بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

اسلاموفوبیا نے انڈیا کی خارجہ پالیسی کو کس طرح نقصان پہنچایا؟

نوپور شرما: اسلاموفوبیا نے انڈیا کی خارجہ پالیسی کو کس طرح نقصان پہنچایا؟

  • سوتک بسواس
  • بی بی سی نامہ نگار، انڈیا

Muslim activists shout slogans in reaction to the remarks of suspended BJP leader and spokesperson Nupur Sharma on Prophet Muhammad during a protest at Bhendi Bazar, on June 6, 2022 in Mumbai, Indi

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مسلمان بی جے پی رہنماؤں کی طرف سے ’توہین آمیز‘ بینات پر احتجاج کر رہے ہیں

انڈیا میں اپریل 2020 کے دوران مسلمانوں کی تبلیغی جماعت کے ایک اجتماع پر کووڈ کی وبا پھیلانے کے الزامات کے بعد ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت یعنی اسلاموفوبیا میں بہت شدت آ گئی تھی۔

دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ہونے والے مسلمانوں کے تبلیغی اجتماع میں ملک کے اندر اور ملک کے باہر سے آنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔ مسلمانوں کی تبلیغی جماعت سو سال پرانی تحریک ہے اور یہ خطے کے دوسرے ملکوں میں بھی سرگرم ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس اجتماع کو ‘سپر سپریڈر’ یا وبا کو انتہائی تیز رفتاری سے پھیلانے والی تقریب قرار دیا۔

ٹوئٹر پر اسلاموفوبیا یا مذہبی منافرت پر مبنی میم (تمسخر انگیز خاکے اور ویڈیوز) اور ہیش ٹیگ کی بھرمار ہو گئی جس میں تبلیغی جماعت کو وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جانے لگا۔ انڈیا کے ذرائع ابلاغ نے آگ بھڑکانے والی سرخیاں لگانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے ملک کو ’کورونا جہاد’ سے بچانے کی مہم شروع کر دی۔

اس اجتماع میں شرکت کرنے والے تقریباً ایک ہزار افراد پر وبا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کا خیال نہ رکھنے پر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ آٹھ ماہ بعد عدالتوں نے ان لوگوں کو بری کرتے ہوئے کہا کہ ان پر مقدمات حکومت کے ایما پر بدنیتی سے بنائے گئے تھے۔

تبلیغی جماعت کے کئی شرکا کا تعلق انڈونیشیا سے تھا جو انڈیا کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

انڈونیشیا نے اس معاملے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ انڈونیشیا میں منتخب ارکین نے الزام عائد کیا کہ یہ انڈیا میں بسنے والے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔

انڈیا کے ایک سابق سفارت کار نے کہا کہ یہ ایک ایسی مثال ہے کہ کیسے اندرونی مسئلہ پھیل کر خارجی امور کا مسئلہ بن جاتا ہے۔

Some Hindu leaders called for violence against Muslims in December

،تصویر کا ذریعہFacebook/DEVBHOOMI RAKSHA ABHIYAN

،تصویر کا کیپشن

کچھ انتہا پسند ہندو سرے عام مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکساتے ہیں

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

انڈیا کی حکمران جماعت کے دو اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے مسلمانوں کے پیغمبر کے بارے میں توہین آمیز بیان دیے جانے کے بعد ملک کو خارجی امور میں جس صورتحال کا سامنا ہے اس کو سنبھالنے کے لیے جو کوششیں کرنی پڑ رہی ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی مودی کی حکومت کو عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے حوالے سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔

دو سال قبل بی جے پی کے رکن پارلیمان تیجسوی سوریا اس تنازع کا مرکزی کردار بن گئے جب ان کی 2015 میں ایک عرب خاتون کے بارے میں کی گئی ٹویٹ وائرل ہو گئی تھی۔

کویت اور دبئی میں اعلی کاروباری شخصیات، قانون دانوں اور مبصرین نے سوریا کے کلمات کی مذمت کی تھی۔ سوریا نے بعد میں اپنی ٹویٹ کو واپس لے لیا تھا۔

ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے سنہ 2018 میں ایک عوامی اجتماع کے دوران بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کو ’گھس بیٹھیے‘ کہنے کے علاوہ انھیں ملک کو ’کھوکھلا کرنے والی دیمک‘ قرار دیا تھا۔

امت شاہ کے کلمات نے ممبئی میں بسنے والے بنگلہ دیشیوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی تھی اور ایک وزیر نے ملک کے دوسرے اہم ترین شخص کی طرف سے دیے گئے اس بیان کو غیر ضروری اور احمقانہ قرار دیا تھا۔

بنگلہ دیش میں ایک کالم نگار نے امت شاہ کے بارے میں لکھا کہ وہ ہمیشہ سے بنگلہ دیش کے خلاف نفرت انگیز اور توہین آمیز بیانات دیتے رہتے ہیں۔

گذشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے انڈیا میں بی جے پی کے انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کی ایک سونامی آئی ہوئی ہے۔ کچھ نے تو ملک کے بائیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور انھیں ختم کرنے پر بھی اکسایا۔

یہ بھی پڑھیے

ماضی قریب میں انتہا پسندوں نے مسلمان نوجوانوں پر ہندو لڑکیوں کو ’ورغلا کر شادیاں رچانے‘ کے بے بنیاد الزامات لگا کر’لو جہاد’ کا ہوا کھڑا کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی سازش کی۔

ملک کے مختلف حصوں میں سخت گیر ہندو گروہوں نے گائے کی رکھوالی یا تحفظ کے نام پر درجنوں مسلمانوں کو سرے عام ہلاک کر دیا یا گوشت کے کاروبار کا بائیکاٹ کر دیا۔

سوشل میڈیا پر مسلمان خواتین اخبار نویسوں کے خلاف زہر انگیز مہم چلائی گئی۔ مسلمان خواتین کے ناموں کی فہرست بنا کر ان کی سوشل میڈیا پر نیلامی شروع کر دی گئی۔ جانبدار ذرائع ابلاغ نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے چینلوں پر ہونے والے مباحثوں اور گفتگو کے پروگرامز میں شرکا کو انتہائی موقف اختیار کرنے پر مجبور کیا۔

اس بار سفارتی آگ بجھانے کا کام اپنی نوعیت کا پہلا نہیں۔ ماضی میں بھی مودی کی حکومت کو اسلامو فوبیا کی وجہ سے عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے یا تو دانستہ خاموشی اختیار کیے رکھی ہے، جواب دینے میں لیت و لعل سے کام لیا ہے یا اس طرح کی کارروائیوں کے لیے ’کچھ عناصر‘ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مودی کے رویے سے عام ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بدنام کریں اور پھر اس کے نتائج سامنے آئے ہیں۔

2018 میں دبئی کے ہوٹل میں کام کرنے والے ایک مشہور انڈین نژاد شیف کو اسلام مخالف ٹویٹ پوسٹ کرنے پر برطرف کر دیا گیا۔ جب دبئی میں رہنے والے انڈین شہریوں نے 2020 میں تبلیغی جماعت مخالف ٹویٹس پوسٹ کرنا شروع کیں تو حکمران شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک مقامی کاروباری خاتون نے ٹویٹ کیا کہ ’جو بھی متحدہ عرب امارات میں کھلے عام نسل پرست اور امتیازی رویہ اختیار کرے گا اسے جرمانہ کیا جائے گا اور اسے نکال دیا جائے گا۔‘

Indian Prime Minister Narendra Modi (R) welcomes Sheikh Hamed Bin Zayed Al Nahyan, Chairman of the Crown Prince Court of Abu Dhabi, to the founding conference of the International Solar Alliance in New Delhi on March 11, 2018.

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

خلیجی ممالک سے اچھے تعلقات مودی حکومت کی ترجیح رہی ہے

اس بار پھر حیرت انگیز طور پر زبردست رد عمل سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب، ایران اور قطر سمیت 15 ممالک نے انڈیا سے احتجاج درج کیا ہے۔ ایک سابق انڈین سفارتکار تلمیز احمد کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز تبصرے کرنا واضح طور پر حد سے تجاوز کرنا تھا۔

مسٹر مودی کی حکومت اپنے ترجمان کو ان کے ریمارکس پر معطل کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ انڈیا کے سرکردہ سکالر پرتاپ بھانو مہتا نے کہا کہ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور سرکاری پشت پناہی کے ساتھ نفرت انگیز تقاریر، انڈیا کی عالمی ساکھ پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔

نجی طور پر، بہت سے بی جے پی لیڈروں کا خیال ہے کہ غصہ جلد ہی ختم ہو جائے گا اور یہ حالات معمول پر آ جائیں گے۔

بہر حال، انڈیا کے خلیجی ممالک کے ساتھ پرانے اور گہرے تعلقات ہیں۔ خلیج تعاون تنظیم (جی سی سی) سے تعلق رکھنے والے چھ خلیجی ممالک میں تقریباً 85 لاکھ انڈیا کام کرتے ہیں، جو پاکستانیوں کی تعداد سے دگنے ہیں اور دوسری سب سے بڑی غیر ملکی افرادی قوت ہے۔

انڈین شہری ان ممالک میں سب سے بڑی غیر ملکی آبادی بناتے ہیں۔ وہ ہر سال تقریباً 35 ارب ڈالر کی ترسیلات زر گھر بھیجتے ہیں جو کہ انڈیا میں چار کروڑ خاندانوں کی کفالت کرتی ہے، جن میں سے بیشتر انڈیا کی غریب ترین ریاستوں جیسے کہ بی جے پی کی حکمرانی والی اتر پردیش میں ہیں۔

انڈیا اور جی سی سی ممالک کے درمیان تجارت تقریباً 87 ارب ڈالر ہے۔ عراق انڈیا کو تیل فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے اور اس کے بعد سعودی عرب ہے۔ انڈیا کی قدرتی گیس کا 40 فیصد سے زیادہ قطر سے آتا ہے۔

خود وزیر اعظم مودی نے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو اپنی ترجیح بنایا تھا۔ اشوکا یونیورسٹی میں تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر سری ناتھ راگھون کہتے ہیں کہ ’انرجی سکیورٹی، پناہ گزین کے طور پر لوگوں کے روزگار اور وہ واپس بھیجنے والی ترسیلات زر کے معاملے میں انڈیا کے مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ اہم تعلقات ہیں۔‘

لیکن انڈیا اس بارے میں کسی غفلت کا شکار نہیں ہو سکتا۔ ’انڈیا نے ان ممالک میں ایک غیر سیاسی، قانون کی پاسداری کرنے والے اور تکنیکی طور پر ماہر لوگوں کے طور پر اپنی ساکھ بنائی ہے۔ اگر اس طرح کی نفرت انگیز گفتگو جاری رہتی ہے، تو خلیج میں آجر خاموشی سے انڈین شہریوں کو ملازمت دینے سے دور ہٹنا شروع ہو سکتے ہیں۔ وہ انتہا پسندوں کو نوکری دینا کا خطرہ کیوں اٹھائیں گے؟‘

ماہرین کا خیال ہے کہ اس مرتبہ مودی کی حکومت نے تاخیر ہی سے سہی لیکن سخت موقف اختیار کیا ہے۔ ’ایسا لگتا ہے کہ اس بات کا اعتراف ہے کہ اگر یہ چیزیں ہوتی رہیں تو اس کے منفی نتائج ہو سکتے ہیں۔

’ملکی اور غیر ملکی سیاست غیر محفوظ نہیں ہے۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیا وہ واقعی تنازعات میں پڑنا چاہتی ہے؟‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.