اسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا اور غزہ کے ساتھ اِس کے تنازع کی تاریخ کیا ہے؟

غزہ اسرائیل تنازع

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مارچ 1948 میں اتحادی عرب لیجن فورسز کے سپاہی یہودی ایجنسی کی سیلف ڈیفنس فورس ہگناہ کے جنگجوؤں پر فائرنگ کر رہے ہیں۔

فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر آپریشن طوفان الاقصیٰ کی شکل میں ایک ایسا حملہ کیا جس میں سینکڑوں مسلح افراد غزہ کی پٹی کے قریب آباد اسرائیلی آبادیوں میں داخل ہو گئے۔

اس کارروائی میں جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی کم از کم 1400 اسرائیلی مارے گئے جب کہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 203 فوجیوں اور شہریوں کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا۔

حماس کے اس آپریشن کے بعد غزہ پر اسرائیلی فوج کے جوابی حملوں میں 3700 سے زائد فلسطینی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج بھی غزہ کی سرحد پر جمع ہو رہی ہے اور فلسطینی اسرائیل کی جانب سے ایک بڑی زمینی کارروائی کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں۔

اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی مکمل ناکہ بندی کر دی ہے اور اس کے نتیجے میں علاقے میں ادویات، خوراک، پینے کے پانی، ایندھن اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت ہو چکی ہے۔

غزہ اسرائیل تنازع

،تصویر کا ذریعہGetty Images

1948 سے پہلے اسرائیل کہاں تھا اور بیلفور اعلامیہ کیا تھا؟

پہلی عالمی جنگ میں مشرق وسطیٰ کے اس حصے پر حکمرانی کرنے والی سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

اس سرزمین پر اس وقت یہودی اقلیت اور عرب اکثریت کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے نسلی گروہ بھی آباد تھے۔

یہودیوں اور عربوں کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھی جب عالمی برادری نے برطانیہ کو یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک ’قومی گھر‘ تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپی۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

یہ کام 1917 کے بیلفور اعلامیے کے تحت ہوا، جو اُس وقت برطانیہ کے وزیرِ خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی یہودی برادری سے کیا تھا۔

یہ اعلامیہ فلسطین پر برطانوی مینڈیٹ میں شامل تھا اور 1922 میں نو تشکیل شدہ ’لیگ آف نیشنز‘ جو کہ اقوام متحدہ کی پیشرو تھی، اس کی توثیق کر چکی تھی۔

یہودیوں کے لیے فلسطین اُن کا آبائی وطن تھا لیکن اس علاقے میں نسلوں سے آباد فلسطینی عرب اس دعوے کے مخالف تھے اور انھوں نے یہودیوں کے لیے ایک ’قومی گھر‘ جیسے برطانوی اقدام کی بھی مخالفت کی۔

سنہ 1920 اور 1940 کی دہائیوں کے درمیان، اس علاقے میں رہائش اختیار کرنے کی خاطر پہنچنے والے یہودیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ان میں سے بہت سے لوگ یورپ میں ظلم و ستم، خاص طور پر دوسری عالمی جنگ میں نازی ہولوکاسٹ سے جان بچا کر یہاں آ رہے تھے۔

اس صورتحال میں یہودیوں اور عربوں کے مابین اور برطانوی راج کے خلاف تشدد میں بھی اضافہ ہوا۔

سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا۔

اس منصوبے کو یہودی رہنماؤں نے تو قبول کر لیا تھا لیکن عربوں نے اسے مسترد کر دیا اور اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔

اسرائیل غزہ تنازع

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسرائیلی فوجی کمانڈر 1967 میں چھ روزہ جنگ کے دوران مشرقی یروشلم پہنچے

اسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا؟

سنہ 1948 میں اس مسئلے کے حل میں ناکامی کے بعد برطانیہ نے علاقے کا کنٹرول چھوڑ دیا جبکہ یہودیوں نے ’اسرائیل‘ نامی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔

اس کا مقصد ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن بنانا تھا۔

یہودی اور عرب مسلح گروپوں کے درمیان لڑائی مہینوں سے شدت اختیار کر رہی تھی اور اسرائیل کے قیام کے اعلان کے اگلے ہی دن پانچ عرب ممالک نے اس نئے ملک پر حملہ کر دیا۔

اس دوران لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کر دیا گیا اور اس واقعے کو النکبہ یا ’تباہی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سنہ 1949 میں جب جنگ بندی کے نتیجے میں لڑائی ختم ہوئی تو اسرائیل نے زیادہ تر فلسطینی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

اُردن نے اس علاقے پر قبضہ کیا جو غربِ اردن یا مغربی کنارے کے نام سے مشہور ہوا جبکہ مصر نے غزہ پر قبضہ کر لیا۔

بیت المقدس کے مغربی حصے پر اسرائیلی افواج اور مشرقی علاقے پر اردنی افواج کا کنٹرول تھا کیونکہ وہاں کبھی بھی امن معاہدہ نہیں ہوا تھا اس کے بعد کی دہائیوں میں مزید جنگیں اور لڑائیاں ہوئیں۔

سنہ 1967 میں ہونے والی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے ساتھ ساتھ شام کی گولان کی پہاڑیوں، غزہ اور مصری جزیرہ نما سینائی پر بھی قبضہ کر لیا۔

زیادہ تر فلسطینی پناہ گزین اور ان کی اولادیں غزہ اور غربِ اردن کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک اردن، شام اور لبنان میں رہتی ہیں۔

اسرائیل نے نہ تو انھیں اور نہ ہی ان کی اولاد کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس سے ملک مغلوب ہو جائے گا اور یہودی ریاست کے طور پر اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گا۔

اسرائیل اب بھی مغربی کنارے پر قابض ہے اور پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے، جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو اس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں جس کے مستقبل میں قیام کے لیے وہ پرامید ہیں۔ امریکہ ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنھوں نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔

گذشتہ 50 برسوں میں اسرائیل نے غربِ اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں بستیاں تعمیر کی ہیں جہاں اب سات لاکھ سے زیادہ یہودی رہتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے تحت ان بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے تاہم اسرائیل اسے مسترد کرتا ہے۔

غزہ کی پٹی کیا ہے؟

غزہ زمین کی ایک تنگ پٹی ہے جو اسرائیل اور بحیرۂ روم کے درمیان واقع ہے لیکن جنوب میں اس کی زمینی سرحد مصر سے لگتی ہے۔

صرف 41 کلومیٹر (25 میل) لمبے اور 10 کلومیٹر چوڑے، اس علاقے میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں اور یہ زمین پر سب سے زیادہ گنجان آباد مقامات میں سے ایک ہے۔

1948-49 کی جنگ کے نتیجے میں غزہ پر 19 سال تک مصر کا قبضہ رہا۔

اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں غزہ پر قبضہ کیا تھا اور وہ 2005 تک اس پر قابض رہا۔ اس دوران اسرائیل نے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کیں۔

سنہ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے اپنے فوجیوں اور آباد کاروں کو واپس بلا لیا تاہم اس نے اس کی فضائی حدود، مشترکہ سرحد اور ساحل پر کنٹرول برقرار رکھا۔ اقوام متحدہ اب بھی اس علاقے کو اسرائیل کے زیر قبضہ سمجھتی ہے۔

غزہ اسرائیل تنازع

اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بنیادی مسائل کیا ہیں؟

بہت سے ایسے معاملات ایسے ہیں جن پر دونوں فریق متفق نہیں ہو سکتے۔

درج ذیل مسائل ان معاملات میں شامل ہیں:

  • فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا ہونا چاہیے؟
  • آیا غربِ اردن میں قائم یہودی بستیوں کو باقی رہنا چاہیے یا انھیں ہٹا دیا جانا چاہیے
  • بیت المقدس کو دونوں فریقوں کو استعمال کرنا چاہیے یا نہیں
  • اور شاید سب سے مشکل کہ کیا اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست بنائی جائے؟

غزہ اسرائیل تنازع

،تصویر کا ذریعہReuters

ان مسائل کے حل کے لیے کیا کوششیں کی گئی ہیں؟

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 1990 اور 2010 کی دہائیوں کے درمیان شروع اور معطل ہوتے رہے اور اس کا تعلق خطے میں تشدد کے پھیلنے سے تھا۔

ابتدائی دنوں میں مذاکراتی امن ممکن نظر آتا تھا۔ ناروے میں خفیہ مذاکرات کا سلسلہ اوسلو امن عمل میں تبدیل ہوا، جو 1993 میں صدر بل کلنٹن کی صدارت میں وائٹ ہاؤس کے لان میں منعقدہ ایک تقریب میں تاریخ کا حصہ بن گیا۔

اس تاریخی لمحے میں جہاں فلسطینیوں نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کیا وہیں اسرائیل نے اپنے تاریخی حریف، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ تسلیم کیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایک خودمختار فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی۔

تاہم جلد ہی اس امن عمل میں دراڑیں نمودار ہوئیں اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر بنیامن نتن یاہو نے اوسلو امن معاہدے کو اسرائیل کے لیے ایک جان لیوا خطرہ قرار دیا۔ اسرائیلیوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کو بسانے کے اپنے منصوبے کو تیز کر دیا جبکہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اسرائیل میں لوگوں کو نشانہ بنانے کی کوششیں کیں۔

اسرائیل میں بھی ماحول بدلنے لگا، جس کا نتیجہ 4 نومبر 1995 کو ایک یہودی انتہا پسند کے ہاتھوں اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کے قتل کی شکل میں نکلا۔

2000 کی دہائی میں امن کے عمل کو بحال کرنے کی کوششیں کی گئیں اور اسی دوران 2003 میں جب عالمی طاقتوں نے دو ریاستی حل کے حتمی مقصد کے ساتھ ایک نقشۂ راہ وضع کیا، لیکن اس پر کبھی عمل نہیں ہوا۔

سنہ 2014 میں واشنگٹن میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد قیامِ امن کی کوششیں رُک گئیں۔

سب سے حالیہ امن منصوبے کو، جو امریکہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں تیار کیا تھا، اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے تو ’صدی کا بہترین معاہدہ‘ کہا لیکن فلسطینیوں نے اسے یکطرفہ قرار دے کر مسترد کر دیا اور اس پر کبھی کام نہیں ہو سکا۔

غزہ اسرائیل تنازع

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسرائیل اور غزہ میں اب جنگ کیوں ہو رہی ہے؟

غزہ پر حماس کی حکومت ہے جو ایک ایسا گروہ ہے جو اسرائیل کی تباہی کے لیے پرعزم ہے۔

حماس نے 2006 میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، اور اگلے سال غربِ اردن میں صدر محمود عباس کی حریف تحریک فتح کو بےدخل کر کے غزہ پر کنٹرول حاصل کر لیا۔

اس کے بعد سے، غزہ میں موجود عسکریت پسندوں نے اسرائیل سے کئی لڑائیاں لڑی ہیں۔ اسرائیل نے مصر کے ساتھ مل کر حماس کو الگ تھلگ کرنے اور حملوں کو روکنے کی کوشش کی، خاص طور پر اسرائیلی شہروں کی طرف راکٹوں کی اندھا دھند فائرنگ کو روکنے کے لیے اس نے غزہ کی جزوی ناکہ بندی برقرار رکھی ہے۔

غزہ میں فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی پابندیاں اور گنجان آباد علاقوں پر اس کے فضائی حملے اجتماعی سزا کے مترادف ہیں۔

یہ سال مقبوضہ غربِ اردن اور مقبوضہ بیت المقدسس میں فلسطینیوں کے لیے سب سے مہلک سال رہا ہے۔ وہ اسرائیلیوں پر حملوں کے جواب میں ان علاقوں پر عائد کی جانے والی اسرائیلی پابندیوں اور فوجی کارروائیوں کی بھی شکایت کرتے ہیں۔

یہ کشیدگی حماس کے تازہ حملے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن یہ عسکریت پسند عام فلسطینیوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے جس میں یرغمالیوں کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل پر دباؤ ڈالنا بھی شامل ہے کہ وہ اپنی جیلوں میں قید تقریباً 4,500 فلسطینیوں کو رہا کرے۔

موجودہ تنازع میں اسرائیل کی حمایت کون کرتا ہے اور کون نہیں؟

امریکہ، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک نے اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کی ہے۔

امریکہ، اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور یہودی ریاست کو 260 ارب ڈالر سے زیادہ کی فوجی اور اقتصادی امداد دے چکا ہے۔ اس نے حماس کے حملے کے بعد اضافی سازوسامان، فضائی دفاعی میزائل، گائیڈڈ بم اور گولہ بارود کا وعدہ کیا ہے۔

اس نے اسرائیل کے دشمنوں بالخصوص لبنان کی حزب اللہ تحریک کو جنگ میں دوسرا محاذ کھولنے سے روکنے کے لیے مشرقی بحیرۂ روم میں دو طیارہ بردار جنگی بحری جہاز بھی بھیجے ہیں۔

روس اور چین دونوں نے حماس کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ تنازعے میں دونوں فریقوں کے ساتھ رابطے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے مشرق وسطیٰ میں امن کی عدم موجودگی کا ذمہ دار امریکی پالیسی کو قرار دیا ہے۔

ایران، اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن، حماس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کا کلیدی حامی ہے، جس کے عسکریت پسند حماس کے حملے کے بعد سے تقریباً روزانہ اسرائیلی افواج کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کر رہے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ