اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی اپیلیں بحال کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے 7 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی اپیلیں بحال کرنے کی درخواست منظور کی جاتی ہے، اپیلوں کو میرٹس پر سن کا فیصلہ کیا جائے گا۔
فیصلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ نیب نے واضح طور پر بتایا کہ اس کا پٹیشنر کی گرفتاری کا کوئی ارادہ نہیں، پٹیشنر کو پاکستان آنے پر عدالت کے عبوری حکم کے تحت گرفتار نہیں کیا گیا، نواز شریف کو گرفتار نہ کرنے کے عبوری ریلیف میں دو دن کا اضافہ کیا گیا۔
عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کی حفاظتی ضمانت نیب کے واضح اور غیر مبہم موقف کی وجہ سے دی گئی، نیب نے کہا نواز شریف کی گرفتاری نہیں چاہیے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق نواز شریف نے اپیل بحالی کی درخواست دائر کی، عدالت نے 24 اکتوبر کو نوٹس جاری کیا اور 26 اکتوبر کو نواز شریف کی اپیل بحالی کی درخواست منظور کی۔
فیصلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ العزیزیہ ریفرنس میں پنجاب حکومت کی جانب سے سزا معطل ہو چکی، پنجاب حکومت نے سی آر پی سی سیکشن 401 (2) کے تحت سزا معطل کی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسکیوٹر جنرل نیب نے اپیل بحالی کی مخالفت نہیں کی، تمام تر قانونی اثرات کے ساتھ نواز شریف کی اپیلیں بحال کی جاتی ہیں۔
فیصلے کے متن کے مطابق نواز شریف نے پنجاب حکومت کے سامنے موقف اختیار کیا وہ 74 سال کے ہیں، پنجاب حکومت کے سامنے نواز شریف کے وکلا نے کہا وہ صحت کی خرابی کے باعث جیل میں نہیں رہ سکتے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے سفارش کی نگراں صوبائی کابینہ نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کرسکتی ہے، نگراں صوبائی کابینہ نے کمیٹی کی سفارشات منظور کر کے نوازشریف کی سزا 24 اکتوبر کو معطل کردی۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق عدالتی حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ عطا تارڑ کی طرف سے دیا گیا پاور آف اٹارنی درست طریقہ کار سے تیار نہیں کیا گیا تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پاور آف اٹارنی قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا تھا۔
Comments are closed.