آئی ٹی آئی ٹرین: اسلام آباد، تہران، استنبول ریل سروس کا دوبارہ افتتاح کیا اب کی بار کیا ٹرین مستقل بنیادوں پر پٹری پر چڑھے گی؟
- اعظم خان
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان، ترکی اور ایران کےدرمیان اسلام آباد سے تہران اور پھر استنبول تک ریل سروس کی بحالی کے لیے اس منصوبے کا دوبارہ افتتاح کیا گیا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وفاقی وزیر برائے ریلوے اعظم سواتی کے ہمراہ اسلام آباد میں مارگلہ ریلوے سٹیشن پر کارگو سروس کی بحالی کی تقریب کے بعد اپنے خطاب میں بتایا کہ اس سے تینوں ملکوں میں تجارت کو فروغ ملے گا۔
حالیہ معاہدے کے مطابق یہ کارگو ریل سروس اگلے سال سے باقاعدگی سے چلائی جائے گی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں ترکی سے آگے یورپی منڈیوں تک بھی پاکستان کی ٹرین سروس کو رسائی ملے گی۔
یاد رہے کہ یہ سروس سنہ 2009 میں شروع کی گئی تھی مگر گذشتہ برس تک کوئی بھی ٹرین اس روٹ پر نہ چل سکی جس کی وجہ سے ان تین ممالک نے اس کی 2021 میں بحالی پر اتفاق رائے کیا تھا۔
پاکستان اس سروس کو چلانے کے لیے کتنا تیار ہے اور اس کی بحالی کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟
بی بی سی نے ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے پاکستانی حکام، ماہرین اور تاجروں کے نمائندوں سے بات کی ہے لیکن اس تفصیلی بحث سے قبل اس کنٹینر ٹرین سروس کے تاریخی پس منظر پر نظر دوڑانا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیے
یہ ٹرین سروس کب شروع کی گئی؟
اس ٹرین سروس کا افتتاح سنہ 2009 میں کیا گیا۔ اس کا نام گولڈ ٹرین سروس رکھا گیا۔ جس کے بعد سے وقتاً فوقتاً یہ ٹرین کسی نہ کسی صورت تین ممالک کے درمیان سنہ 2019 تک فعال رہی۔ سال 2020 میں یہ سروس مکمل طور پر معطل رہی۔
اس سروس کا آغاز سنہ 2009 میں پاکستان کے سابق صدر صدر آصف زرداری، ایران کے صدر احمدی نژاد اور ترکی کے صدر عبداللہ گل کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد ہوا۔
پاکستانی حکام کا خیال تھا کہ اس ریل گاڑی سے وسطی ایشیا اور یورپ تک پاکستان کے لیے راستے کھل جائیں گے، جس سے ان ممالک میں بہتر تجارتی تعلقات استوار ہو سکیں گے۔
کارگو ٹرین کے بعد مسافر ریل گاڑی چلانے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔ اسلام آباد سے استنبول تک کی مسافت تقریباً ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر بنتی ہے۔
ترکی میں پاکستان کے قونصلر جنرل بلال پاشا کے مطابق اس ٹرین کا تصور 1960-1970 سے چلا آ رہا ہے اور ماضی میں اسے ’آر سی ڈی ٹرین‘ کہا جاتا تھا۔ جب سنہ 1985 میں اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (ای سی او) کا قیام عمل میں لایا گیا تو پھر اس ٹرین کا نام بدل کر اس نئے اتحاد کے نام پر رکھ لیا گیا۔
جب سنہ 1992 میں مزید ممالک اس اتحاد کا حصہ بنے تو پھر یہ سوچ آئی کہ اب اس ٹرین کو دیگر ممالک تک پہنچایا جائے۔ اس منصوبے کے تحت تمام دس ممالک کو سڑک اور ریل کے ذریعے بھی ملایا جائے گا۔ بلال پاشا کے مطابق اب سی پیک اس میں ایک نیا اضافہ ہے۔
قونصلر جنرل کے مطابق ترکی کو زمینی سفر سے متعلق مہارت حاصل ہے، اس وقت ترکی نے چین تک ٹرین سروس بھی شروع کر دی ہے۔
ان کے مطابق یہ ٹرین جس کی رواں ماہ افتتاحی تقریب میں وہ خود بھی شریک تھے، صرف 12 دن میں ترکی سے تہران پھر ازبکستان اور قازقستان سے ہوتی ہوئی چین پہنچی ہے۔ ان کے مطابق ترکی سے 21 دسمبر کو بھی چین کے لیے دوسری ٹرین 35 کنٹینر لے کر روانہ ہو گئی ہے۔
ان کے مطابق ایک کنٹینر کا کرایہ 1500 ڈالر بنتا ہے۔
’پاکستان کی ٹرین کبھی پاکستان سے باہر نہ نکل سکی‘
یوں تو روٹ کے مطابق یہ ریل اسلام آباد سے لاہور اور سکھر کے راستے کوئٹہ پہنچتی ہے جہاں سے آگے پاکستان کے سرحدی شہر تفتان سے ہوتی ہوئی ایران کے شہر زاہدان تک کا سفر شروع ہوتا ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ اس سروس کو شروع کرنے کے باوجود کبھی پاکستان کی ٹرین ملکی حدود سے باہر سفر نہ کر سکی۔
ریلوے حکام کے مطابق اسلام آباد سے زاہدان تک ایک طرح کی ریل کی پٹڑی ہے جبکہ زاہدان سے آگے استنبول تک پھر سٹینڈرڈ گیج کی پٹڑی ہے، جس وجہ سے پاکستانی ٹرین اس پٹڑی پر مزید سفر جاری نہیں رکھ سکتی۔
ایران اور استنبول کی پٹڑی کا معیار یورپین ہے جبکہ پاکستان کی پٹڑی برطانوی راج کے دور کی بنی ہوئی ہے، جس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے
اس لیے زاہدان کے مقام پر ایرانی حکام پاکستانی ٹرین سے کنٹینر اپنی ریل گاڑی میں منتقل کر دیتے ہیں، جو پھر وہاں سے استنبول تک جاتی ہے۔
تاہم پاکستانی حکام نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ پاکستانی ریل کو کیسے جدید بنایا جائے اور کوئٹہ سے تفتان تک ریلوے لائن کو کب بہتر کیا جائے گا؟
واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کوئٹہ تفتان ریلوے ٹریک سنہ 1920 میں بنایا گیا تھا۔ اس ٹریک کی اپ گریڈیشن میں سٹرکچر کی تبدیلی، 183 ڈپس کی پلوں میں منتقلی، پرانے پلوں کی بحالی اور سگنلز کی فراہمی کا ایک مکمل نظام شامل ہے۔
تاجر برادری کو اس سروس سے کیا شکایات ہیں؟
کوئٹہ چیمبر آف کامرس سے وابستہ صلاح الدین خلجی نے بی بی سی کو بتایا کہ تاجر برادری اس سروس کی بحالی سے خوش ہے تاہم ان کے مطابق اس کو مؤثر بنانے کے لیے پاکستانی حکومت کو تاجروں کو درپیش مسائل حل کرنے ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ تفتان والے روٹ پر ’ریت کے طوفان‘ سے یہ ٹرین رک جاتی ہے اور پٹڑی کی صفائی کا کوئی خاطر خواہ انتظام بھی موجود نہیں۔
ان کے مطابق کوئٹہ کے تاجر ایران کو پھل اور سبزیاں بھیجتے ہیں مگر ٹرین میں ایئرکنڈیشنر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ایران کینو اور آم لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتا ہے کہ اب یہ تازہ نہیں رہے۔
صلاح الدین کے مطابق ان اشیا کو باہر بھیجنے کے لیے کراچی سے جا کر کلیئرنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق حکومت متعلقہ محکمے کا دفتر کوئٹہ میں بھی کھولے تاکہ تاجر کم وقت میں اشیا کی برآمدات کو یقینی بنا سکیں۔
کوئٹہ چیمبر کے جمال الدین اچکزئی کے مطابق اس ٹرین سروس کا سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے کاروباری لین دین میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اب یا تو ’بارٹر ٹریڈ‘ کا نظام وضع کیا جائے، جس کے تحت مال کے بدلے مال دیا جائے یا پھر ایسے بینکوں کے ذریعے کارروبار کیا جائے جنھیں پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہو۔
ان کے مطابق تاجروں کے ایک وفد نے وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو یہ تجویز دی ہے کہ جس چینی بینک کو ان پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہے اس کی ایک برانچ کوئٹہ اور ایک زائدان میں کھولی جائے تاکہ آن لائن پیمنٹ کا نظام وضع کیا جا سکے۔
ان کے مطابق پاکستان ریلوے کے ’کارگو ڈبے‘ مناسب نہیں ہیں جبکہ ریلوے حکام ہفتے میں صرف دو بار انجن دیتے ہیں جس کے ساتھ صرف دس سے 15 بوگیاں ہوتی ہیں جو کاروباری ضروریات کو پورا نہیں کرتیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو ایسی ٹرین سروس شروع کرنی ہو گی جس میں کنٹینر کا نظام ایسا ہو کہ پھر سامان بغیر کسی رکاوٹ کے سیدھا آخری منڈی یعنی منزل مقصود تک جا پہنچے۔
جمال الدین کے مطابق حکام انھیں یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ سی پیک منصوبے کے تحت تفتان تک ریلوے لائن بہتر کر دی جائے گی تاہم ان کے خیال میں یہ ایک وقت طلب کام ہے۔
ریلوے کے سابق وزیر شیخ رشید نے بلوچستان کے ایک دورے کے دوران یہ اعلان بھی کیا تھا کہ چمن سے سپین بولدک تک بھی ریلوے لائن جلد بچھائی جائے گی۔
پاکستانی حکام نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ پاکستانی ریل کو کیسے جدید بنایا جائے اور کوئٹہ سے تفتان تک ریلوے لائن کو کب بہتر کیا جائے گا
’پاکستان کو پٹڑی، ریل اور رفتار بہتر کرنا ہو گی‘
ٹریڈ ڈویلپمنٹ آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) کے سیکریٹری احسن علی منگی نے بی بی سی کو بتایا کہ تہران اور ترکی کے درمیان ٹرین کافی عرصے سے چل رہی ہے۔ ان کے مطابق مسئلہ صرف پاکستان کو درپیش ہے کیونکہ ہماری پٹڑی ایران اور ترکی کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتی۔
خیال رہے کہ احسن علی منگی ای سی او کے ٹرانسپورٹ گروپ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں اور وہ ایسے تمام مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے متعلق تمام امور کے بارے میں وہ ای سی او کے عہدیدار کے طور پر بھی کوشاں رہے ہیں۔
احسن علی منگی کے مطابق ایک بڑا مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ کوئٹہ سے تفتان ٹریک پر تیز اور ہیوی ٹرین نہیں چلائی جا سکتی۔
ایران اور استنبول کی پٹڑی کا معیار یورپین ہے جبکہ پاکستان کی پٹڑی برطانوی راج کے دور کی بنی ہوئی ہے، جس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ترکی میں پاکستان کے قونصلر جنرل بلال پاشا کے مطابق ٹرین کی رفتار بہت اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ اگر ایک ٹرین سمندری جہاز سے دیر سے پہنچے تو پھر اس کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔
ان کے خیال میں اگلے سال سے جس سروس کی بحالی پر اتفاق ہوا ہے وہ ٹرین ایک ہفتے سے دس دن تک اسلام آباد سے استنبول تک اپنا سفر مکمل کر سکے گی جبکہ سمندری جہاز کو پاکستان سے استنبول تک 21 دن لگ جاتے ہیں۔
سیکریٹری ٹی ڈی اے پی کا کہنا ہے کہ اس سروس کو بہتر بنانے کے لیے اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ یہاں سے جب ٹرین استنبول تک سامان لے کر جائے تو پھر کوئی ایسا نظام پہلے سے ایسا ہونا چائیے کہ واپسی پر وہی ٹرین کچھ لے کر بھی واپس آئے۔
ان کے خیال میں اس طرح کرائے کا بوجھ بھی کم ہو سکے گا۔
ترکی میں پاکستان کے قونصل جنرل بلال پاشا کے مطابق اس علاقے کی ’ہارڈ ٹیرین‘ کی وجہ سے ٹرین پر ایک سے زائد انجن لگائے جاتے ہیں جس سے ٹرین کا خرچہ بڑھ جاتا ہے۔
بلال پاشا کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان علاقائی روابط بڑھانے کی ڈگر پر چل پڑا ہے اور اب یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان گوادر تک اپنی ریل کی پٹڑی کو بہتر بنا سکے گا اور یوں تجارتی حجم کو بھی بڑھا سکے گا۔
قونصلر جنرل کا کہنا ہے کہ اس وقت چھ اور ایسے منصوبوں پر بھی ای سی او کی سطح پر کام ہو رہا ہے۔
پاکستان کی برآمدات اور درآمدات
پاکستانی حکام کے مطابق تاجر برادری نے اس ریل گاڑی میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس کنٹینر سروس کا خرچہ کم ہو گا اور کم وقت میں سامان یورپ کی منڈیوں تک پہنچایا جا سکے گا۔
پاکستان سے یوریا اور چاول کی کافی مانگ ہے۔ اسی طرح کباڑ بھی پاکستان سے باہر بھیجا جاتا ہے۔ پاکستان ان ممالک سے سینیٹری اشیا، ٹائلز اور ہارڈویئرز کے آئٹم منگواتا ہے۔
پاکستان کے وزارت کامرس کے ترکی ڈیسک کے انچارج بابر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ سال 2019-20 کے دوران ترکی اور پاکستان کے درمیان کل تجارت 618 ملین ڈالر رہی، جس میں برآمدات کا حصہ 262 ملین ڈالر جبکہ 354 ملین ڈالر کی درآمدات ہوئی۔
ڈاکٹر اشفاق حسن معاشی امور کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ تجارتی حجم کو بڑھانے کے لیے تینوں ممالک قریب آئے ہیں جو یقیناً پاکستان کے فائدے میں ہے۔
ان کے مطابق مسائل تو حل ہو جاتے ہیں مگر اہم بات ہے کہ کچھ پیشرفت ہو۔ ان کے خیال میں یہ منصوبہ ابھی تک آر سی ڈی اتحاد کی ہی ایک شکل ہے، جس میں تین ممالک اپنے روابط بڑھانے پر متفق نظر آتے ہیں۔
Comments are closed.