- مصنف, شان سیڈن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 7 منٹ قبل
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جمعے کی رات ایران پر میزائل داغے جو دونوں ممالک کے درمیان کئی ہفتوں سے جاری کشیدگی کے بعد جوابی حملہ معلوم ہوتا ہے۔اصفہان کے علاقے پر حملے کے پیمانے اور کسی بھی نقصان کی حد کے بارے میں متعدد دعوے کیے جا رہے ہیں، اور ایرانی سرکاری میڈیا نے اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا ہے۔یہ اقدام علاقائی حریفوں کے درمیان کئی ہفتوں سے جاری کشیدگی کے بعد سامنے آیا ہے۔ اسرائیل نے شام میں ایک ایرانی کمپاؤنڈ پر حملہ کیا جس کے جواب میں ایران نے پہلی بار براہ راست اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔اب یہاں اُن باتوں کا ذکر کرتے ہیں کہ جو ہم اس واقعے کے بارے میں جانتے ہیں۔
ہم کیسے جانتے ہیں کہ کوئی کارروائی ہوئی ہے؟
اسرائیل نے اب تک اپنی فوج کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی ایسی کارروائیوں کی تصدیق نہیں کی، جن میں شام اور عراق میں متعدد مواقع پر ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔تاہم امریکی حکام نے بی بی سی کے شراکت دار امریکی خبر رساں ادارے سی بی ایس نیوز کو تصدیق کی ہے کہ جمعے کی علی الصبح اسرائیلی میزائل نے ایران کو نشانہ بنایا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکہ کو ان منصوبوں سے متعلق پہلے ہی اعتماد میں لیا جاتا ہو یا ان کے بارے میں اُسے پہلے ہی بتا دیا گیا ہو۔یہ واضح نہیں ہے کہ کس قسم کے ہتھیار استعمال کیے گئے تھے یا انھیں داغے جانے کے لیے کس مقام کا انتخاب کیا گیا تھا۔امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ایک میزائل حملہ کیا گیا جبکہ ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں چھوٹے ڈرون شامل تھے۔ایرانی انتظامیہ کی جانب سے مُلک کی اندرونی معاملات تک رسائی کو محدود رکھا گیا ہے۔ اسی وجہ سے بی بی سی کو اصفہان کے مرکزی علاقے تک براہ راست رسائی حاصل نہیں ہو سکی ہے، جہاں یہ واقعہ ہوا۔ ،تصویر کا ذریعہEPA
ایران کا اس حملے کے بارے میں کیا کہنا ہے؟
ایرانی حکام اور ذرائع ابلاغ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حملے کی کوشش کی گئی تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ایران کی فارس نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایک فوجی اڈے کے قریب دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں جس کے بعد فضائی دفاعی نظام کو متحرک کر دیا گیا۔ایک سرکاری میڈیا چینل نے اصفہان میں ایک جنرل کے حوالے سے بتایا جن کا یہ خیال ہے کہ علاقے میں ہونے والے دھماکوں کی وجہ ’مشکوک چیزوں پر فضائی دفاعی نظام کی فائرنگ تھی‘ تاہم جس کے بعد کہا گیا کہ علاقے میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم نے، جو ایران کے طاقتور پاسداران انقلاب کے عسکری ونگ کے قریب سمجھا جاتا ہے، اصفہان میں ایک جوہری تنصیب کی ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں اس بات کا کوئی شواہد نہیں ملتے کہ اس اہم مقام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ایران کے نیشنل سینٹر آف سائبر سپیس کے ترجمان حسین دالیرین کا کہنا ہے کہ ’ایران پر سرحد پار سے کوئی فضائی حملہ نہیں ہوا۔‘انھوں نے کہا کہ ’اسرائیل نے صرف کواڈ کوپٹر (یعنی ڈرون) اڑانے کی ناکام کوشش کی اور کواڈ کاپٹرز کو بھی مار گرایا گیا ہے۔‘ایران نے اسرائیل کی جانب سے داغے جانے والے میزائل کے فوری بعد کمرشل پروازوں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں لیکن اب اسے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔عراق اور شام میں بھی رات گئے دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جہاں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہ کام کرتے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان کا اصفہان حملے سے براہ راست تعلق تھا یا نہیں۔شام کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ شام کے جنوب میں واقع ایک فضائی دفاعی مقام کو مقامی وقت کے مطابق جمعے کی علی الصبح اسرائیلی میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل نے اس بات کی تصدیق بھی نہیں کی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔
اصفہان کو نشانہ بنانے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
صوبہ اصفہان ایران کے مرکز میں ایک بڑا اور اہمیت کا حامل شہر ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اصفہان ایران کا وہ شہر ہے کہ جہاں فوج کی بڑی تنصیبات موجود ہیں، جن میں ایک بڑی ایئر بیس، ایک بڑا میزائل پروڈکشن کمپلیکس اور متعدد جوہری تنصیبات شامل ہیں۔مبینہ طور پر اسرائیل کی جانب سے یہ تازہ ترین حملہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر سیکڑوں میزائل اور ڈرون داغے جانے کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد ہوا ہے، جس واقعے کو کشیدگی میں ڈرامائی اضافے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ایران کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والا حملہ بڑی حد تک ناکام رہا، جس میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے اسرائیلی فضائی دفاع نے میزائلوں کی ایک بڑی اکثریت کو غیر مواثر بنانے میں کرار ادا کیا۔اسرائیلی سرزمین پر یہ حملہ یکم اپریل کو شام میں ایرانی سفارتی کمپاؤنڈ کی عمارت پر حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔اسرائیل نے عوامی طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے، لیکن کہا جا رہا ہے کہ ایسا ہوا تھا۔،تصویر کا ذریعہEPA
کیا اس سے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھے گی؟
بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر نے جمعے کے روز ہونے والے حملے کو ’محدود، یا علامتی‘ قرار دیا ہے اور ممکنہ طور پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے کہ یہ تنازع مزید آگے نہ بڑھے۔بی بی سی انٹرنیشنل کے ایڈیٹر جیریمی بووین کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بیامن نتن یاہو کو ایران کے خلاف پیچھے ہٹنے کے لیے اپنے ہی کچھ جرنیلوں اور سیاسی اتحادیوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسرائیل پر امریکہ اور دیگر مغربی اتحادیوں کی جانب سے شدید بین الاقوامی دباؤ ہے کہ وہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے جس سے مشرق وسطیٰ کے دو حریفوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری پراکسی وار براہ راست تنازعے میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہو۔غزہ میں جاری جنگ کے پس منظر میں اسرائیلی فوج ایران کی حمایت یافتہ حماس سے لڑ رہی ہے۔
عالمی معیشت کا ردعمل کیا ہے؟
ایسے خدشات ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں بگڑتے ہوئے تنازعے سے تیل کی فراہمی میں خلل پڑ سکتا ہے۔حملے کے بعد تیل کی قیمتیں 1.8 فیصد اضافے کے ساتھ 88 ڈالر فی بیرل پر پہنچ گئی ہیں۔ابتدائی طور پر تیل کی قیمتوں میں 3.5 فیصد اضافہ ہوا تھا لیکن جب یہ واضح ہو گیا کہ کارروائی محدود رہی ہے تو تیل کی قیمت مستحکم ہوگئی۔سونے کی قیمت، جسے اکثر غیر یقینی صورتحال میں ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جاتا ہے، مختصر طور پر ریکارڈ سطح کے قریب پہنچ گئی اور تقریبا 2،400 ڈالر فی اونس تک گر گئی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.