اسلامی ممالک میں بڑھتی قربتوں کے انڈیا پر کیا اثرات ہوں گے؟
- مصنف, رجنیش کمار
- عہدہ, بی بی سی نیوز، انڈیا
جب انڈیا آزاد ہوا تو مغربی ایشیا پر یورپ اور امریکہ کا غلبہ تھا اور مغربی ایشیا کے تمام آزاد ممالک کمیونسٹ مخالف اور مغرب نواز تھے۔ یہ تمام ممالک سرد جنگ کے دوران امریکی کیمپ میں رہے اور سرد جنگ میں جب جواہر لال نہرو کی قیادت میں بھارت نے کسی بھی کیمپ میں نہ جانے کا فیصلہ کیا تو مغرب کی ناراضی واضح طور پر نظر آنے لگی۔ لیکن اب تاریخ بدل رہی ہے۔
سنہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سعودی عرب سے اس کی دوری دشمنی کی حد تک بڑھ گئی تھی۔ اس عرصے میں سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ایران کے خلاف امریکی اتحاد میں کھل کر شامل رہا، لیکن اب مغربی ایشیا میں ایک نئی تحریک چل رہی ہے۔
اب روایتی کمیونسٹ مخالف مغربی ایشیا میں ایک کمیونسٹ طاقت یعنی چین اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ چین نے سعودی عرب اور ایران کی دشمنی میں دوستی کا رنگ بھرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب سفارتی تعلقات بحال کرنے جا رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ پورا مغربی ایشیا امریکی تسلط سے باہر آ رہا ہے۔
عالم اسلام میں اتھل پتھل
یہ بات صرف سعودی عرب اور ایران تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان کے سفارتی تعلقات میں بحالی کے اعلان سے پہلے بھی بہت کچھ ہو رہا تھا جو معمول سے ہٹ کے تھا۔
گزشتہ سال اپریل میں ترک صدر رجب طیب اردوغان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور پھر جون میں سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے ترکی کا دورہ کیا تھا۔
اس سے قبل نومبر 2021 میں ابوظہبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کے موجودہ صدر شیخ محمد بن زید النہیان نے ترکی کا دورہ کیا تھا اور فروری 2022 میں ترک صدر رجب طیب اردغان بھی متحدہ عرب امارات کے دورے پر گئے۔
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نظریاتی طور پر علاقائی تنازعے میں ایک ہی اسٹیج پر تھے جبکہ ترکی مخالف فریق میں تھا۔ جب 2010 میں عرب بہار کا آغاز ہوا تو اردغان کی اخوان المسلمون کی حامی جماعت آق نے سیاسی اسلام کی حمایت کی۔
اردغان کے اس موقف کو خلیج میں بادشاہت کے نظام کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اردغان کے موقف سے ناراض تھے اور ایسے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی علاقائی محاذ آرائی میں ترکی کے خلاف رہے۔
ترکی نے 2017 سے 2021 کے درمیانی عرصے میں قطر کے خلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی ناکہ بندی کی مخالفت کی تھی اور اردغان نے 2016 میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت پر متحدہ عرب امارات پر بھی انگلیاں اٹھائی تھیں۔
گزشتہ ماہ شام کے صدر بشار الاسد نے اپنی اہلیہ اسماء الاسد کے ہمراہ متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ اس سے قبل سنہ 2011 میں جب شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو سعودی عرب کی طرح متحدہ عرب امارات بھی باغیوں کے ساتھ تھا اور دونوں ممالک چاہتے تھے کہ صدر اسد اقتدار چھوڑ دیں۔
صدر بشار الاسد کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے اور شام کی آبادی کی اکثریت سنی ہے۔ لیکن لگتا ہے مغربی ایشیا میں آنے والیی حالیہ تبدیلیوں میں یہ مسلکی دیواریں بھی گر جائیں گی۔
سعودی عرب 19 مئی سے ریاض میں شروع ہونے والے عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں شام کے صدر بشار الاسد کو مدعو کرنے جا رہا ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے موقف سے یہ واضح ہے کہ شام 2011 سے اس کے علاقے میں موجود تنہائی کو ختم کرنے جا رہا ہے۔ سنہ2011 میں شام کے بحران کی وجہ سے عرب دنیا میں باہمی اختلافات میں اضافہ ہو گیا تھا اوراسی برس شام کو عرب لیگ سے نکال دیا گیا تھا۔پھر مغرب کے ممالک کے ساتھ ساتھ عرب ممالک بھی شامی صدر کا بائیکاٹ کرنے لگے تھے۔
ادھر2015 سے یمن سعودی عرب اور ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان خونریز جنگ کا شکار ہے۔ اب یہ لڑائی بھی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور سنیچر آٹھ اپریل کو سعودی اور عمانی مذاکرات کار یمن کے دارالحکومت صنعا پہنچ گئے۔
کہا جا رہا ہے کہ یمن میں جنگ کے خاتمے کا اعلان عید سے پہلے کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق معاہدہ تیار ہے۔ اس کے مطابق ابتدائی طور پر جنگ بندی میں توسیع کی جائے گی، ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور پھر صنعا ایئرپورٹ بھی کھول دیا جائے گا۔ یمن کے خلاف ناکہ بندی بھی ختم ہو جائے گی تاکہ اسے بندرگاہ تک رسائی مل سکے۔ اس کے بعد یمن سے غیر ملکی افواج کا انخلا شروع ہو جائے گا۔
سعودی عرب کی آزاد خارجہ پالیسی؟
سعودی عرب کے حالیہ فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے ماتحت کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سعودی عرب اب کثیر قطبی (ملٹی پولر) دنیا کی بات کر رہا ہے اور وہ امریکہ کی پرواہ کیے بغیر جرات مندانہ فیصلے کر رہا ہے۔
سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے اور ایران کے ساتھ دشمنی ختم کرنے میں مصروف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب ڈرامائی طور پر اپنی ’غلطیوں‘ کو درست کر رہا ہے۔
سعودی عرب پرانے حریفوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے، نئے دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے اور سپر پاورز کے درمیان توازن قائم کر رہا ہے۔ سعودی عرب یہ تمام کوششیں اپنی معیشت کی بحالی کے لیے کر رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اگر سعودی عرب اپنی خارجہ پالیسی کو آزادانہ طور پر چلاتا ہے اور سفارتکاری کے ذریعے علاقائی استحکام کی بحالی میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کے مغربی ایشیا پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
کئی برس تک سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں ایران سے دشمنی نمایاں رہی جس کے نتیجے میں پورے خطے میں پراکسی وار کو فروغ دیا گیا۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ میں صرف ایران شام کے ساتھ تھا جبکہ سعودی عرب اپنے خلیجی اتحادیوں کے ساتھ بشار الاسد کے خلاف تھا۔
ترکی بھی مغرب کے ساتھ بشار الاسد کے خلاف تھا جبکہ روس بشار الاسد کے ساتھ تھا اور روس اور ایران کی مدد سے اسد شام میں باغیوں کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔
یمن میں سعودی مداخلت حوثیوں کو دارالحکومت صنعا سے ہٹانے میں ناکام رہی، یہاں تک کہ حوثیوں نے سعودی عرب کے اندر ڈرون سے حملے شروع کر دیے۔
مغربی ایشیا میں حالیہ ہلچل کے حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی ترجیح اب یہاں سے دور جا رہی ہے۔ یہ چین کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔
چین کے ایران اور سعودی عرب دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ایسے میں چین نے دونوں کی دشمنی کو کم کرنے کے لیے پہل کی اور یہ چین کے حق میں بھی تھا۔ سعودی عرب روس، چین اور امریکہ جیسی سپر پاورز کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سعودی عرب نے یوکرین پر روسی حملے کے خلاف مغربی پابندیوں میں شمولیت اختیار نہیں کی اور دوسری طرف امریکہ کے نہ چاہنے کے باوجود تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا۔ روس کو تیل کی پیداوار میں کمی کا براہ راست فائدہ ہو گا کیونکہ روس دنیا کا سب سے بڑا توانائی برآمد کرنے والا ملک ہے۔
اس کے باوجود سعودی عرب نے امریکہ سے 35 ارب ڈالر کا بوئنگ طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ امریکہ چاہتا تھا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے لیکن اس کے لیے اس نے کئی شرائط رکھی تھیں۔ دوسری جانب چین ہے جو سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور چین کے درمیان دفاعی اور تجارتی شراکت داری بھی بڑھ رہی ہے۔
انڈیا کہاں کھڑا ہے؟
مغربی ایشیا میں بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن اس پورے تناظر میں انڈیا کہاں ہے؟ مغربی ایشیا میں انڈیا کے مفادات مختلف ممالک سے منسلک ہیں اور متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اس کے تیسرے اور چوتھے بڑے تجارتی ساتھی ہیں۔
انڈیا اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے مغربی ایشیا پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کے تقریباً 90 لاکھ لوگ خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں اور اربوں ڈالر کما کر ملک بھیجتے ہیں۔ چین اس خطے میں ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر ابھر رہا ہے، لیکن انڈیا کیا کر رہا ہے؟
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ویسٹ ایشیا اسٹڈیز کے پروفیسر اشونی مہاپاترا بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مغربی ایشیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے انڈیا کے چیلنجوں میں اضافہ ہونے والا ہے۔
اشونی مہاپاترا کا کہنا ہے کہ ’جب امریکہ نے اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور انڈیا کے ساتھ مل کر آئی 2 یو 2 بنایا تو ایسا لگ رہا تھا کہ سعودی عرب بھی اس میں شامل ہو جائے گا۔ لیکن چین نے حیرت انگیز طور پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کر دیے۔ بھارت کو اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا اور یہ اس کے لیے بہت حیران کن بات تھی۔ اگر ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پائیدار بنیاوں پر بہتر ہو جاتے ہیں تو انڈیا کو مختلف انداز میں سوچنا پڑے گا۔ اس کا اثر ہم نے حال ہی میں دیکھا کہ انڈیا نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا۔ انڈیا اب اسرائیل کے حوالے سے زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان اعتماد بحال کرنا مشکل ہے۔ ایران فلسطین میں حماس کی حمایت کرتا ہے، سعودی عرب اس کے بالکل خلاف ہے۔ ایران بھی اخوان المسلمون کے ساتھ نظر آتا ہے اور سعودی عرب اسے پسند نہیں کرتا۔ شیعہ اور سنی کی دیواریں بھی اتنی جلدی ٹوٹنے والی نہیں ہیں۔‘
امریکہ کی ڈیلاویئر یونیورسٹی کے پروفیسر مقتدر خان، جو بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر اور فہم رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کو سوچنا چاہیے کہ چین یہاں جو کر رہا ہے وہ کیوں نہیں کر پا رہا ہے۔
پروفیسر خان کہتے ہیں کہ ’انڈیا کی داخلی سیاست کو جس سمت میں لے جایا جا رہا ہے اس سے مغربی ایشیا کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے بارے میں مسلسل بیانات جاری کر رہی ہے۔ ایک طرف انڈیا گلوبل ساؤتھ کی آواز بننے کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف او آئی سی سے ٹکراؤ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ انڈیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ پوری او آئی سی گلوبل ساؤتھ میں آتی ہے۔ کیا بھارت او آئی سی کو بے دخل کرکے اس خطے کی آواز بنے گا؟‘
مقتدر خان کہتے ہیں کہ ’جس تیاری کے ساتھ چین مغربی ایشیا میں قدم جما رہا ہے اس سے آنے والے دنوں میں انڈیا کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ انڈیا اس سے مکمل طور پر بے خبر ہے۔‘
جے این یو میں سینٹر فار سنٹرل ایشیا اینڈ رشیئن اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسرت راجن کمار اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ انڈیا بے خبر ہے۔
پروفیسر راجن کمار کہتے ہیں کہ ’ہندوستان اپنی سطح پر کئی کوششیں کر رہا ہے۔ ہر ملک کی اپنی سرحد ہوتی ہے۔ ہم ہر لحاظ سے چین کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ چین اور بھارت کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔‘
جب چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تو انڈیا کی جانب سے بھرپور رد عمل سامنے آیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا تھا کہ انڈیا کے مغربی ایشیا کے کئی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور انڈیا کے اس علاقے میں گہرے اور پائیدار مفادات ہیں۔ انڈیا نے ہمیشہ تنازعات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے کی وکالت کی ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو گزشتہ سال نومبر کے پہلے ہفتے میں ہندوستان کا دورہ کرنا تھا لیکن انہوں نے یہ دورہ ملتوی کردیا۔ پھر نومبر میں انڈونیشیا کے شہر بالی میں جی 20 کا سربراہ اجلاس ہوا۔ سعودی ولی عہد کو انڈیا کے راستے بالی جانا تھا لیکن وہ براہ راست بالی پہنچے۔
سعودی ولی عہد نے بالی میں جی 20 سربراہ اجلاس میں شرکت کے بعد جنوبی کوریا کا دورہ بھی کیا۔ انہوں نے جنوبی کوریا میں کئی معاہدے بھی کیے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی بالی میں ہونے والے جی 20 سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے لیکن اس اجلاس کے موقع پر ولی عہد سے کوئی باضابطہ دو طرفہ ملاقات نہیں ہوئی۔ جی 20 سربراہ اجلاس کے تقریباً ایک ماہ بعد چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔
مغربی ایشیا میں بھارت کے مسائل
کہا جاتا ہے کہ پاکستان مغربی ایشیا میں بھارت کے خلاف اسلامی کارڈ استعمال کرتا ہے۔
انڈین فارن سروس کے ریٹائرڈ افسر اور قومی سلامتی کے مشیروں کے بورڈ کے رکن رنجیت گپتا نے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ پر ایک مضمون میں کہا کہ ’ پاکستان کو مغرب، سعودی عرب، ترکی اور ایران کی حمایت مل رہی ہے۔ سنہ 1969 میں ہندوستان کو بے جا ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 1969ء میں سعودی عرب، اردن اور مراکش کے حکمرانوں نے بھی مراکش کے دارالحکومت رباط میں مسلم ممالک کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے انڈیا کو مدعو کیا تھا۔
اس اجلاس کے بعد مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی بن گئی۔ افتتاحی اجلاس کے بعد انڈیا کو سربراہی اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ پاکستان نے اجلاس چھوڑنے کی دھمکی دے دی تھی۔ اس کے بعد سے پاکستان ہمیشہ او آئی سی میں بھارت مخالف ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہا ہے۔‘
جب صدام حسین عراق کی کمان سنبھال رہے تھے تو عراق کو مغربی ایشیا میں بھارت کا قریب ترین اتحادی سمجھا جاتا تھا۔
رنجیت گپتا لکھتے ہیں کہ ’سرد جنگ کے دوران عراق انڈیا کا سب سے قابل اعتماد اتحادی تھا۔ انڈیا نے عراق میں درجنوں منصوبے شروع کیے تھے اور وہاں اپنے فوجیوں کو تربیت دی تھی۔ عراق انڈیا کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے اور اب بھی ہے۔
صدام حسین نے بھی پاکستان کے معاملے میں بھارت کا ساتھ دیا۔ انڈیا اور عراق دونوں سوویت یونین کے قریب تھے۔ مغربی ایشیا میں عراق کی انڈیا اور سوویت یونین سے قربت کو منفی انداز میں دیکھا گیا۔
لیکن جب سنہ 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے خلاف پاکستان، امریکہ اور سعودی عرب کا اتحاد مضبوط ہوا جس سے مغربی ایشیا میں انڈیا کے مفادات بھی متاثر ہوئے۔
اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں ایران انڈیا سے زیادہ پاکستان کے ساتھ رہا۔ ایران ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے مغرب کے خلاف ہونے کے باوجود کشمیر اور دیگر معاملات میں پاکستان کی حمایت کرتا رہا ہے۔
مغربی ایشیا میں انڈیا کو بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پالیسی پرسپیکٹو فاؤنڈیشن کے سینیئر فیلو انور عالم کہتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی بھارت وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا میں جغرافیائی سیاسی رسائی سے مستقل طور پر محروم ہو گیا تھا۔ قیام پاکستان کی وجہ سے بھارت وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا سے زمینی سرحد سے کٹ گیا تھا۔
انور عالم نے لکھا کہ ’اسلامی مغربی ایشیا میں پاکستان کا ایک مضبوط سیاسی اتحاد ہے۔ پاکستان اپنے آپ کو مظلوم اور فوجی شراکت دار قرار دیتے ہوئے اسلامی شناخت کے ذریعے اس اتحاد کو متحرک کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ انڈیا کی میڈیا کی حکمت عملی بھی مغربی ایشیا میں پاکستان کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ چین مغربی ایشیا میں بھی تیزی سے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے اور یہ انڈیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔‘
جے این یو کے پروفیسر راجن کمار کہتے ہیں کہ انڈین سیاست میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ تقسیم یا مسلم مخالف تصور مغربی ایشیا میں ہندوستان کے مفادات کو براہ راست متاثر کر رہا ہے۔
راجن کمار کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس سے خلیجی ممالک کے حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن یہ چیز وہاں کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ اگر ان ممالک میں جمہوریت ہوتی تو لوگ بھی سڑکوں پر نکل آتے اور احتجاج کرتے۔
Comments are closed.