اسرائیل کا نیا اسلحہ قانون کیا ہے اور عرب اسرائیلی خوفزدہ کیوں ہیں؟
- مصنف, محنند توتنجی اور کلیر پریس
- عہدہ, بی بی سی عربی، اسرائیل
اسرائیل پر حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیلی شہریوں کی جانب سے بندوق، پستول اور ریوالر جیسے آتشیں اسلحہ کے لائسنس کے لیے ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ نئی درخواستیں جمع کرائی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ حماس کے حملے میں 1,400 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے جبکہ اسرائیل کے جوابی حملے میں اب تک 8000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم اسرائیل میں قانونی طور پراسلحہ حاصل کرنے اور شوٹنگ رینجز یعنی بندوق چلانے کی مشق کرنے والے مقامات پر غیر معمولی بھیڑ ہے۔
اسرائیلی حکومت نے اسلحہ رکھنے سے متعلقہ قوانین میں نرمی لانے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ کہ ایسے افراد بندوق حاصل کرنے کے اہل ہوں گے جن کا مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہیں۔ اس قانون کے تحت اب کسی کو 50 سے بڑھا کر 100 گولیاں رکھنے کی بھی اجازت ہوگی۔
یروشلم سے ذرا باہر کیبوتز سے تعلق رکھنے والے 41 سالہ وکیل عمری شنائیڈر کہتے ہیں کہ ’اب چونکہ انھوں نے تمام پابندیاں ہٹا لی ہیں، اس لیے بندوق حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شنائیڈر اس فیصلے کے نتائج پر تشویش کا شکار ہیں
لیکن شنائیڈر اس فیصلے سے بہت خوش نہیں ہیں۔ وہ شہریوں کو ہزاروں ہتھیار دینے کے مضمرات سے پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے فائدے تو ہیں لیکن یقیناً نقصانات بھی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ امریکہ میں کیا ہوا۔ یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ لیکن میرے خیال سے یہ فیصلہ اسرائیل کے لوگوں کو محفوظ محسوس کرانے کی ضرورت کے تحت کیا گیا۔‘
انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتامر بن گویر طویل عرصے سے نجی اسلحہ رکھنے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ نئے ہتھیار خاص طور پر ان لوگوں کے لیے ہیں جو غزہ کی سرحد کے قریب یا مخلوط یہودی-عربی آبادی والے شہروں میں رہتے ہیں۔ انھوں نے مقامی آبادیوں کو سول سکیورٹی ٹیمیں بنانے کی ترغیب بھی دی ہے۔
شنائیڈر ایک بڑے کیبوتز (دیہی قصبہ) میں رہتے ہیں جہاں 200 خاندان آباد ہیں۔ وہ ’سویلین ایکشن‘ کے اس خیال کی حمایت کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہم نے اپنے کیبوتز میں بندوقیں لینے اور پڑوس کی نگرانی کرنے والی ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہنگامی صورت حال میں یہ ٹیم کام کرے گی اور خدا نہ کرے، کبھی اگر دہشت گردوں کی طرف سے کوئی اور فائرنگ یا دراندازی ہو تو مدافعت کرے گی۔‘
جہاں ایک جانب اسرائیلی آبادی خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہے وہیں دوسری جانب اسرائیل میں آباد عرب، جو آبادی کا 20 فیصد سے زیادہ ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اس سے زیادہ خوفزدہ نہیں ہوئے۔
ملک بھر سے عرب اسرائیلی شہریوں نے امتیازی سلوک، زبانی بدسلوکی اور آن لائن ٹرولنگ کے واقعات کی شکایت کی ہے۔
وسطی اسرائیل میں لود شہر کی یہودی اور عرب آبادی کے درمیان نسلی تشدد کی ایک دردناک تاریخ ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شوٹنگ رینج میں بندوق چلانے کی مشق
معذور بچوں کی ماہر استاد سحر حمدونی نے اپنی ساری زندگی اسرائیل کے شہر لود میں گزاری ہے۔ ان کی گلی کے ایک طرف یہودیوں کے گھر ہیں تو دوسری طرف عرب نژاد لوگوں کے گھر ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ حالیہ حملوں کے بعد اب وہ یہودی آبادی کے محلوں میں سامان خریدنے نہیں جاتی ہیں۔ اس کے برعکس وہ عربی دکانوں تک جانے کے لیے لمبا راستہ پیدل طے کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے بھی ہمارے گھروں پر حملے ہو چکے ہیں۔ ہم پہلے ہی صدمے سے نبرد آزما ہیں۔‘
اسرائیل کے عرب شہری، جن میں سے اکثر فلسطینی کے طور پر اپنی شناخت کرتے ہیں، عام طور پر اسرائیلی حکومت کی لازمی فوجی بھرتی سے مستثنیٰ ہیں۔ اس تربیت کے بغیر، ان کے لیے بندوق کا لائسنس حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے خدشہ ہے کہ جب اسرائیلی دفاع کے اپنے حق کا استعمال کر رہے ہیں، ایسے میں ہماری اور ہمارے بیٹوں کی جان جا سکتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ میں نے کچھ غلط کیا ہے، بلکہ اس لیے کہ میں ایک عرب ہوں۔ اگر میرے پڑوس میں یہودیوں کو بندوق حاصل کرنے کا حق ہے تو کیا مجھے یا دونوں فریقوں کو بندوقیں نہیں ملنی چاہئیں۔‘
حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل کے مخلوط آبادی والے شہر، جو کبھی مقامی سیاحوں کے لیے پرکشش مقام ہوا کرتے تھے، ویران ہو چکے ہیں۔
لود ریستوران کے مالک ابو عامر کہتے ہیں کہ ’میرے 60 فیصد سے زیادہ گاہک یہودی تھے۔‘
’لیکن اب وہ نہیں آتے، کوئی نہیں آتا، کوئی فون نہیں کرتا۔ عرب یہودی محلوں میں جانے سے ڈرتے ہیں اور یہودی عرب علاقوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔‘
Comments are closed.