’اس قیامت کے ڈر سے میرا جسم کانپ اُٹھتا ہے‘: ہیروشیما میں ایٹم بم کے متاثرین غزہ سمیت دیگر جنگوں سے خوفزدہ
- مصنف, لوسی ویلس
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
اس دن صبح سے ہی گرمی تھی اور چیکو کرائیکے کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ وہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہی تھیں۔ وہ کہیں چھاؤں کی تلاش میں ہی تھیں کہ اچانک تیز روشنی سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ 15 سالہ چیکو نے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔ یہ چھ اگست سنہ 1945 کا دن تھا اور جاپان میں صبح کے سوا آٹھ بج رہے تھے۔وہ اس دن کے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ایسا لگا کہ آسمان سر پر آ گرا ہے اور یہ دیکھ کر میں بے ہوش ہونے لگی تھی۔‘ یہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا اور امریکہ نے ابھی ابھی چیکو کے آبائی شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا تھا۔
ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی جنگ میں جوہری ہتھیار کا استعمال کیا گیا ہو۔ اگرچہ جرمنی نے یورپ میں ہتھیار ڈال دیے تھے لیکن اتحادی افواج اب بھی جاپان سے لڑ رہی تھیں۔ انتباہ: اس تحریر کی تفصیلات جو قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔چیکو اس وقت سکول کی طالب علم تھیں لیکن بہت سے بڑے شاگردوں کی طرح انھیں بھی جنگ کے دوران فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔وہ لڑکھڑاتے ہوئے بامشکل اپنے ایک زخمی دوست کو پیٹھ پر لاد کر سکول پہنچی تھیں۔ کئی طلبہ بُری طرح جھلس گئے تھے۔ چیکو نے ان کے زخموں پر ہوم اکنامکس کی کلاس روم میں موجود زیتون کا تیل لگایا۔ چیکو نے کہا کہ ’اس وقت یہی ایک علاج تھا جو ہم انھیں دے سکتے تھے۔ لیکن پھر ایک کے بعد ایک کی موت ہونے لگی۔‘’ہم جیسے کچھ بڑی عمر کے طلبہ جو زندہ بچ گئے تھے انھیں ہمارے اساتذہ نے کھیل کے میدان میں گڑھا کھودنے کے لیے کہا اور ہم نے اپنے ہاتھوں سے (اپنے ہم جماعتوں) کو دفن کیا تھا۔ مجھے ان کے لیے بہت افسوس تھا۔’،تصویر کا ذریعہBBC/Minnow Films/Chieko Kiriake
،تصویر کا ذریعہBBC/Minnow Films/Michiko Kodama
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.