اسرائیل کے وسطی شہر ایلعاد میں حملے میں تین افراد ہلاک، عدالتی فیصلے کے بعد فلسطینیوں کو نکالنے کی راہ ہموار
اسرائیل کے وسطی شہر ایلعاد میں حملے میں تین افراد ہلاک، عدالتی فیصلے کے بعد فلسطینیوں کو نکالنے کی راہ ہموار
اسرائیل کے وسطی شہر ایلعاد میں پولیس کے مطابق ایک ممکنہ دہشتگرد حملے کے باعث تین افراد ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ متعدد لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا میں چلنے والی خبروں کے مطابق اس حملے میں ملوث چھریوں اور کلہاڑیوں سے لیس دو حملہ آوروں نے ایک پارک سے گزرنے والے افراد کو نشانہ بنایا۔
اس وقت بھی پولیس ان افراد کی نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس سلسلے میں قریبی سڑکوں پر رکاوٹیں رکھی گئی ہیں اور گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ یہ حملہ اسرائیل کی یومِ آزادی پر کیا گیا ہے اور اس روز ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
ایک طبی رضاکار موتی سنورت کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ‘اس واقعے نے میرے دل کو بہت گہری چوٹ پہنچائی ہے۔’ موتی سنورت نے یروشلم پوسٹ کو بتایا کہ ‘ہلاک ہونے والے افراد پارک میں تازہ ہوا کے لیے گئے تھے لیکن ان کی زندگی ختم کر دی گئی۔’
ایلعاد میں مقامی حکام نے رہائشیوں کو گھروں کے اندر رہنے کی تاکید کی ہے۔ شہر کی زیادہ تر آبادی اسرائیل کی شدید قدامت پسند الٹرا آرتھاڈاکس یہودی کمیونٹی پر مشتمل ہے۔
اسرائیل کے وزیرِ خارجہ یائیر لاپڈ نے کہا کہ ‘یومِ آزادی کی خوشی ایک لمحے میں ختم ہو گئی۔ ایلعاد میں ایک ہلاکت خیز حملے نے ہمارے دل اور روح کو دھچکا پہنچایا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکہ ‘سخت الفاظ میں اس کی مذمت کرتا ہے’ اور اس ‘انتہائی خوفناک حملے سے معصوم مردوں اور خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔’
یہ واقعہ ان متعدد خطرناک حملوں کی ایک کڑی ہیں جو فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی عربوں کی جانب سے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران کیے گئے ہیں اور اسرائیل میں سنہ 2006 ایسے حملوں کا سب سے زیادہ ہلاکت خیز عرصہ رہا ہے۔
اب تک 16 اسرائیلی جن میں ایک اسرائیلی عرب پولیس افسر بھی شامل ہیں اور دو یوکرینیوں کو متعدد حملوں کے دوران ہلاک کیا گیا ہے۔
اسرائیل نے اس کے ردِ عمل میں فلسطینی قصبوں پر چھاپے مارے ہیں جن کے باعث کم سے کم 26 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں ایسے افراد بھی شامل جو اس وقت وہاں کسی کام سے موجود تھے۔
اس کے علاوہ یروشلم کے مقدس مقام پر بھی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی بھی دیکھنے کو ملی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے یومِ آزادی کے روز جنگوں اور ہلاکت خیز حملوں کے دوران ہلاک ہونے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
یوں تو یہودی ریاست کو 14 مئی 1948 کو قائم ہو گیا تھا، تاہم ایسے دنوں کو عبرانی کیلینڈر کے مطابق دیکھا جاتا ہے۔ 15 مئی کو فلسطین کی جانب سے اسرائیل کے قیام کو سوگ کے دن ‘النقبا’ کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مطلب المیہ ہے۔
سپریم کورٹ نے مغربی کنارے سے ہزاروں فلسطینیوں کی بے دخلی کی راہ ہموار کر دی!
اسرائیل کی سپریم کورٹ نے مقبوضہ مغربی کنارے کے دیہی علاقے سے ایک ہزار سے زیادہ رہائشیوں کی بے دخلی کے خلاف پیٹیشن کو رد کیا ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جو اسرائیل کی جانب سے فوجی مشقوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
گذشتہ دو دہائیوں کی قانونی چارہ جوئی کے بعد سپریم کورٹ نے بدھ کے روز تاخیر سے سنائے گیے فیصلے میں اس علاقے میں آٹھ چھوٹے گاؤں گرانے کی راہ ہموار کر دی ہے۔
یہ گاؤں ہیبرون کے قریب پتھریلے لیکن زرخیز علاقے جیسے فلسطینی مسافر یطا جبکہ اسرائیلی جنوبی ہیبرون ہلز کہتے ہیں میں واقع ہیں۔
اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ انھیں یہ معلوم ہوا ہے کہ فلسطینی آباد کار جن کی ایک نسل نے مخصوص خانہ بدوشوں کی زندگی گزاری ہے اور کھیتی باڑی اور جانوروں کو پالنے جیسے کام کر کے روزگار کمایا ہے اور یہ 1980 کی دہائی میں اس علاقے کے مستقل رہائشی نہیں تھے جب اسرائیل فوج نے اس فائرنگ زون قرار دیا تھا۔
مسافر یطا کے رہائشیوں اور اسرائیل میں انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ اکثر فلسطینی خاندانوں کا اس 7400 ایکڑ کے علاقے پر مستقل قیام تھا اور یہ 1978 کی مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے پر قبضے سے بھی پہلے سے تھا۔
مسافر یطا کے میئر ندل ابو یونس کہتے ہیں کہ ‘اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ عدالت بھی اس قبضے کا حصہ ہے۔ ہم اپنے گھر چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ ہم یہیں رہیں گے۔’
یورپی یونین کے وفد برائے فلسطین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بے دخلی کا یہ حکم بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘قبضہ کرنے والی طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کے پاس فلسطینی آبادی کو حفاظت کرنے کی ذمہ داری ہے نہ کہ انھیں بے دخل کرنے کی۔’
اسرائیلی فوج کا مؤقف ہے کہ اس علاقے کو فائرنگ رینج اس لیے قرار دیا گیا تھا کیونکہ یہ اس وقت سکیورٹی کی ضرورت تھی اور اس پر کوئی آباد کاری نہیں تھی۔ فوج کے مطابق اس کی تین دہائیوں بعد سے فلسطینیوں نے اس علاقے پر غیر قانونی آبادکاریاں بنا لی ہیں۔
عدالت کے مطابق اب بھی مذاکرات کا دروازہ کھلا ہے اور گاؤں کے لوگ اگر فوج کے ساتھ اتفاقِ رائے سے علاقے کا کچھ حصہ ذراعت کے لیے استعمال کریں اور دونوں اطراف سے سمجھوتہ کر دیا جائے۔
اسرائیل میں اسوسی ایشن فار سول رائٹس جنھوں نے مسافر یطا کے شہریوں کے ساتھ مل کر بے دخلی کے خلاف پیٹیشن کیا تھا نے کہا ہے کہ اس کے ‘بے مثال نتائج’ ہو سکتے ہیں۔
اے سی آر آئی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘ہائی کورٹ نے باضابطہ طور پر بے دخلی کی اجازت دی ہے اور تمام خاندانوں، ان کے بچوں اور بڑوں کے سروں سے چھٹ چھین دی ہے۔’
Comments are closed.