اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت اور سکیورٹی کی ناکامی: ایران میں وزیرِ انٹیلیجنس کے لیے ’اجتہاد‘ کی شرط کیوں زیرِ بحث ہے؟
- مصنف, مسعود آذر
- عہدہ, بی بی سی
- 18 منٹ قبل
رواں ہفتے ایران کے دارالحکومت تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کو انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے، تاہم اتنی بڑی ناکامی کے باوجود ابھی تک کسی سکیورٹی یا انٹیلی جنس عہدیدار نے استعفیٰ نہیں دیا ہے اور نہ ہی کسی کو برطرف کیا گیا ہے۔اس دوران میڈیا اور سیاسی کارکان نے سکیورٹی کی ناکامی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔جمعرات کو اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد کی صورتحال پر ایران کے اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا گیا ہے کہ سکیورٹی کی ناکامیوں کی وجہ سے ’دراندازی‘ ہوئی ہے۔ اس مضمون میں ’انٹیلی جنس اور سکیورٹی کے نظام کی مکمل صفائی‘ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔دوسری جانب ایران میں انٹیلی جنس کے سابق نائب وزیرِ حسام الدین آشنا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر وزیر انٹیلی جنس کے انتخاب کے لیے ’اجتہاد‘ (عالم ہونے) کی شرط کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’انٹیلی جنس کا وزیر بننے کے لیے اجتہاد کی شرط ضروری نہیں ہے، بالکل ویسے ہی جیسے یہ پاسدارانِ انقلاب کے انٹیلی جنس کمانڈر کے لیے ضروری نہیں ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ رہبرِ اعلیٰ اور پارلیمان کی منظوری سے حکومت اس غیر ضروری شرط کو ختم کر سکتی ہے۔ سابق وزیر کے مطابق اس سے انٹیلی جنس اور سلامتی کے اداروں میں بہترین امیدواروں کو بھرتی کرنے میں مدد ملے گی۔ایران میں غیر ملکی ایجنٹوں خاص طور پر اسرائیلی جاسوس ایجنسی ’موساد‘ کی ’دراندازی‘ کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔سنہ 1980 کی دہائی میں آیت اللہ خمینی سے ان کے نائب حسین علی منتظری نے کہا تھا کہ روسی انٹیلی جنس ایجنسی ’کے جی بی` اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسی ’سی آئی اے‘ دونوں ہی بہت تجربہ کار اور ماہر ادارے ہیں اور دونوں جاسوس تنظیمیں ایک دوسرے کے ملک میں دراندازی کرتی ہیں۔’اسی طرح اس بات کا بھی امکان ہے کہ غیر ملکی ایجنٹ ہمارے ملک میں بھی گھس کر اپنا کام کریں اور اسلام اور انقلاب کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔‘جولائی سنہ 2021 میں سابق ایرانی صدر محمد خاتمی کے دورِ حکومت میں انٹیلی جنس کے وزیر رہنے والے علی یونسی نے خبردار کیا تھا کہ ’موساد ملک کے مختلف حصوں میں سرائیت کر چکی ہے اور افسران کو اپنی جانوں کی فکر کرنی چاہیے۔‘علی یونسی وہ واحد سابق حکومتی عہدیدار نہیں جنھوں نے غیر ملکیوں کی ایران میں جاسوسی سے متعلق سرگرمیوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے بھی ایسے ہی ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایرانی حکومت میں اعلیٰ ترین سطحوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔رواں سال شام میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کے حملے اور اور پاسدارانِ انقلاب کے سینیئر اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ایک ایرانی اخبار نے لکھا تھا کہ ملک کے انٹیلی جنس اداروں کے اہلکار ’چوہے‘ بن چکے ہیں جن سے ملک کو پاک کرنے کی ضرورت ہے۔’ہمیں دیواریں کھودنی ہوں گی، آئیے چوہوں کو تلاش کریں اور ان کے کان اس طرح کھینچیں کہ یہ سب کے لیے عبرت کا نشان بن جائیں، ورنہ ہم دنیا کا تمام جنگی ساز و سامان ہونے کے باوجود اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔‘،تصویر کا ذریعہKEYHAN
وزارتِ انٹیلی جنس کا قیام
ایران میں انقلاب کے پانچ سال بعد تک انٹیلی جنس کی وزارت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اس وقت یہ مختلف محکموں کے درمیان بٹی ہوئی تھی۔ایران کے پہلے انٹیلی جنس وزیر محمد رے شہری اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کی مختلف سازشوں کا علم ہونے کے بعد ملک کے سیاسی حکام نے بتدریج مرکزی انٹیلی جنس تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ایران میں سنہ 1981 میں دو دھماکے ہوئے تھے جس میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ان واقعات کے بعد ایرانی حکام نے تمام انٹیلی جنس ذرائع کو اکٹھا کرکے ایک نئی وزارت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔وزارت انٹیلی جنس کے بانیان میں شامل سعید حجاریان کے مطابق جوائنٹ سٹاف کمیٹی اور وزیر اعظم کے دفتر برائے انٹیلی جنس کی مدد سے ایک منصوبہ تیار کیا گیا اور اس منصوبے کو مرتضیٰ الویری کے ذریعے پہلی بار پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔حجاریان کہتے ہیں کہ آیت اللہ خمینی اور تینوں افواج کے سربراہان کے ساتھ ساتھ پاسداران انقلاب بھی اس منصوبے کے خلاف تھی۔اس مخالفت کی ایک وجہ یہ تھی کہ محکمہ انٹیلی جنس کو رہبر اعلی کا بازو سمجھا جاتا تھا اور انھیں خدشہ تھا کہ اس ادارے کے قیام سے قیادت کمزور ہوجائے گی۔مثال کے طور پر وزارت انٹیلی جنس کے قیام کے بارے میں پارلیمنٹ کے غور و خوض کا تفصیلی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ رُکن پارلیمنٹ اور پاسدارانِ انقلاب میں آیت اللہ خمینی کے نمائندے فضل اللہ محلاتی کا خیال تھا کہ اس وزارت کو رہبرِ اعلیٰ کے تحت کام کرنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ’ملک کی انٹیلی جنس کا کسی وزیر کے ہاتھ میں ہونا کسی بھی طرح ملک کے لیے اچھا نہیں ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران میں عدلیہ جیسے تمام حساس محکمے مذہبی اداروں کے تحت ہیں، ایسے میں کیا ہم ملکی انٹیلی جنس اور سکیورٹی ادارے کو ایک وزیر کے ہاتھ میں دے دیں؟ یہ قطعاً ملک کے مفاد میں نہیں، اسے براہ راست مذہبی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔‘،تصویر کا ذریعہIRAN
وزارتِ انٹیلی جنس اور آیت اللہ خمینی کے خیالات
سعید حجاریان بتاتے ہیں کہ وزارت انٹیلی جنس کی تشکیل کے بارے میں آیت اللہ خمینی کی رائے کس طرح بدلی۔ انھوں نے خمینی کے بیٹے احمد خمینی کے ذریعے انھیں آگاہ کیا کہ یہ وزارت آئین کے نقطہ نظر سے مذہبی قیادت کی نگرانی میں نہیں کام کرسکتی کیونکہ رہبرِ اعلیٰ ’حکومتی اختیارات‘ استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور ان پر آئین کی پاسداری کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جبکہ انٹیلی جنس اور حفاظتی کام کے دوران قانون کے خلاف کارروائیاں ہو سکتی ہیں، لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا پڑ سکتا ہے اور اگر یہ کام براہ راست رہبرِ اعلیٰ کی نگرانی میں ہوگا تو انھیں ہی اس سب کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔بالآخر میرحسین موسوی کی حکومت میں وزارتِ انٹیلی جنس کے قیام کا بل 29 مئی 1983 کو پارلیمنٹ میں منظور ہوا۔وزیر اعظم نے اس وقت سب سے پہلے اسماعیل فردوسی پور کو وزارت انٹیلی جنس کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا اور انھیں وزرا کی کونسل میں متعارف کروایا، لیکن پارلیمنٹ نے ’اجتہاد‘ نہ ہونے کی وجہ سے مجوزہ امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔رے شہری نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ: ’فردوسی پور پر پارلیمنٹ کے عدم اعتماد کےکچھ وقت بعد وزیرِ اعظم نے مجھے وزیرِ انٹیلی جنس کے عہدے کے لیے پارلیمنٹ میں متعارف کروانے کی تجویز دی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ امام خمینی نے انھیں کہا ہے کہ دوسری وزارتوں کے بارے میں ان کی کوئی رائے نہیں ہے، لیکن وزارت انٹیلی جنس کے وزیر کا انتخاب کرتے وقت پہلے ان کی رائے لی جائے۔‘رے شہری کے مطابق وزیرِاعظم نے انھیں بتایا کہ ’میں نے آپ کے بارے میں امام کی رضامندی بھی حاصل کر لی ہے۔‘رے شہری نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد اپنے حالات کے بارے میں لکھا کہ: ’اب یہ میں ہوں اور یہ میری وزارت ہے، جس کے پاس کوئی تنظیم، کوئی طاقت، کوئی ضروری دستاویزات اور سہولیات نہیں ہیں۔ اور نہ ہی اندرونی انقلاب اور بیرونی دشمنوں کی پیچیدہ سازشوں کے خلاف کوئی بجٹ ہے۔ ایک جملے میں کہوں تو میں ایک نام نہاد وزارت کا وزیر ہوں جسے مسائل اور توقعات کے پہاڑ کا سامنا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہTASNIM
وزیر اطلاعات اور اجتہاد
حسام الدین آشنا کے سسر دری نجف آبادی بھی انٹیلی جنس کے وزیر رہ چکے ہیں اور انھوں نے خود بھی اس وزارت میں کام کیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی میں اصلاحات لانے کے لیے اوپر سے کام شروع کرنا ضروری ہے، یعنی وزیر پر ’اجتہاد‘ کی شرط کو ختم کر کے اس وزارت میں ماہرین کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔وزیر انٹیلی جنس کے انتخاب کی شرائط کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم کاغذی طور پر انٹیلی جنس کے امور پر مہارت رکھنا اور علم کا ہونا وزیر کے انتخاب کے ضروری نہیں ہے۔ جبکہ وزیرانٹیلی جنس بننے کی شرائط میں ’اجتہاد کی حد تک تعلیم‘، ’عدل و تقویٰ کا فروغ‘، ’سیاسی اور انتظامی امور کا واضح ریکارڈ‘ اور ’سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور گروہوں میں رکنیت نہ ہونا‘ شامل ہے۔وزارت انٹیلی جنس کی تشکیل کے منصوبے کے ابتدائی مسودے میں وزیر کے انتخاب میں ’اجتہاد‘ کی شرط کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔سعید حجاریان نے ایران جبهه مشارکت ایران اسلامی (اسلامک پارٹنرشپ فرنٹ) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر کے ’اجتہاد‘ پر ہونے والی بحث کے بارے میں کہا تھا کہ: وزیر کے اجتہاد کا مسئلہ ہمارے منصوبے میں نہیں تھا۔۔۔ وزیر کے اجتہاد کی شرط بعد میں شامل کی گئی تھی۔ وزارت کے قیام کے حوالے سے بِل پارلیمنٹ کے 35 ارکان کے دستخطوں کے ساتھ ایوان صدر میں آیا، جسے (محمد علی) محمدی کرمانی اور مجلس کے دیگر علما کے سامنے پیش کیا جانا تھا۔اس وقت پارلیمنٹ کے سپیکر نے وزارت کے قیام کا یہ منصوبہ ان کے سامنے رکھا اور اگلے دن اس پر گفتگو کرنے کی یقین دہانی کروائی۔حجاریان اس وقت وزیر اعظم کے دفتر کے محکمہ انٹیلی جنس کے سربراہوں میں سے ایک تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’میں نے انجینیئر موسوی سے پوچھا کہ حکومت کے نمائندے کے طور پر ہمیں کیا موقف اختیار کرنا چاہیے، تو انھوں نے کہا کہ آپ خاموش رہیں اور حکومت اس معاملے پر کوئی موقف اختیار نہ کرے۔ پھر ہم یہ منصوبہ لے کر ایک شخصیت کے پاس گئے اور انھوں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ بہت عام سا ہے۔ وہ ایک ایسے مجتہد کی تلاش میں ہیں جو انٹیلی جنس کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت، ارادہ اور حوصلہ رکھتا ہو اور ساتھ ہی اس کام کا ہنر بھی رکھتا ہو۔‘اگرچہ حجاریان نے یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے کس سے بات کی لیکن ان کے اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان برسوں میں اس شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے حامل نامور علما کی موجودگی کے باوجود اس وزارت کو سنبھالنے کے لیے اجتہاد اور اہلیت رکھنے والے لوگ نہیں تھے۔تیسرے فریق کے بارے میں سعید حجاریان نے کہا: ’انھوں نے کہا جا کر دیکھو کہ کیا محمد مومن (فقہی رکن گارڈین کونسل) یہ وزارت قبول کرتے ہیں، اگر وہ حامی بھرتے ہیں تو وہ اس کام کے لیے موزوں ہیں۔ اگر ان کا جواب نفی میں ہے تو پھر اس بات کو اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم نے اس معاملے کو محمد مومن کے سامنے اٹھایا لیکن انھوں نے فوراً انکار کر دیا۔‘حجاریان کا کہنا ہے کہ وزیر انٹیلی جنس کے ’اجتہاد‘ پر بحث کے دوران وہ پارلیمنٹ میں خاموش رہے اور ’اس معاملے پر پارلیمنٹ میں ووٹنگ ہوئی تو اس شرط کو منصوبے میں شامل کر دیا گیا۔‘وزارت انٹیلی جنس کے قیام کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد 1984 میں وزارت انٹیلی جنس کے قانون کی منظوری دی گئی۔،تصویر کا ذریعہKHAMENEI.IR
وزیر انٹیلی جنس یا ’دستخط کی مشین‘
وزارت انٹیلی جنس کے قیام اور اس وزارت کے قوانین کی منظوری کے سلسلے میں اسلامی کونسل کے پہلے اور دوسرے دور میں ہونے والے اجلاسوں کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ مجوزہ امیدوار کے لیے ’اجتہاد‘ کی شرط کے حامیوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ وزیر انٹیلی جنس کے فیصلے شریعت کے مطابق ہونے چاہییں اور ان میں کم سے کم غلطیاں ہونی چاہییں۔وزارت انٹیلی جنس کے قیام کے بعد سے محمد محمدی رے شہری، علی فلاحیان، قربان علی دری نجف آبادی، علی یونسی، غلام حسین محسنی ازہی، حیدر مصلحی، محمود علوی اور اسماعیل خطیب اس وزارت کے سربراہ رہے ہیں۔ان وزرا میں سے دری نجف آبادی ایک ایسے وزیر تھے جنھیں قتل کے ایک معاملے ہر استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا تھا، جبکہ محسنی ازہی کوصدر محمود احمدی نژاد نے برطرف کر دیا تھا۔ان میں سے اکثر وزرا کے ریکارڈ کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ ان کے پاس ’اجتہاد کے لیے کافی تعلیم‘ نہیں تھی اور دسمبر 2008 میں حکومت کے وفات پا جانے والے ایک ناقد فقیہ حسین علی منتظری کے مطابق انھوں نے ’دستخط کرنے والی مشین‘ کے طور پر کام کیا۔حیدر مصلحی بھی وزیرِ برائے انٹیلی جنس کے عہدے پر کام کرچکے ہیں لیکن جب انھوں نے ماہرین کی اسمبلی کا رُکن بننے کی کوشش کی تو انھیں اس نئے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح عدلیہ کا سربراہ مقرر ہونے کے بعد غلام حسین محسنی ازہی کے لیے ’آیت اللہ‘ کا سابقہ استعمال نہیں کیا گیا جبکہ یہ ’اجتہاد‘ کے تقاضوں میں سے ایک ہے۔ابراہیم رئیسی اور صادق لاریجانی جیسے لوگوں کی تقرری سے قبل عدلیہ کے سربراہ کے لیے ’حج الاسلام‘ کا خطاب استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن رئیسی کی تقرری کے بعد انھیں ’آیت اللہ‘ کا خطاب دے دیا گیا، لیکن محسنی ازہی کو یہ لقب نہیں دیا گیا۔،تصویر کا ذریعہIICHS
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.