اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ انھیں جب جنگ کے لیے مدد ملنی چاہیے تھی تو ان پر جنگ روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ تھا۔نتن یاہو نے کہا کہ ہم نے اس معاملے میں ایک اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ ہارورڈ ہیرس پول نے واضح طور پر ظاہر کیا کہ 82 فیصد امریکی اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس سے ہمیں جنگ جیتنے تک مہم جاری رکھنے کی مزید طاقت ملی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر نے کیا کہا؟
اس کے برعکس امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ اگلے پیر تک غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی توقع کر رہا ہے۔مسٹر بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ اگر اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت برقرار رہی تو وہ عالمی حمایت کھو سکتی ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس اور نورک کی طرف سے کرائے گئے ایک دوسرے سروے میں بتایا گیا ہے کہ جنوری میں تقریباً نصف امریکیوں کا خیال تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف جنگ میں اہم پیش رفت کی ہے۔امریکی صدر اور محکمہ خارجہ کے حکام نے منگل کو تصدیق کی کہ عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے بات چیت جاری ہے۔تاہم ان اہلکاروں نے اس گفتگو کے بارے میں مزید کوئی معلومات نہیں دیں۔قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی اور وہاں سے یرغمالیوں کو نکالنے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔کربی نے کہا: ’ہم رواں ہفتے اس پیش رفت پر کام کر رہے ہیں۔ صدر اور ان کی ٹیم اہم اتحادیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ لیکن جیسا کہ صدر نے کہا پچھلے 24 گھنٹوں میں کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے اور ابھی بہت کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔‘،تصویر کا ذریعہReuters
یہ معاہدہ کیسا ہو سکتا ہے؟
خیال کیا جا رہا ہے کہ جنگ بندی چھ ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے جس کے دوران 40 اسرائیلی یرغمالیوں کو بتدریج رہا کر دیا جائے گا۔ ان میں سے خواتین شہریوں اور فوجیوں کو سب سے پہلے رہا کیا جائے گا۔اس کے بدلے میں تقریباً 400 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا جائے گا جن میں سے کچھ کو دہشت گردی کے سنگین جرائم میں سزا سنائی گئی ہے۔اسرائیلی فوجی غزہ کے کچھ گنجان آبادی والے علاقوں سے دور جا سکتے ہیں، اور اکتوبر سے لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہونے والے 18 لاکھ فلسطینیوں میں سے کچھ شمال میں اپنے گھروں کو واپس جانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔لیکن اس ہفتے قطر میں ہونے والے مذاکرات اب بھی جاری ہیں، جہاں مصر ی اور قطری ثالث اسرائیلی اور حماس کے مندوبین کے درمیان مذاکرات کر رہے ہیں، یہ واضح ہے کہ زیادہ تر معاملات اب بھی حل طلب ہیں۔اطلاعات کے مطابق اب بھی ہر اسرائیلی یرغمالی کے لیے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے تنازع جاری ہے۔نہ ہی اسرائیلی فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی یا فلسطینیوں کی ان کے گھروں کو واپسی کے بارے میں ابھی تک کوئی سمجھوتہ ہونے کے بارے میں سوچا گیا ہے۔ لیکن موساد کے ڈویژن کے سابق سربراہ ہیم ٹومر، جو گذشتہ مذاکرات کا تجربہ رکھتے ہیں، نےبی بی سی کو بتایا کہ وہ پرامید ہیں۔ان کا کہنا تھا ’مجھے لگتا ہے کہ ہم بہت قریب ہیں۔‘انھوں نے کہا ’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی دیکھیں گے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں۔‘انھوں نے قطر میں مقیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے تبصرے کا حوالہ دیا جنھوں نے بدھ کے روز پہلا اشارہ دیا تھا کہ گروپ کسی معاہدے پر اپنا موقف نرم کر سکتا ہے۔ انھوں نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا، ’ہم مذاکرات میں جو بھی لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ اپنے لوگوں کے خون کی حفاظت کرنے اور اس کے خلاف قتل عام کی وحشیانہ جنگ میں ان کے درد اور قربانیوں کو ختم کرنے کے لیے ہے۔‘حماس نے ابھی تک پیرس میں تیار کردہ تجاویز پر باضابطہ طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار اس معاہدے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ انھیں آخری بار خان یونس یا رفح کے نیچے ایک زیر زمین سرنگ میں فلمایا گیا تھا۔اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ساڑھے پانچ ماہ سے جاری بمباری اور ان کے ہزاروں افراد کی ہلاکتوں کی وجہ سے سنوار کے اختیارات بری طرح ختم ہو چکے ہیں۔ اس طرح کی رپورٹس کی تصدیق کرنا مشکل ہے، لیکن ایک بات یقینی ہے کہ 7 اکتوبر کے حملوں کا آغاز کرنے والے شخص کے ساتھ بات چیت کرنا مشکل سے مشکل تر ہے۔
،تصویر کا ذریعہEPA
جنگ بندی کتنے ہفتوں کے لیے ہو سکتی ہے؟
کربی نے کہا ہے کہ امید ہے کہ یہ جنگ بندی چھ ہفتوں تک جنگ کو روک دے گی۔انھوں نے کہا کہ ’یہ ممکن ہے کہ یہ جنگ بندی تنازع کو ختم کرنے کے لیے ایک بہتر طریقہ فراہم کرے۔‘محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ ’امریکی سفارت کار اس معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے قطر، مصر اور اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن بالآخر ہمیں حماس کی رضامندی کی ضرورت ہوگی۔‘ اس سے قبل حماس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ گروپ کی ترجیحات یرغمالیوں کو رہا کرنے کے بجائے جنگ کو روکنا ہے۔خیال رہے کہ سات اکتوبر سنہ 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں 1200 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے اور تقریباً 253 افراد کو انھوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔بہر حال ان میں سے کچھ کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن ابھی بھی بہت سے یرغمالی ان کے قبضے میں ہیں۔دوسری جانب حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 29 ہزار 878 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تقریباً 70 ہزار لوگ زخمی ہوئے ہیں۔گذشتہ سال نومبر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان چار روزہ عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد کیا گیا تھا۔اس معاہدے کے مطابق حماس کو 50 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنا تھا۔اس کے جواب میں اسرائیل نے اسرائیلی جیلوں سے 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کی بات کی تھی۔قطر نے امریکہ، اسرائیل اور حماس کے ساتھ مسلسل مذاکرات کے ذریعے اس معاہدے کو کروانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.