القسام بریگیڈ کے قائد محمد الضیف کو 13 جولائی کو خان یونس کے علاقے المواسی میں ایک عمارت پر حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا تاہم حماس نے ابھی تک ان کی موت کی بھی تصدیق نہیں کی۔غزہ میں اسرائیل اور حماس سمیت دیگر فلسطینی مسلح دھڑوں کے درمیان جنگ اس وقت سے جاری ہے جب مولوی احمد یاسین نے سنہ 1987 میں حماس کی بنیاد رکھی تھی۔اس تنظیم کے قیام کے بعد سے اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک محاذ آرائی شروع ہوئی جس نے تشدد، قتل و غارت اور خودکش حملوں کے سلسلے کو جنم دیا۔حماس نے اسرائیل کے اندر درجنوں خودکش کارروائیاں کیں۔ پہلے انتفادہ کے دوران سینکڑوں اسرائیلی ہلاک ہوئے جو سنہ 1987 میں غزہ کی پٹی میں اس وقت شروع ہوا جب یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں تھا۔ یہ تحریک مغربی کنارے تک پھیل گئی اور سنہ 1993 میں اس وقت رُکی جب اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔دوسرا انتفادہ سنہ 2000 میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوا، یہ پہلے انتفادہ سے زیادہ خونی اور پرتشدد تھا، جس میں دونوں طرف کے تقریباً چار ہزار 200 افراد مارے گئے۔فلسطینی مزاحمت کے ابھرنے کے بعد ہی سے اسرائیل نے فلسطینی دھڑوں کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس دوران حماس کے درجنوں رہنما قتل ہوئے۔یہ کارروائیاں اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے درمیان امن مذاکرات کے دوران عارضی طور پر روک دی گئی تھیں۔اسرائیل نے گذشتہ صدی میں نوے کی دہائی کے آغاز سے حماس کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ختم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر قاتلانہ کارروائیاں کی ہیں اور اس نے تحریک کے سیاسی اور فوجی حکام میں کوئی فرق نہیں کیا۔اس رپورٹ میں حماس سے منسلک ان شخصیات کا ذکر ہے جنھیں قتل کیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ
،تصویر کا ذریعہGetty Images
عماد عقل
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یحییٰ عیاش
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جمال سلیم اور جمال منصور
،تصویر کا ذریعہGetty Images
محمود ابو ہنود
محمود ابو ہنود سنہ 1967 میں مغربی کنارے کے ضلع نابلس میں پیدا ہوئے۔ وہ مغربی کنارے میں قسام بریگیڈز کے کمانڈر تھے۔اسرائیلی حکام کے مطابق ابو ہنود 23 نومبر 2001 کو ایک کار میں سفر کر رہے تھے اور اسی وقت ایک جنگی طیارے نے انھیں میزائل سے نشانہ بنایا۔ابو ہنود نے 1985 میں القدس یونیورسٹی سے اسلامی شریعت میں بی اے کیا تھا، اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی وہ شمالی مغربی کنارے میں قسام بریگیڈز کے کمانڈر کا عہدہ سنبھال چکے تھے۔ابو ہنود نے 1997 میں اسرائیلیوں کے خلاف کئی کارروائیوں اور خودکش حملوں میں حصہ لیا اور اسرائیل کو مطلوب ترین افراد میں سے ایک بن گئے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ ابو ہنود نے سنہ 1997 میں یروشلم میں دو مہلک حملوں میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس میں 21 افراد ہلاک ہوئے تھے۔اسرائیلی فوج نے سنہ 2000 میں مغربی کنارے کے قصبے عسیرہ میں ایک گھر کے اندر انھیں گھیر لیا تھا تاہم وہ اسرائیلی فوج سے لڑنے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس دوران تین اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔اس کے بعد ابو ہنود کو فلسطینی اتھارٹی نے گرفتار کیا اور حماس سے تعلق کے الزام میں 12 سال قید کی سزا سنائی۔ابو ہنود بھی سنہ 1992 میں مرج الظہور بھیجے جانے والوں میں شامل تھے۔
صلاح شہادہ
صلاح شہادہ کو حماس کے عسکری ونگ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ 1987 میں حماس کے قیام کے اعلان سے تین سال قبل انھوں نے ’فلسطینی مجاہدین‘ کے نام سے ایک گروپ بنایا تھا جس نے اسرائیل کے خلاف متعدد کارروائیاں کیں۔صلاح شہادہ اس تنظیم کے سربراہ رہے۔ ان کا گروپ سنہ 1991 میں عزالدین القسام بریگیڈ میں شامل ہو گيا۔صلاح شہادہ سنہ 1952 میں غزہ کی پٹی کے کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اسکندریہ کے ہائر انسٹیٹیوٹ آف سوشل سروس سے ڈگری حاصل کی اور 1979 تک عریش میں سماجی محقق کے طور پر کام کیا۔غزہ واپسی پر وہ سماجی امور کے انسپکٹر کے عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے جلد ہی یہ نوکری چھوڑ دی اور 1986 میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں ملازمت کرنے چلے گئے۔پہلے انھیں 1984 میں اور پھر 1988 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ ان پر حماس کا ملٹری ونگ بنانے اور دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوااور قتل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔انھیں دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اپنی سزا پوری کرنے کے بعد وہ بیس ماہ تک انتظامی حراست میں رہے اور بالآخر مئی 2000 میں جیل سے رہا ہوئے۔شہادہ کی جیل سے رہائی کے بعد وہ روپوش ہو گئے اور گرفتاری یا قاتلانہ حملے سے بچنے کے لیے اپنی رہائش گاہ بدلتے رہے لیکن اسرائیل نے 22 جولائی 2002 کو انھیں ڈھونڈ نکالا اور ایک جنگی طیارے سے ایک ٹن سے زیادہ وزنی بم ایک مکان پر گرایا گيا۔اس حملے میں صلاح شہادہ اور ان کی اہلیہ کے ساتھ قسام بریگیڈز کے رہنما ظاہر نصر سمیت 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسماعیل ابو شنب
اسماعیل ابو شنب کا شمار حماس کے بانیوں اور ممتاز رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے پہلی انتفادہ کے دوران حماس کی قیادت کرنے کے الزام میں دس سال سے زیادہ اسرائیلی جیلوں میں گزارے۔ابو شنب 1950 میں غزہ کے نصیرت کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1975 میں مصر کی منصورہ یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں بیچلزر کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1982 میں امریکہ کی کولوراڈو یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔امریکہ سے واپسی کے بعد انھوں نے غزہ میں فلسطینی انجینیئرز ایسوسی ایشن کی قیادت سنبھالی۔ انھیں 1989 میں اسرائیل نے گرفتار کیا اور 1997 تک وہ جیل میں رہے۔ابو شنب کو 1976 میں غزہ میں ’اسلامک سوسائٹی‘ کے بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، انھوں نے دو ادارے بھی بنائے جہاں سے 1987 میں حماس ابھری۔انھوں نے فلسطینی اتھارٹی اور دیگر فلسطینی دھڑوں کے ساتھ کئی ملاقاتوں میں حماس کی نمائندگی بھی کی۔اسرائیل نے 21 اگست 2003 کو ایک فوجی ہیلی کاپٹر سے ان کی گاڑی پر پانچ میزائل داغے اور اس حملے میں اسماعیل ابو شنب ہلاک ہوگئے۔
احمد یاسین
22 مارچ 2004 کو اسرائیل نے جنگی طیاروں سے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین پر حملہ کیا اور وہ اس آپریشن میں مارے گئے۔شیخ یاسین 1938 میں برطانیہ کے زیرِ اہتمام فلسطین میں پیدا ہوئے تھے۔ جوانی میں ایک حادثے میں مفلوج ہونے کے بعد انھوں نے اپنی زندگی اسلامی علوم کے لیے وقف کر دی۔شیخ یاسین نے اخوان المسلمون کے فلسطینی ونگ میں شمولیت اختیار کی، لیکن وہ 1987 میں شروع ہونے والی پہلی فلسطینی انتفادہ تک مشہور نہیں ہوئے۔وہ حماس کے قیام کے بعد ہی لوگوں کی نظر میں آئے۔اسرائیلیوں نے انھیں 1989 میں گرفتار کیا اور عمر قید کی سزا سنائی کیونکہ انھوں نے اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کرنے والے ایک شخص کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔6 ستمبر 2003 کواسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے غزہ میں ایک اپارٹمنٹ کو نشانہ بنایا لیکن شیخ یاسین زندہ بچنے میں کامیاب ہوگئے۔چھ ماہ بعد 14 مارچ 2004 کو غزہ میں قسام بریگیڈ کے دو ارکان نے اسرائیلی بندرگاہ پر ایک آپریشن کیا جس میں 10 اسرائیلی ہلاک اور 20 زخمی ہوئے۔اسرائیل نے شیخ یاسین کو ذاتی طور پر اس کارروائی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور 22 مارچ 2004 کو شیخ یاسین اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کے حملے میں مارے گئے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
عبدالعزیز الرنتیسی
وہ ایک فلسطینی طبیب اور سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ حماس کے ممتاز سیاسی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔الرنتیسی نے 22 مارچ 2004 کو شیخ احمد یاسین کے قتل کے بعد تحریک کی قیادت سنبھالی لیکن یہ عہدہ سنبھالنے کے صرف ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اسرائیل نے غزہ میں ان کی گاڑی پر میزائل فائر کرکے انھیں قتل کردیا۔الرنتیسی کی پیدائش یبنا گاؤں میں ہوئی تھی جو اب اسرائیل میں واقع ہے اور ان کے خاندان نے اسرائیل کے قیام کے بعد غزہ میں پناہ لی تھی۔انھوں نے اپنی ثانوی تعلیم 1965 میں مکمل کی اور 1972 میں اسکندریہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیسن سے گریجویشن کیا۔ بعد میں انھوں نے 1976 میں خان یونس کے ناصر ہسپتال میں بطور ڈاکٹر بھی کام کیا۔انھوں نے 1978 میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے بعد وہاں لیکچرار کے طور پر بھی کام کیا۔ انھیں اسرائیل مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے مختلف ادوار میں متعدد بار گرفتار کیا گیا۔ وہ 1992 میں مرج الظہور میں جلاوطن ہونے والوں کے ترجمان تھے۔انھیں 1993 میں مرج الظہور سے واپسی پر فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا اور 1997 کے وسط تک حراست میں رکھا گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
عدنان الغول
عدنان الغول کو قسام بریگیڈ کے قائدین اور بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، وہ یحییٰ عیاش کے معاون بھی تھے۔ الغول نے بیرون ملک انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور مقامی طور پر بم، راکٹ اور میزائل تیار کرنے میں کامیاب رہے۔ان کے آنے سے حماس کو وہ نئی صلاحیتیں ملیں جو اس کے پاس پہلے نہیں تھیں۔الغول سنہ 1958 میں غزہ کے شاتی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1987 میں پہلی انتفادہ شروع ہونے سے پہلے اسرائیل کے خلاف اپنی عسکری سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ انھوں نے ایک گروپ بنایا جس نے غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کے خلاف چُھرا مار کارروائیاں کیں۔اسرائیل نے الغول کو دھماکہ خیز مواد بنانے کا ماہرقرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ وہ راکٹ تیار کرتے ہیں جنھیں فلسطینی شمالی غزہ کی پٹی سے جنوبی اسرائیل میں فائر کیا جاتا ہے۔انھیں اسرائیل کے خلاف بڑی تعداد میں حملوں کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا۔الغول پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے اور وہ 1980 کی دہائی سے اسرائیل کو سب سے زیادہ مطلوب افراد میں سے ایک تھے۔الغول اس وقت مارے گئے جب ایک اسرائیلی جاسوس طیارے کی طرف سے داغا گیا میزائل غزہ میں ان کی گاڑی سے ٹکرا گیا۔ ان کے ساتھی عماد عباس بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
سعید صیام
حماس کے رہنما سعید صیام نے سنہ 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی کے بعد فلسطین میں وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالا تھا اور انھیں 2009 میں غزہ میں جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے قتل کر دیا تھا۔صیام 1959 میں غزہ کے شطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے اور حماس کے قیام کے بعد سے وہ ایک اہم شخصیت سمجھے جاتے تھے۔اسرائیل نے انھیں ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک سے زیادہ مرتبہ گرفتار کیا اور وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنھیں مرج الاسلام بھیج دیا گیا تھا۔وزیر داخلہ کی حیثیت سے اپنے دور میں غزہ پر محاصرہ نافذ ہونے سے پہلے صیام نے شام اور ایران سمیت متعدد ممالک کا دورہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ انھوں نے تحریک کے ایران کے ساتھ تعلقات کی سنگ بنیاد رکھی۔صیام 15 جنوری 2009 کو غزہ کی پٹی پر جنگ کے دوران ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے۔ ان کے ساتھ ان کے بھائی اور چھ دیگر افراد بھی مارے گئے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
احمد الجعبری
1960 میں غزہ کی پٹی میں پیدا ہونے والے احمد الجعبری نے پہلے الفتح میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن جیل میں قید کے دوران وہ احمد یاسین اور عبدالعزیز الرنتیسی سے واقف ہوئے۔ سنہ 1995 میں جیل سے رہائی کے بعد وہ حماس میں شامل ہو گئے۔القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد الضیف اور دھماکہ خیز مواد اور میزائل انجینئر عدنان الغول کے ساتھ بعد میں الجعبری کے تعلقات مضبوط ہوئے اور انھوں نے صلاح شھادہ کے ساتھ مل کر قسام بریگیڈز کے قیام اور کمانڈ سنبھالنے میں تعاون کیا۔محمد الضیف کے 2003 میں قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد الجعبری نائب کے طور پر قسام بریگیڈ کے ’ڈی فیکٹو‘ لیڈر بن گئے۔14 نومبر 2012 کو اسرائیل ان تک پہنچنے میں کامیاب ہوا اور انھیں اس وقت فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ حج سے واپسی کے ایک ہفتے بعد غزہ میں پبلک سروس کمپلیکس کے قریب کار میں سفر کر رہے تھے۔
رائد العطار
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.