اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے کا مطالبہ: امریکہ اور جرمنی سمیت وہ ممالک جو اسرائیلی فوج کو جدید اسلحہ فراہم کرتے ہیں،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ڈیوڈ گریٹن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جنگ کے طریقے پر اب سوال اٹھنے لگے ہیں اور مغربی ممالک پر اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنا روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔اسرائیل دنیا میں ہتھیار برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے لیکن جس طرح سے اس کی فوج نے درآمد شدہ طیاروں، گائیڈڈ بموں اور میزائلوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہوئے غزہ میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران جو کارروائی کی ہے اسے ماہرین نے حالیہ تاریخ کی سب سے شدید اور تباہ کن فضائی مہمات میں سے ایک قرار دیا ہے۔جنگ کے خلاف مہم چلانے والے گروپوں اور اسرائیل کے مغربی اتحادیوں میں سے کچھ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اسلحے کی برآمدات روک دی جانی چاہیے کیونکہ ان کے بقول اسرائیل عام شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ اور ان تک انسانی امداد کی مناسب فراہمی کو یقینی بنانے میں ناکام ہے۔جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ہتھیاروں پر پابندی کی حمایت کی ہے جس میں قرارداد کے حق میں 28 ممالک نے ووٹ دیا، 6 نے مخالفت میں اور 13 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ اور جرمنی دونوں نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ جرمنی نے کہا کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ قرارداد میں واضح طور پر حماس کی مذمت نہیں کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ امریکہ اور جرمنی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہیں۔غزہ میں جنگ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہوئی جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق ان ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ دوسری جانب اس کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے حملوں میں حماس کے زیرِانتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ میں 33 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی افواج شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے کام کر رہی ہیں جبکہ اس نے حماس پر شہریوں کو جان بوجھ کر جنگ میں جھونکنے کا الزام لگایا ہے اور یہ کہا ہے کہ امداد کی ترسیل پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

،تصویر کا کیپشنسپری کے مطابق 2013 سے 2023 کے درمیان اسرائیل کو فراہم کیے جانے والے عسکری سازوسامان کا چارٹ

امریکہ

امریکہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا اب تک کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس نے اسرائيل کو تکنیکی طور پر دنیا کی سب سے زیادہ جدید ترین فوج بنانے میں مدد کی ہے۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے مطابق سنہ 2019 اور 2023 کے درمیان اسرائیل کے ہتھیاروں کی درآمدات میں امریکہ کا حصہ 69 فیصد تھا۔امریکہ اسرائیل کو 10 سالہ معاہدے کے تحت 3.8 ارب ڈالر سالانہ فوجی امداد فراہم کرتا ہے جس کا مقصد اس کے اتحادی اسرائیل کو اپنے پڑوسی ممالک پر ‘معیاری فوجی برتری’ برقرار رکھنے کی سہولت اور اجازت فراہم کرنا ہے۔اسرائیل نے امریکی گرانٹ کا استعمال ایف-35 جوائنٹ سٹرائیک فائٹرز کے آرڈرز کے لیے کیا ہے۔ یہ ایک اسٹیلتھ (خفیہ رہنے والا) طیارہ ہے جسے اب تک کا جدید ترین طیارہ کہا جا سکتا ہے۔اسرائیل نے اب تک 75 ایسے طیاروں کا آرڈر دیا ہے جس میں سے اس نے 30 سے زیادہ طیارے حاصل کر لیے ہیں۔ یہ امریکہ کے علاوہ پہلا ملک ہے جس کے پاس ایف-35 طیارے ہیں اور وہ انھیں جنگ میں استعمال کرنے والا پہلا ملک ہے۔امداد کا ایک حصہ یعنی 50 کروڑ ڈالر سالانہ میزائل دفاعی پروگراموں کے لیے مختص کیا گیا ہے جس میں مشترکہ طور پر تیار کردہ آئرن ڈوم، ایرو اور ڈیوڈز سلنگ سسٹم شامل ہیں۔ اسرائیل نے جنگ کے دوران غزہ میں فلسطینی مسلح گروپوں کے ساتھ ساتھ لبنان، شام اور عراق میں قائم دیگر ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپوں کے راکٹ، میزائل اور ڈرون حملوں کے خلاف اپنے دفاع کے لیے ان کا استعمال کیا ہے۔حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کے دنوں میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے لیے ‘اضافی فوجی امداد’ بڑھا رہا ہے۔جنگ کے آغاز کے بعد اور ہنگامی منظوری حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کو امریکی فوجیوں کی جانب سے صرف دو فروخت سامنے آئی ہیں، ایک 107 ملین ڈالر کی مالیت کا ٹینک کے لیے گولہ بارود کے 14,000 راؤنڈز اور دوسرا 147 ملین ڈالر کے پرزے جو 155 ایم ایے کے گولے بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔لیکن امریکی میڈیا کی رپورٹ ہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے خاموشی سے اسرائیل کو 100 سے زیادہ فوجی سازوسامان فروخت کیا ہے جن میں سے زیادہ تر اس رقم سے کم ہیں جس کے لیے کانگریس کو باضابطہ طور پر مطلع کرنے کی ضرورت ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں ہزاروں کی تعداد میں درستگی سے داغے جانے والے گولہ بارود، چھوٹے قطر کے بم، بنکر بسٹر اور چھوٹے ہتھیار شامل ہیں۔بہر حال سپری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان ترسیلات کے باوجود سنہ 2023 میں امریکا سے اسرائیل میں ہتھیاروں کی درآمد کا کل حجم سنہ 2022 کے تقریباً برابر تھا۔ایک معاہدہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لیے کانگریس کے نوٹیفکیشن کی ضرورت ہوگی اور وہ 18 ارب ڈالر کا 50 ایف-15 طیارے کی فروخت کا معاہدہ ہے۔ اس بارے میں رواں ہفتے ہی خبریں سامنے آئی ہیں۔ کانگریس نے ابھی تک اس معاہدے کی منظوری نہیں دی ہے۔اگرچہ ہوائی جہاز کو شروع سے بنانے کی ضرورت ہوگی اور اسے فوری طور پر فراہم نہیں کیا جا سکے گا تاہم یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ مسٹر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے اس فروخت پر گرما گرم بحث ہو گی کیونکہ کانگریس میں بہت سے نمائندے اور جنگ بندی کے حامی غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں سے پریشان ہیں۔سینیٹر الزبتھ وارن نے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے کو روکنے کے لیے تیار ہیں اور انھوں نے اسرائیل پر غزہ میں ‘بے دریغ بمباری’ کا الزام لگایا ہے۔،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشناسرائیل کے آئرن ڈوم دفاعی نظام نے اسے میزائلوں سے بچنے میں مدد فراہم کی ہے

جرمنی

سپری کے مطابق جرمنی اسرائیل کو ہتھیار برآمد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور اس نے سنہ 2019 اور 2023 کے درمیان اسرائیل عسکری درآمدات میں اپنا 30 فیصد حصہ ڈالا ہے۔نومبر کے اوائل تک اس یورپی ملک کی اسرائیل کو گذشتہ سال ہتھیاروں کی فروخت 30 کروڑ یورو کی مالیت کی تھی جو کہ 2022 کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے اور ان میں سے زیادہ تر کی منظوری 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد دیی گئی تھی۔ڈی پی اے نیوز ایجنسی کے مطابق ان میں فضائی دفاعی نظام اور مواصلاتی آلات کے اجزاء کی زیادہ تر فروخت شامل تھی۔چانسلر اولاف شولز پوری جنگ کے دوران اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کے سخت حامی رہے ہیں اور اگرچہ حالیہ ہفتوں میں غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے بارے میں ان کا لہجہ بدل گیا ہے اور جرمنی میں اس پر کچھ بحث بھی ہوئی ہے لیکن ہتھیاروں کی فروخت کی معطلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشناسرائیلی حملے کے بعد غزہ کا حال

اٹلی

اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے کے معاملے تیسرا سب سے بڑا ملک اٹلی ہے، لیکن 2019 اور 2023 کے درمیان اسرائیل کی عسکری درآمدات میں اس کا حصہ صرف 0.9 فیصد ہے۔ ان میں مبینہ طور پر ہیلی کاپٹر اور بحری توپیں شامل ہیں۔قومی شماریات بیورو آئی سٹیٹ کے مطابق گذشتہ سال فوجی سازوسامان کی رقم 13.7ملین یورو سے زیادہ تھی۔اس میں سے اکتوبر اور دسمبر کے درمیان تقریباً 2.1 ملین یورو کی برآمدات کی منظوری دی گئی اور وہ بھی حکومت کی اس یقین دہانی کے باوجود کہ وہ ایک ایسے قانون کے تحت انھیں روک رہی ہے جو جنگ لڑنے والے یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگاتا ہے۔وزیر دفاع گائیڈو کروسیٹو نے گزشتہ ماہ پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ اٹلی نے موجودہ معاہدوں کا احترام ایک ایک معاملے کی بنیاد پر جانچنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ ان میں ‘ایسے مواد نہیں جو شہریوں کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں’ کیا ہے۔

دوسرے ممالک

برطانیہ اسرائیل کو ہتھیار برآمد کرنے کے معاملے میں ان سب کے بعد آتا ہے اور برطانوی حکومت کے مطابق سنہ 2022 میں اس نے صرف 42 ملین پاؤنڈ یا 53 ملین ڈالر کی برامدات کی ہیں۔ہتھیاروں کی تجارت کے خلاف مہم چلانے والی تنظیم سی اے اے ٹی کا کہنا ہے کہ سنہ 2008 سے برطانیہ نے اسرائیل کو مجموعی طور پر اب تک 737 ملین ڈالر ہتھیاروں کی برآمد کی اجازت دی ہیں۔ان میں سے زیادہ تر امریکی ساختہ جنگی طیاروں میں استعمال ہونے والے پرزے ہیں جو اسرائیل پہنچتے ہیں۔ لیکن برطانوی حکومت پر ان برآمدات کو بھی معطل کرنے کے لیے دباؤ بڑھتے جا رہے ہیں۔وزیر اعظم رشی سُنک نے کہا ہے کہ برطانیہ کے پاس ‘بہت محتاط برآمدی لائسنسنگ نظام’ ہے اور کہا کہ اسرائیل کو ‘بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق عمل کرنا چاہیے’۔برطانیہ کی حکومت ایک جانچ کا ایک ایسا نظام تیار کر رہی ہے جو 2024 کے اوائل سے اسرائیل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے خطرے کے بارے میں مشورہ دے گی۔لیکن ایک سینیئر حکومتی ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی عائد ‘ہونے والی نہیں۔’کینیڈا کی حکومت نے اسرائیل کو سنہ 2022 میں 21.3 ملین کینیڈین ڈالر کے ہھتیار فروخت کرنے کی منظور دی تھی۔ رواں سال جنوری میں اس نے کہا اس نے ہتھیاروں کے لیے نئے ایگزٹ پرمٹ کی منظوری اس وقت تک معطل کر دی ہے جب تک کہ وہ اس بات کو یقینی نہ بنا سکے کہ ان کا کیا استعمال کیا جا رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشناسرائیل کا البیت نظام

اسرائیل کی اپنی دفاعی صنعت

اسرائیل نے امریکی مدد سے اپنی دفاعی صنعت بھی قائم کر رکھی ہے اور اب وہ دنیا میں ہتھیاروں کے نویں سب سے بڑے برآمد کنندہ کے طور پر آتا ہے۔ اسرائیل کی توجہ بڑے پیمانے پر ہارڈ ویئر کے بجائے جدید تکنیکی مصنوعات پر مرکوز ہے۔سپری کے مطابق اسرائیل نے سنہ 2019 اور 2023 کے درمیان عالمی فروخت کا تین فیصد حصہ حاصل کیا۔ ان کے خریداروں انڈیا (37 فیصد) فلپائن (12فیصد) اور امریکہ آٹھ اعشاریہ سات فیصد تھے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق سنہ 2022 میں فروخت کی مجموعی مالیت 12.5 ارب ڈالر تھی۔وزارت نے کہا کہ بغیر پائلٹ والی فضائی گاڑیاں (یو اے ویز) ان برآمدات کا 25 فیصد حصہ ہیں، اس کے بعد میزائل، راکٹ اور فضائی دفاعی نظام (19فیصد) اور ریڈار اور الیکٹرانک جنگی نظام (13فیصد) ہیں۔ستمبر میں جنگ شروع ہونے سے پہلے جرمنی نے اسرائیل کے ساتھ جدید ترین ایرو-تھری میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے کے لیے 3.5 ارب ڈالر کے معاہدے پر اتفاق کیا، جو طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کو روکتا ہے۔ یہ معاہدہ اسرائیل کا اب تک کا سب سے بڑا معاہدہ ہے اور امریکہ کو اسے اس لیے منظور کرنا پڑا کیونکہ اس نے مشترکہ طور پر نظام تیار کیا تھا۔

اسرائیل میں امریکہ کے فوجی ذخائر

اسرائیل میں ایک بڑا امریکی اسلحہ ڈپو بھی ہے جو سنہ 1984 میں قائم کیا گیا تھا تاکہ علاقائی تنازع کی صورت میں اپنے فوجیوں کے لیے سامان کی پیشگی پوزیشننگ حاصل کی جا سکے اور ساتھ ہی اسرائیل کو ہنگامی حالات میں ہتھیاروں تک فوری رسائی فراہم کی جا سکے۔پینٹاگون نے روسی حملے کے بعد تقریباً تین لاکھ 155 ایم ایم توپ خانے کے گولے اور وار ریزرو گولہ بارود کے ذخیرے اسرائیل سے یوکرین بھیجے۔اطلاعات کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے امریکی ڈپو میں ذخیرہ شدہ اسلحہ بھی اسرائیل کو فراہم کیا جاتا رہا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}