اسرائیل کی جیل میں 86 دن بھوک ہڑتال کے بعد فلسطینی رہنما کا انتقال
- مصنف, ڈیوڈ گرٹن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
ایک ممتاز فلسطینی قیدی 86 دن کی بھوک ہڑتال کے بعد اسرائیلی جیل میں انتقال کر گئے۔ خضر عدنان عسکریت پسند گروپ اسلامک جہاد کی ایک سینئر شخصیت تھے جن پر اسرائیل نے دہشت گردی کا الزام عائد کیا تھا۔
اسرائیلی پریزن سروس کا کہنا ہے کہ منگل کو وہ اپنے سیل میں بے ہوش پائے گئے اس سے پہلے انہوں نے کسی طرح کی طبی امداد سے انکار کر دیا تھا۔
ان کی موت کے چند گھنٹے بعد، عسکریت پسندوں نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کی جانب تین راکٹ داغے اس حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔ فلسطینی وزیر اعظم نے اسرائیل پر خضرعدنان کو ’جان بوجھ کر قتل‘ کرنے کا الزام لگایا، جب کہ اسلامی جہاد نے دھمکی دی ہے کہ اسرائیل کو اس بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
45 سالہ خضر عدنان کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال سے تعلق تھا، گزشتہ دو دہائیوں سےوہ اسرائیلی جیلوں میں قید اور رہا ہوتے رہے تھے۔ اس سے پہلے وہ چار مرتبہ احتجاجاً بھوک ہڑتال کر چکے ہیں، جس کے بعد وہ فلسطینیوں میں کافی مقبول ہو گئے تھے۔
فلسطینی قیدیوں کےلیے اسرائیلی جیلوں میں طویل مدت تک کھانا کھانے سے انکار کرنا ایک عام سی بات ہے، لیکن حالیہ برسوں میں طبی مداخلت کی وجہ سے ایسی اموات میں بہت کمی ہوئی ہیں۔
خضر عدنان نے 5 فروری کو جنین شہر کے قریب ارابہ میں اپنے گھر پر اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں حراست میں لیے جانے کے فوراً بعد بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔
اسرائیلی حکام نے ان پر دہشت گردی کی حمایت، دہشت گرد گروپ سے وابستگی اور اشتعال انگیزی کا الزام لگایا تھا اور جلدی ہی ان پر مقدمہ چلنا تھا۔ لیکن فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ادامیر نے کہا کہ ’فلسطینی کارکنوں کو مزید پریشان کرنے کے لیے انہیں جعلی الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا‘۔
پچھلے ہفتے، فلسطینی قیدیوں کے کلب، این ادر ایڈوکیسی گروپ نے خبردار کیا تھا کہ خضر عدنان کی صحت بہت خراب ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انہیں وسطی اسرائیل کی راملہ جیل کے کلینک میں رکھا گیا تھا اور وہ غذائی سپلیمنٹس اور طبی معائنے سے انکار کر رہے تھے۔
خضر عدنان کی اہلیہ رندا موسیٰ نے کہا کہ ’وہ ایسا اس لیے کر رہے تھے کیونکہ اسرائیلی حکام نے انہیں سول ہسپتال منتقل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ساتھ ہی ان کے وکیل کو ملنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا‘۔
ادامیر کے مطابق، اسرائیلی جیلوں میں تقریباً 4,900 فلسطینی ہیں
منگل کو، اسرائیل جیل سروس نے اعلان کیا کہ خضر عدنان ’آج صبح سویرے اپنے سیل میں بے ہوش پائے گئے جس کے بعد انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں مردہ قرار دے دیا گیا۔
ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ عدنان نے طبی امداد لینے سے انکار کر کے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا: ’حالیہ دنوں میں، فوجی اپیل کورٹ نے انہیں صرف ان کی طبی حالت کی بنیاد پر نظربندی سے رہا کرنے کے خلاف فیصلہ کیا تھا‘۔
تاہم، فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد شطیہ نے کہا کہ اسرائیل نے’خدرعدنان کی رہائی کی صحت کی سنگینی کے باوجود رہائی کی ان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے، انہیں اپنے سیل میں بند کر کے انہیں جان بوجھ کر قتل کیا ہے‘۔
اسلامی جہاد، جو کہ حماس کے زیر کنٹرول غزہ کی پٹی میں دوسرا سب سے طاقتورعسکریت پسند گروپ ہے،اس نے کہا ہے کہ ’ ہماری لڑائی جاری ہے اور دشمن کو ایک بار پھر احساس ہو جائے گا کہ اس کے جرائم کا جواب بھر پور انداز میں دیا گیا ہے‘۔
رندا موسیٰ نے کہا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ لوگ ان کے شوہر کی موت پر غمزدہ ہوں۔ اے ایف پی کے مطابق، ارابہ میں انہوں نے صحافیوں سے کہا’ ہم صرف خیر خواہوں کا ہی خیر مقدم کریں گے، کیونکہ ہمارے لیے یہ شہادت ایک شادی کی طرح ہے، ایک لمحِہ فخر اور ہمارے سروں پر تاج کی مانند ہے‘۔
انہوں نے یہ بھی اصرار کیا کہ وہ انتقامی کارروائی میں ’خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہانا چاہتیں‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ کوئی شہادت کا جواب دے، ہم نہیں چاہتے کہ کوئی راکٹ داغے اور پھر [اسرائیل] غزہ پر حملہ کرے‘۔
خضرعدنان کی موت کے فوراً بعد غزہ سے اسرائیل کی جانب داغے گئے تین راکٹوں کے بارے میں فوری طور پر کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ راکٹوں کی وجہ سے سائرن بجائے گئے تھے لیکن کوئی انٹرسیپٹر لانچ نہیں کیا گیا کیونکہ وہ کھلے علاقوں میں گرے تھے۔
اسرائیل میں اپنے قیدیوں کے حالات فلسطینیوں کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے، جو اسرائیل کو ان کی حالت اور دیکھ بھال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ادامیر کے مطابق، اسرائیلی جیلوں میں تقریباً 4,900 فلسطینی ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر اسرائیلی عدالتوں کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد سزا کاٹ رہے ہیں یا پوچھ تاچھ کے لیے روکے جا رہے ہیں، ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے، یا ان پر مقدمے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ مزید 1,016 ’انتظامی حراست میں ہیں‘، یہ ایک متنازع اقدام ہے جس کے تحت مشتبہ افراد کو چھ ماہ کے قابل تجدید مدت کے لیے بغیر کسی الزام یا مقدمے کے غیر معینہ مدت تک قید رکھا جاتا ہے۔ فلسطینی اسرائیل کے زیر حراست تمام افراد کو سیاسی قیدی سمجھتے ہیں۔
ادامیر کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے سے فلسطینیوں کو اسرائیل کی جیلوں میں بھیجنا بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے۔ فلسطینی اس بات پر بھی احتجاج کرتے ہیں کہ مغربی کنارے سے اسرائیل میں داخل ہونے والے فلسطینیوں پر سخت شرائط کی وجہ سے قیدیوں سے ملنے کے لیے جیل کا دورہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
Comments are closed.