردار تاروں اور آہنی دیواروں میں لپٹا ہوا ہے۔نومبر 2014 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی جانب سے اس سائٹ سے جمع کیے گئے نمونوں کے تجزیے سے اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ اس تنصیب کو یورینیم کو افزودہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اس سے قطع نظر کہ ایران اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔اپریل 2021 میں ایران نے الزام عائد کیا تھا کہ نتنز جوہری تنصیب کو ’دہشت گردی کی کارروائی‘ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اسرائیل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس حملے کا جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ایرانی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے کے نتیجے میں نتنز تنصیب میں نصب بجلی کے نظام میں خرابی پیدا ہو گئی تھی۔ اسرائیل نے سرکاری طور پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی تاہم اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ اسرائیلی سائبر حملے کا نتیجہ تھا۔یہ حملہ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونے والی اُس تقریب کے فوراً بعد ہوا تھا جس میں ایرانی حکام نے نتنز میں نئے سینٹری فیوجز کے افتتاح کا اعلان کیا تھا۔اس سے قبل سنہ 2020 میں یہاں آگ لگنے کا ایک واقعہ بھی پیش آیا تھا جس کے بارے میں ایرانی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ بھی ایک ’سائبر‘ تخریب کاری کی کارروائی کی وجہ سے ہوا۔ سنہ 2010 میں بھی یہ تنصیب دیگر ایرانی جوہری تنصیبات کے ساتھ سائبر حملوں کا نشانہ بنی تھی۔
ایف 14 طیارے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اصفہان کو نشانہ بنانا اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟
کیمیائی ہتھیاروں کے ماہر اور نیٹو نیوکلیئر فورسز کے سابق سربراہ ہمیش ڈی بریٹن گورڈن نے بی بی سی کو بتایا کہ اصفہان کو نشانہ بنانا بہت اہمیت کا حامل اقدام ہے کیونکہ اس شہر کے اردگرد فوجی اڈوں اور عسکری تنصیبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔انھوں نے کہا کہ اصفہان پر ہونے والا مبینہ میزائل حملہ اس جگہ سے کافی قریب تھا ’جہاں ہمیں یقین ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ اسرائیلی حملہ ’بہت حد تک (اسرائیل کی) صلاحیت اور شاید (اس کے ممکنہ) ارادے کا ایک مظاہرہ‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایران نے گذشتہ ہفتے کے آواخر میں اسرائیل پر جو 300 سے زیادہ ڈرون اور میزائل فائر کیے تھے ان میں سے تقریباً سبھی کو فضا ہی میں مار گرایا گیا مگر (مبینہ طور پر) اسرائیل نے ’ایک یا شاید دو (میزائل) فائر کیے‘ جنھوں نے نقصان پہنچایا۔’انھوں نے کہا کہ ایرانی حکام ’حملے‘ کی سنگینی کو کم کر کے دکھانا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ ایران کے ’قدیم‘ فضائی دفاعی نظام کو اسرائیل کی جانب سے دی گئی شکست کو عام نہیں کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے کہا کہ یہ (مبینہ) حملہ ’ایران پر اسرائیل کی واضح اور بڑی عسکری برتری کا مظہر تھا۔‘ہمیش ڈی بریٹن گورڈن کے مطابق ’ایران اسرائیل کے خلاف اپنی پراکسیوں اور مسلح دہشت گرد گروپوں کا استعمال کرتے ہوئے اور پردے میں رہ کر لڑنا زیادہ پسند کرے گا، بجائے دو بدو انداز میں۔ کیونکہ اسے (ایران) معلوم ہے کہ آمنے سامنے آنے کے نتیجے میں اسے حقیقی نقصان کا سامنا ہو گا۔‘انھوں نے کہا کہ گذشتہ سنیچر کو اسرائیل پر حملہ کر کے ایران نے ’کسی حد تک اپنا غرور‘ بحال کیا تھا، تاہم اب وہ کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں چاہتا۔’ایران جانتا ہے کہ اسرائیل ناصرف اپنے دفاع کے لیے پُرعزم ہے بلکہ اس کو امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جبکہ دوسری جانب ایران مدد کے لیے کسی (ملک) پر بھی زیادہ بھروسہ نہیں کر سکتا۔ شاید روس کی طرف سے تھوڑی بہت مدد ملے مگر اس کے علاوہ دنیا میں ایران الگ تھلگ ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ایران کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی اتنی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.