جمعرات 24؍ربیع الثانی 1445ھ9؍نومبر 2023ء

اسرائیل کیخلاف جنگ میں حماس مسلم ممالک سے کیا چاہتی ہے؟

اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ اکتوبر 2023 سے جاری ہے اور صیہونی افواج نے تمام تر بین الاقوامی دباؤ جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے غزہ کو زندہ لوگوں کا قبرستان بنا دیا ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینی عوام کے حوصلے بلند ہیں۔

فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کا کہنا ہے کہ ہم مسلم ممالک سے اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں اپنی فوجیں اتارنے کا مطالبہ نہیں کرتے لیکن چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک جنگ کے خاتمے کے لیے اپنے موقف پر عمل درآمد کروائیں۔

حماس ترجمان خالد قدومی نے کراچی میں جیو ڈاٹ ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا کہ مسلم ممالک اور او آئی سی کی جانب سے محض بیانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ اسرائیل روز وار کر رہا ہے اور معصوم جانیں لے رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی اتنا اثر و رسوخ رکھتا ہے کہ وہ عالمی برادری اور اسرائیل پر جنگ روکنے کے لیے دباؤ ڈالے، مسلم ممالک پر یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا وہ اسرائیل اور عالمی برادری پر دباؤ نہیں ڈال سکتے کہ غزہ کہ شہریوں کو پانی فراہم کیا جائے؟

خالد قدومی نے اس کی وضاحت نہیں کی، انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک ’تکنیکی اقدام‘ تھا اور غزہ میں موجود حماس کے مجاہدین ہی اس کے بارے میں بتاسکتے ہیں۔’ انہوں نے بتایا کہ اس حملے کے پیچھے ایک مقصد لوگوں کو حیران کرنا بھی تھا۔

7 اکتوبر کے اقدام کو انہوں نے اسرائیلی بربریت کا جواب قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل سات دہائیوں سے فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہا ہے، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی، ہم گزشتہ 75 سالوں سے ان جنگی جرائم کا شکار ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا حماس کو اسرائیل کے اتنے سخت ردعمل کا اندازہ تھا تو انہوں نے بتایا کہ ‘وہ پچھلے 75 سالوں سے یہ ظلم کر رہا ہے۔ 7 اکتوبر کو چھوڑ دیں، اس سے پہلے بھی مقبوضہ مغربی کنارے میں دیکھیں، کیا وہاں حماس موجود ہے؟ کیا ان کے پاس اسلحہ ہے؟ کیا طوفان الاقصیٰ وہاں ہے؟ پھر مقبوضہ مغربی کنارے میں 300 لوگ شہید کیوں ہوئے؟ اسرائیل ہمارے نوجوانوں کو کیوں شہید کر رہا ہے؟ 4,600 لوگ شہید کیوں ہوئے؟’

خالد قدومی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو غزہ پر بمباری کے لیے طوفان الاقصیٰ یا 7 اکتوبر کے حملوں کی ضرورت نہیں تھی۔ ‘7 اکتوبر سے پہلے، تشدد اور محاصرے کی وجہ سے ایک اسرائیلی کے بدلے 150 سے 300 فلسطینی شہید ہو رہے تھے ۔’

انٹرویو میں خالد قدومی نے وضاحت کی کہ حماس کا 7 اکتوبر کا حملہ بہترین منصوبہ بندی کے بعد کیا گیا تھا اور ظاہر ہے اس طرح کے بڑے اقدام کے ساتھ ہمارے ذہن میں کچھ ‘اہداف’ تھے۔

سعودیہ اور اسرائیل کے تعلقات کے ممکنہ قیام کے حوالے سے خالد قدومی کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک منصوبہ تھا، 7 اکتوبر کی وجہ سے ساری سیاسی کوششیں دم توڑگئیں، ‘آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ہدف ہوسکتا ہے یا شاید حماس کے اہداف میں سے ایک تھا۔’

ترجمان حماس نے مظاہروں اور بائیکاٹ کی حمایت کی، جس میں لوگ ایسی مصنوعات کا استعمال نہیں کر رہے ہیں یا ان فاسٹ فوڈ چینز کا بائیکاٹ کر رہے ہیں جو اسرائیل سے متعلق ہیں یا اس کے حملوں کی حمایت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘عوامی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے، بعض اوقات لوگ کہتے ہیں کہ عوامی رائے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن آج رائے عامہ کی وجہ سے بائیکاٹ ہو رہا ہے، یہ کسی فتوے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ لوگوں نے ایسا سوچ سمجھ کرکیا، یہ صرف ایک جذباتی فیصلہ نہیں ہے۔’

خالد قدومی کا کہنا تھا کہ ‘سوچیں کہ میں ایک مغربی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ پر بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ یہ رقم ایک فلسطینی بچے کے خلاف گولی کے طور پر استعمال ہوگی، تو آپ بائیکاٹ کرتے ہیں، آپ کسی ثقافت کے خلاف نہیں، اگر یہ برانڈز اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی اس نسل کشی میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا میں ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفہ ہوا ہے، صدر جو بائیڈن صدارتی انتخابات سے قبل اسرائیل کے جنگی جرائم اور اس کی فوجی اور مالی امداد کی وجہ سے مقبولیت کھو رہے تھے۔

فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے جاری رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے خالد قدومی کا کہنا تھا کہ ‘لوگوں کے حوصلے بلند رکھنےکے لیے آپ کا سڑکوں پر رہنا ضروری ہے، میں حماس کی بات نہیں کر رہا، میں عام فلسطینیوں کی بات کر رہا ہوں۔ وہ غریب لوگ جن کا 60 فیصد رہائشی علاقہ تباہ ہو چکا ہے۔’

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.