اسفنگ: مزیدار ڈونٹ جو صدیوں سے مسلمانوں اور یہودیوں کا مشترکہ اثاثہ ہے
- مصنف, جوئی باور
- عہدہ, بی بی سی، ٹریول
یہودیوں کے تہوار ہانوکا کے موقع پر تیل میں تلی ہوئی چیزیں ضرور بنائی جاتی ہیں لیکن ان دنوں میں قدیم اندلس میں بنائے جانے والے ’اسفنگ‘ کے بغیر دسترخوان مکمل نہیں ہوتا۔
ہانوکا کا لفظی مطلب ’وقف کر دینا‘ ہے اور اہلِ یہود ہر سال یہ تقریب اس واقعے کی یاد میں مناتے ہیں جب انھوں نے تاجِ یونان کے خلاف اس کا بغاوت کا آغاز کیا تھا جس کے نتیجے میں انھوں نے 168 قبل مسیح کے لگ بھگ یروشلم کو یونانیوں کے قبضے سے چھڑا کر اپنے مقدس شمع دان کو ایک مرتبہ پھر شہر کی دوسری بڑی عبادت گاہ کو وقف کر دیا تھا۔
بعد میں یہودیوں کی مذہبی کتابوں میں اس تاریخی واقعے کا ذکر ملتا ہے جہاں اس معجزے کا بھی ذکر ہے جب مذکورہ مقدس شمع دان میں پڑا ہوا تیل مسلسل آٹھ دن تک جلتا رہا اور سیکِنڈ ٹیمپل کے درودیوار اتنے دن تک روشن رہے۔ یوں ہنوکا کے سات دن میں تیل اور تلے ہوئے کھانے تقریبات کا لازمی جزو بن گئے۔
اسی لیے ہر سال جب ہانوکا یا اہلِ یہود کے ’روشنیوں کے تہوار‘ کے دن آتے ہیں تو ہر تقریب میں آپ کو باریک کٹے ہوئے آلوؤں، پیاز اور انڈوں سے بنے ہوئے پین کیک یا لاٹکِز اور میٹھے پھلوں کے جیم سے بھرے ہوئے ڈونٹ (سُفگیانیوٹ) ضرور پیش کیے جاتے ہیں۔
روایتی آٹھ شاخوں والے شمع دان کی بجائے ان دنوں میں یہودی گھرانوں میں آپ کو نو شاخوں والے مِنورہ یا شمع دان دکھائی دیتے ہیں۔
ہانوکا کے ہفتے کے حوالے سے اس زمانے کا ذکر بے جا نہ ہوگا جب 13ویں صدی میں اندلس (موجودہ مراکش اور سپین کے علاقے) میں اسفنگ کہلانے والے گرما گرم ڈونٹ یہودیوں اور مسلمانوں، دونوں برادریوں میں یکساں مقبول ہوا کرتے تھے۔
ہانوکا کے موقع پر دنیا کے مختلف علاقوں میں بسنے والے ان یہودی گھرانوں کے لیے جن کے آباؤ اجداد کا تعلق قدیم سپین سے تھا، تلے ہوئے پکوان اور میٹھی چیزییں بنانا ایک معمول کی بات ہیں، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دسترحوان پر تلے ہوئے اسفنگ کا موجود ہونا بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ دیکھا جائے تو اسفنگ بھی یہودی برادریوں میں مقبول قدیم مٹھائی سفگیانیوٹ کے فرسٹ کزن ہی لگتے ہیں۔
اسفنگ بنانے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس کسی خاص قسم کا نوکدار قیف ہو، بس آٹے کا گیند جتنا پیڑا بنائیں، اسے کھینچ کر لمبا کریں اور دائرے کی شکل میں دونوں سِروں کو جوڑ لیں۔ اس کے بعد اسے تیز گرم تیل میں پھینکیں اور دونوں طرف سے ایک ایک منٹ کے لیے فرائی کر لیں۔ گرما گرم اسفنگ تیار ہے۔ چبانے میں یہ میھٹے کڑک دار ٹوسٹ جیسا لگے گا اور اس کے بعد آپ کا منہ ہلکی ہلکی مٹھاس سے بھر جائے گا۔
ڈاکٹر ہیلین کا بچپن تو فرانس میں گزرا لیکن والد کی طرف سے ان کا نسب اندلس کے قدیم یہودی خاندانوں سے ملتا ہے
ہیلین جوہاریا پائنر نے نہ صرف قرونِ وسطیٰ اور اس دور کے پکوانوں کی تاریخ پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے بلکہ وہ قدیم سپین کے پکوانوں پر ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں۔ کئی تنظیمیں ڈاکٹر ہیلن کی ان صلاحیتوں کی معترف ہیں۔
ڈاکٹر ہیلین کا بچپن تو فرانس میں مقامی لوگوں کے درمیان گزرا لیکن اپنے والد کی طرف سے ان کا نسب اندلس کے قدیم یہودی خاندانوں سے ملتا ہے۔
ان کی دوسری کتاب’ یہودی، کھانے اور سپین‘ رواں برس نومبر میں شائع ہوئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ کو قدیم سپین کے پکوانوں کے بارے میں کچھ بھی پوچھنا ہے تو ڈاکٹر ہیلن سے بہتر ماہر آپ کو مل نہیں سکتا۔
اسفنگ کی شان میں اپنے قصیدے میں وہ کہتی ہیں کہ ’اسفنگ ایک بڑے سائز کا ڈونٹ ہوتا ہے جس کے اوپر نیچے، ہر طرف بلبلے ہی بلبلے ہوتے ہیں۔ یہ باہر سے کڑک دار اور کرسپی ہوتا ہے اور اس کے اندر ہوا ہوتی ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ اسفنگ کا ذکر ہمیں 13ویں صدی میں کھانوں پر لکھی جانے والی مشہور تصنیف ’کتاب الطبیخ‘ میں بھی ملتا ہے، جو کہ ہسپانوی اور پرتگالی جزیرہ نما کے علاقے میں کھانوں کی قدیم ترین کتاب ہے لیکن ڈاکٹر ہیلین کا کہنا ہے کہ ایسی قدیم کتابوں میں اسفنگ بنانے کی جو ترکیبیں بتائی گئی ہیں، وہ آج کل کی ترکیبوں سے بالکل مختلف تھیں۔ مثلاً اس زمانے کے اسفنگ کے درمیان میں کوئی سوراخ نہیں ہوتا تھا۔
تاریخ میں ہمیں سوراخ والے اسفنگ کا دوبارہ ظہور ہسپانوی عربی میں لکھی گئی 13ویں صدی کی ایک مشہور کتاب میں ملتا ہے۔
ڈاکٹر ہیلین کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں دی گئی ترکیب کے مطابق قدیم دور میں اسفنگ گرم پانی میں سوجی، خمیر اور نمک ڈال کر بنایا جاتا تھا۔ اس اسفنگ کے لیے ضروری تھا کہ آپ اسے ایک طرف سے تیل میں سنہرا ہونے تک تل لیں لیکن اوپر سے اسے سفید رہنے دیں۔‘
،تصویر کا ذریعہH l ne Jawhara Pi er
اگرچہ اسفنگ بنانے کی رواییت کا آغاز تو اس زمانے میں ہوا تھا جب سپین میں مسلمانوں کی حکومت تھی لیکن یہ مٹھائی اندلس کے تارکین وطن کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف علاقوں تک پھیل گئی اور آج کے اسفنگ میں ہمیں شمالی امریکہ سے لیکر مشرق وسطیٰ کے کھانوں کی ترکیبوں کا عکس بھی دکھائی دیتا ہے۔
سنہ 1492 میں جب غرناطہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن گیا تو سپین کی ملکہ ایزابیلا نے یہودیوں اور مسلمانوں کو اندلس سے باہر نکال دیا۔
اس میں سے اکثر فرار ہو کر شمالی افریقہ کے اس علاقے میں چلے گئے جو آج مراکش کا حصہ ہیں اور تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد ان کے ساتھ اسفنگ بنانے کی روایت بھی وہاں پہنچ گئی۔ اسی طرح یہ روایت لیبیا اور تیونس بھی پہنچی جہاں اسفنگ کو بالترتیب سنفز اور بمبالونی کہا جاتا ہے۔
اور پھر جب ہنگاموں، قتل وغارت کے بعد سنہ 1948 میں اسرائیل کی ریاست وجود میں آئی تو لوگوں نے اسفنگ کی روایت کو یہاں بھی زندہ کر دیا۔ سنہ 1948 اور 2016 کے درمیانی عرصے میں تقریباً دو لاکھ 74 ہزار 180 یہودی مراکش سے ہجرت کر کے اسرائیل آئے اور تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق اسرائیل میں مراکشی یہودیوں کی کل تعداد چار لاکھ 72 ہزار آٹھ سو ہو چکی ہے۔
اگر آپ اسفنگ کے مختلف ناموں پر غور کریں تو آپ کو اس مٹھائی کے طویل سفر کی کہانی کا پتا چلتا ہے کہ تہواروں پر بنائی جانے والی اندلس کی یہ قدیم مٹھائی سپین اور پرتگال کے جزیرہ نما سے نکل کر شمالی افریقہ سے ہوتی ہوئی اسرائیل تک کیسے پہنچی۔
،تصویر کا ذریعہH l ne Jawhara Pi er
ڈاکٹر ہیلین بتاتی ہیں کہ اسفنگ کو ہسپانوی میں ’ایسپونجا‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس لفظ کا ماخذ عربی کا لفظ ’اسفنج‘ ہے اور اس کا مطلب اردو میں بھی وہی ہے، یعنی جذب کر لینے والی چیز یا اسفنج۔ عبرانی میں اسفنگ کے ایک اور نام (سفوج) کا ماخذ بھی یہی ہے۔
اگرچہ مراکش میں یہودیوں کی آبادی میں خاصی کمی آ چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین ہزار ہے لیکن مراکش میں بھی ٹھیلے والوں سے آپ اب بھی اسفنگ خرید سکتے ہیں۔
مراکش سے نکل کر اسرائیل میں بس جانے والے یہودی بھی ہانوکا کے موقع پر جب تک لاٹکز سے بھری ہوئی پلیٹ پر دو چار اسفنگ نہ ٹھونس لیں، انھیں بھی مزا نہیں آتا۔ مراکش کی گلیوں میں تو آپ سارا سال اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ہیلین کے بقول دنیا کے مخلف علاقوں میں بنایا جانے والا ’اسفنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسلمانوں اور یہودیوں کے مشترکہ اثاثے سے ہے۔ یہ قدرِ مشترک ماضی میں بھی تھی اور آج بھی موجود ہے۔‘
Comments are closed.