اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت واقعے کی جوڈیشل انکوائری کروائے۔ عدالت نے شیریں مزاری کا فون بھی انہیں واپس کرنے کا حکم دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کے مبینہ اغواء کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سماعت کی، آئی جی اسلام آباد اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی عدالت میں پیش ہوئے، آئی جی اسلام آباد نے عدالت میں بیان دیا کہ میں نے آج ہی چارج سنبھالا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے عدالت میں کہا کہ ڈیٹا ٹرانسفر ہوگیا ہوگا، انہیں کہیں کہ فون ابھی واپس کردیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں، کسی پر شک نہیں کرنا چاہیے، آئی جی صاحب، فون اور باقی چیزیں لے کر ابھی ان کو واپس کریں۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ ہر حکومت کا رد عمل مایوس کن رہا، پی ٹی آئی کا کوئی ممبر ابھی تک ڈی نوٹیفائی نہیں ہوا، اسپیکر کی اجازت کے بغیر رکن اسمبلی کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔
اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ ایک آئین ہے، یہ عدالت آئین پر چلتی ہے، آئی جی آپ کو ذمہ داری لینا ہوگی، میں یہ نہیں کہ سکتا کہ رجسٹرار ذمے دار ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت میں بیان دیا کہ شیریں مزاری استعفیٰ دے چکی ہیں، جس کے جواب میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وہ بے شک استعفیٰ دے چکی ہوں، مگر انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا، ماضی میں بھی ارکان اسمبلی کو گرفتار کیا گیاجو آج بھی کسٹڈی میں ہیں، پولیٹیکل لیڈر شپ کو بیٹھ کر سوچنا چاہیے۔
عدالت میں بیان دیتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ دن ڈیڑھ بجے میری گاڑی کو روکا گیا، پولیس اہلکاروں نے کہا کہ آپ گاڑی سے نکلیں کوئی بات کرنی ہے، خواتین پولیس اہلکاروں نے مجھے گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا، میں نے کہا کہ مجھے وارنٹ دکھائیں، ایک سادہ کپڑوں والے نے میرا موبائل چھینا جو ابھی تک واپس نہیں ملا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ میرے ناخن نوچے گئے، کریمنل رویے کا مظاہرہ کیا، موٹروے پر لے کر گئے اور چکری کے پاس گاڑی روک لی، اس مرتبہ سفید گاڑی تھی، میں نے کہا کہ 70 سال عمر ہے اور مریضہ ہوں، ایک ڈاکٹر آیا کہ آپ کا میڈیکل ٹیسٹ کرنا ہے کہ آپ سفر کے قابل ہیں یا نہیں، میں نے میڈیکل کروانے سے انکار کیا۔
شیریں مزاری نے کہا کہ مجھے گاڑی میں بٹھایا اور کہا کہ انہیں واپس لے کر جا رہے ہیں، میرا بیگ کھول کر اس کی تلاشی لی گئی۔
رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ عدالت کی کارروائی سے مطمئن ہوں، جو لوگ مجھے لے کر گئے تھے وہ یہیں پیش ہوئے تھے، میرا فون ابھی واپس نہیں کیا آرڈر ہوگیا ہے۔
تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری فون کی حوالگی کے لیے آئی جی کو ڈھونڈتی رہیں۔
شیریں مزاری نے عدالتی حکم کے بعد اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ تھینک یو یور آنر۔
اس سے قبل شیریں مزاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچایا گیا، شیریں مزاری کو خاتون پولیس اہل کار لے کر عدالت پہنچیں، ڈاکٹر شیریں مزاری کمرہ عدالت میں ایمان مزاری کے ہمراہ موجود تھی۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے شیریں مزاری کو ساڑھے گیارہ بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
واضح رہے کہ اینٹی کرپشن پنجاب کی ٹیم نے پی ٹی آئی کی سینئر رہنما کو اسلام آباد کے تھانہ کوہسار کی حدود سے حراست میں لیا تھا، تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔
Comments are closed.