ان کے سخت بیانات کے باوجود سیاسی مبصرین و تجزیہ کار عام طور پر غزہ سے تعلق رکھنے والے سخت گیر رہنماؤں محمد دیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں انھیں اعتدال پسند شخص کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سنہ 1989 میں اسرائیل نے تین سال کے لیے انھیں قید کیا تھا اور پھر حماس کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ لبنان-اسرائیلی سرحد پر مرج الظہور میں جلاوطن کر دیا گيا تھا جہاں انھوں نے 1992 میں ایک پورا سال جلاوطنی میں گزارا۔وہ قطر میں رہائش پذیر تھے اور طویل عرصے سے غزہ کی پٹی کا دورہ نہیں کر سکے تھے۔62 سالہ اسماعیل ہنیہ کو سنہ 2017 میں خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ پارلیمانی انتخابات میں حماس کی حیرت انگیز کامیابی کے بعد فلسطینی اتھارٹی میں جب انھوں نے حکومت کی صدارت سنبھالی تھی تو ان کا نام اور ان کا عرفی نام (ابو العبد) سنہ 2006 سے ہی دنیا کو معلوم تھا۔ہنیہ 1962 میں غزہ شہر کے مغرب میں شاتی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کو سنہ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کے قصبے اشکلون کے قریب اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔انھوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے وہ اسلامی تحریک میں شامل ہو گئے۔اسماعیل ہنیہ نے سنہ 1987 میں گریجویشن کی۔ اسی سال غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہوئی تھی۔ انھیں اسرائیلی حکام نے اس کے فوراً بعد مظاہروں میں حصہ لینے پر گرفتار کر لیا تھا لیکن اس وقت ان کی قید کی مدت مختصر تھی۔،تصویر کا ذریعہReuters
قید اور جلاوطنی
1988 میں حماس کے غزہ میں ایک سرکردہ مزاحمتی گروہ کے طور پر سامنے آنے کے بعد انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا لیکن اس بار انھیں چھ ماہ کی قید ہوئی۔اسرائیل تاہم فلسطینی مزاحمت کو دبانے میں ناکام رہا اور پھر اگلے سال اسماعیل ہنیہ کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔1992 میں ان کی رہائی کے بعد اسرائیل نے انھیں حماس کے سینیئر رہنماؤں عبدالعزیز الرنتیسی اور محمود الزہر کے علاوہ 400 سے زائد دیگر کارکنوں کے ساتھ جنوبی لبنان میں جلاوطن کر دیا۔ان جلاوطنوں نے مرج الظہور کیمپ میں ایک سال سے زیادہ عرصہ گزارا جہاں ان کے اسلامی گروپ کو بہت زیادہ میڈیا کوریج ملی اور دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔اسماعیل ہنیہ دسمبر 1993 میں غزہ واپس آئے اور اسلامی یونیورسٹی کے ڈین مقرر ہوئے۔ اسرائیل نے سنہ 1997 میں احمد یاسین کو جیل سے رہا کیا جس کے بعد ہنیہ کو ان کا معاون مقرر کیا گیا۔دونوں افراد کے درمیان قریبی تعلقات کی وجہ سے اسماعیل ہنیہ کو فلسطین میں حماس کی مزاحمتی تحریک میں زیادہ اہمیت حاصل ہوئی اور وہ فلسطینی اتھارٹی میں گروپ کے نمائندہ بن گئے۔ستمبر 2003 میں ہنیہ اور احمد یاسین غزہ شہر کی ایک رہائشی عمارت پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے میں معمولی زخمی ہوئے۔ اسرائیلی طیارے کے قریب آنے کی آواز سن کر دونوں افراد بم گرنے سے چند سیکنڈ قبل عمارت سے نکل گئے تھے۔لیکن اس کے محض چھ ماہ بعد احمد یاسین فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیلی ہیلی کاپٹر سے برسائی جانے والی گولیوں کے زد میں آ گئے تھے۔
- عید کے دن اسرائیلی حملے میں حماس کے سربراہ کے تین بیٹے، چار پوتے پوتیاں ہلاک: مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، اسماعیل ہنیہ11 اپريل 2024
- کیا اسرائیلی حملے میں مارے جانے والے اسماعیل ہنیہ کے بیٹے عسکری کارروائیوں میں ملوث تھے؟13 اپريل 2024
- اسرائیل کا ’ڈراؤنا خواب‘ اور لبنان میں ڈرون حملے میں مارے جانے والے حماس کے رہنما صالح العاروری کون تھے؟3 جنوری 2024
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فلسطینی حکومت کی قیادت
اگرچہ محمود الزہر کو اس وقت حماس کا سب سے سینیئر رہنما سمجھا جاتا تھا، لیکن اسماعیل ہنیہ کو 15 جنوری کے انتخابات میں حماس کی مہم کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا جس میں تحریک کے امیدواروں نے فلسطینی قانون ساز کونسل کی 132 نشستوں میں سے 76 نشستیں حاصل کی تھیں۔اس کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس سے نئی حکومت بنانے کو کہا۔ تاہم حکمراں فتح تحریک اور دیگر دھڑوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے لیے ہفتوں کی بات چیت ناکام ہو گئی اور ہنیہ کو بنیادی طور پر اپنی ٹیم اور کئی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔جب اسماعیل ہنیہ نے اپنی انتظامیہ کے پروگرام کا خاکہ پیش کیا تو انھوں نے امریکہ اور یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد میں کمی کی دھمکیوں پر عمل نہ کریں۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینیوں کو آزادی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا حق ہے، لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ وہ تنازع کے حل کے لیے بین الاقوامی ثالثوں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا تھا کہ ’ہماری حکومت خطے میں انصاف کے حصول، قبضے کو ختم کرنے اور اپنے حقوق کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔‘سنہ 2018 میں امریکہ نے فلسطینی اسلامی تحریک حماس کے سیاسی رہنما کو دہشت گرد قرار دیا اور ان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے ’حماس کے عسکری ونگ سے قریبی تعلقات ہیں‘ اور وہ ’شہریوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہAFP
حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ پر اسماعیل ہنیہ کا موقف
گذشتہ سال سات اکتوبر میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن کے فوراً بعد اسماعیل ہنیہ میڈیا کی طرف سے نشر کی جانے والی ایک ویڈیو میں دوحہ میں اپنے دفتر میں تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔ وہ ایک عرب چینل پر ایک رپورٹ دیکھ رہے تھے۔ حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے جب اسرائیلی فوجی گاڑیوں کو قبضے میں لیا تو انھوں نے ’اس فتح پر خدا کا شکرادا کیا تھا۔‘
اسماعیل ہنیہ کا خاندان
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.