اسرائیل کا ایک کنٹینر میں فیوژن ری ایکٹر فٹ کرنے کا منصوبہ توانائی کی صنعت میں ’گیم چینجر‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟

fusion

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, نٹالی لسبونا
  • عہدہ, بزنس رپورٹر، تل ابیب

پہلی نظر میں یہ ایک عام سا گودام معلوم ہوتا ہے لیکن شہر ہود ہشارون میں موجود اس عمارت کے اندر داخل ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشرقِ وسطیٰ میں توانائی کا ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

این ٹی ٹاؤ میں محققین نے 35 نجی سٹارٹ اپس کے اعلیٰ پائے کے گروپ کا حصہ ہیں جو ایک نجی فیوژن ری ایکٹر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

نیوکلیئر فیوژن یا ہائڈروجن ایٹمز کے ملاپ سے توانائی پیدا کرنے کی کوشش کائنات میں سورج اور دیگر سیاروں میں توانائی کا ذریعہ ہے۔ اگر اس پراسس کو زمین پر آزمایا جائے تو اس سے سستی، وافر اور ماحول دوست بجلی کی پیداوار یقینی بنائی جا سکتی ہے۔

گذشتہ سال کے آخر میں امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے نیشنل اگنیشن فیسیلٹی (این آئی ایف) میں محققین نے ایک بڑی پیش رفت کی ہے۔

سائنسدانوں نے کنٹرولڈ ماحول میں فیوژن کا تجربہ کیا جس کا مقصد اس ری ایکشن سے لیزرز سے سپلائی کی جانے والی توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کرنا تھا۔

اس کامیابی کے باوجود ایک فیوژن ری ایکٹر کے ذریعے گھر پر استعمال ہونے والی بجلی پیدا کرنے میں ابھی کئی چیلنجز موجود ہیں۔

محققین مختلف طریقوں سے ایسے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فیوژن حاصل کرنے کا ایک طریقہ تو ہائڈروجن آئسوٹوپس کو کروڑوں ڈگری تک حرارت دینا ہے جب تک ان میں اتنی توانائی پیدا ہو جائے کہ وہ ٹوٹ کر پلازما کی شکل اختیار کر لیں۔

اس پلازما کو پھر مقناطیسی فیلڈ میں محدود کیا جا سکتا ہے، اس طریقہ کار کو ’میگنیٹک کنفائنمنٹ فیوژن‘ کہا جاتا ہے۔

ایک مقناطیسی فیلڈ کو ارینج کرنے کے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں۔ ’ٹوکامیک‘ نامی ڈیوائس میں پلازما کو متعدد مقناطیسوں کے ذریعے محدود کیا جاتا ہے جو دائرے کی شکل میں اس میں نصب ہوتے ہیں۔ پھر اس پلازما کو مشین کے ذریعے گھمایا جاتا ہے۔

fussion

،تصویر کا ذریعہGetty Images

این ٹی ٹاؤ میں ان دونوں طریقوں کو ملانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یعنی ٹوکامیک اور سٹیلاریٹر کو۔

چیف ایگزیکٹو اوڈڈ گوئر-لیوی جنھوں نے سنہ 2016 میں این ٹی ٹاؤ کی بنیاد بوآز اور دورون وائنفیلڈ کے ساتھ مل کر رکھی تھی کہتے ہیں کہ ’اس منصوبہ کے بارے میں کچھ زیادہ بتائے بغیر اس وقت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ این ٹی ٹاؤ موجودہ ٹوکامیک ٹیکنالوجی اور سٹیلاریٹر ٹیکنالوجی کا ملاپ استعمال کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ان دونوں ٹیکنالوجیز کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ہم ایک نیا ڈیزائن بنا سکیں جس میں زیادہ پلازما ڈینسٹی پر آپریٹ کیا جائے گا اور ہمیں ایک ایسا فیوژن ری ایکشن بنانے میں مدد ملے گی جو اس وقت موجود کسی اور حل کے مقابلے میں ماحولیاتی اعتبار سے بہتر ہوں گے۔‘

این ٹی-ٹاؤ کا ماننا ہے کہ زیادہ کثافت والے پلازمہ کے استعمال کے ذریعے ری ایکٹر کی بنیاد محدود کی جا سکتی ہے اور اس کے گرد کی گئی انجینیئرنگ کو بھی آسان بنایا جا سکتا ہے۔

کمپنی کا موجودہ مقصد ایک موڈیولر فیوژن ری ایکٹر بنانا ہے جو ایک عام شپنگ کنٹینر جتنا ہو۔ یہ کس بھی دوسرے فیوژن پراجیکٹس کے مقابلے میں انتہائی چھوٹا منصوبہ ہو گا۔

مثال کے طور پر، برطانوی حکومت کی معاونت سے بنائے گئے فیوژن پلانٹ کا منصوبہ 740 ایکڑ پر بنایا گیا ہے جہاں کوئلے سے چلنے والا پاور سٹیشن بھی ہے۔

وہ این ٹی-ٹاؤ ری ایکٹر کے ذریعے ایسی جگہوں پر بجلی فراہم کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں جہاں گرڈ سٹیشنز کے ذریعے بجلی فراہم نہیں ہو سکتی۔ اس کے ذریعے کڑوے پانی کو پینے کے قابل بنانے والے پلانٹس کو توانائی فراہم کرنے، کان کنی کے پراسس میں یا بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو چارج کرنے میں استعمال ہو سکتے ہیں۔

گوئر لیوی کہتے ہیں کہ ’یہ شپنگ کنٹینرز کسی بھی علاقے میں لے جائے جا سکتے ہیں اور انھیں کسی بھی جگہ منتقل کرنا بہت آسان ہے۔‘

کسی بھی قسم کے فیوژن ری ایکٹر کو بنانا بہت مشکل کام ہے لیکن ایک چھوٹا اور معیاری ری ایکٹر بنانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔

گوئر لیوی

،تصویر کا ذریعہNT-TAO

ان تمام مشکلات کے باوجود این ٹی ٹاؤ نے ہائی پروفائل سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ گذشتہ برس این ٹی ٹاؤ شہ سرخیوں میں اس وقت آیا تھا جب ہونڈا نے اس کمپنی میں سرمایہ کاری کی تھی، جس کے بعد ہونڈا وہ پہلی گاڑیاں بنانے والی کمپنی بن گئی تھی جس نے فیوژن اینرجی میں سرمایہ کاری کی تھی۔ ہونڈا کی جانب سے فنڈنگ سمیت این ٹی ٹاؤ کو فنڈنگ کی مد میں دو کروڑ 80 لاکھ ڈالر ملے۔

ہونڈا کا ماننا ہے کہ این ٹی ٹاؤ کے ایک چھوٹا ری ایکٹر بنانے کے منصوبے کی کامیابی سے انھیں تیزی سے ٹیسٹ ری ایکٹرز بنانے میں مدد ملے گی۔

ڈائریکٹر اور سینیئر مینیجنگ آفیسر ہونڈا کی جانب سے فروری میں جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ’ہونڈا کو این ٹی ٹاؤ کے مستقبل کے حوالے سے اچھی توقعات ہیں کیونکہ اس کمپنی کے پاس فیوژن انرجی کے حوالے سے جدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔

’ہونڈا کا ماننا ہے کہ فیوژن کے ذریعے توانائی پیدا کرنے والی ٹیکنالوجی ایک سستی، صاف اور پائیدار توانائی بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور یہ ٹیکنالوجی اس وقت مزید اہمیت اختیار کر لے گی جب بجلی سے چلنے والی گاڑیاں مشہور ہو جائیں گی۔‘

گذشتہ کئی برسوں سے فیوژن کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فیوژن انڈسٹری اسوسی ایشن کی سنہ 2022 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیوژن کمپنیوں نے اب تک نجی فنڈنگ کی مد میں چار اعشاریہ سات ارب ڈالر حاصل کیے ہیں اس کے علاوہ 11 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی سرکاری گرانٹس بھی دی جا چکی ہیں۔

آرتھر ٹوریل

،تصویر کا ذریعہKAREN HATCH

،تصویر کا کیپشن

آرتھر ٹوریل کہتے ہیں کہ ’یہ انتہائی محفوظ عمل ہے۔ نیوکلیئر فیوژن میں میلٹ ڈاؤن کا کوئی چانس نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مختلف طریقے سے توانائی بنانے کا عمل ہے۔‘

کچھ سٹارٹ اپس کا کہنا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ وہ توانائی کے اس منصوبے کو اس دہائی کے آخر تک کامیاب بنا سکیں گے۔

تاہم اکثر افراد فیوژن انڈسٹری کے مستقبل کے حوالے سے محتاط ہیں۔ دی سٹار بلڈرز: نیوکلیئر فیوژن اینڈ دی ریس ٹو پاور دی پلینٹ کے مصنب آرتھر ٹوریل کہتے ہیں کہ موجود نیوکلیئر پاور پلانٹس جو ایٹمز کو توڑنے کا کام کرتے ہیں، جسے فشن کہا جاتا ہے، وہی اس وقت سب سے موزوں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’نیوکلیئر فشن اس وقت دنیا میں توانائی کا سب سے محفوظ اور بڑے پیمانے پر استعمال ہون والا طریقہ کار ہے اور یہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔ آپ کو اس کے لیے زیادہ ایندھن کی ضرورت نہیں ہوتی اور ایک مرتبہ یہ قائم ہو جائے تو اسے چلانے کے لیے بھی زیادہ لوگ درکار نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ اسے چلانے کے لیے چھوٹی سائٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

وہ فوکوشیما اور چرنوبل سانحوں کی طرف توجہ دلواتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ماضی میں ری ایکٹرز میں کچھ سانحے ہو چکے ہیں اور یہ بات سمجھ آتی ہے کہ لوگ اس حوالے سے کیوں پریشان ہیں۔‘

فیوژن ٹیکنالوجی کے بارے میں حفاظت یقینی ہونا اس کی جانب سرمایہ کاروں کی توجہ مبذول کرواتا ہے۔ ٹوریل کہتے ہیں کہ ’یہ انتہائی محفوظ عمل ہے۔ نیوکلیئر فیوژن میں میلٹ ڈاؤن کا کوئی چانس نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مختلف طریقے سے توانائی بنانے کا عمل ہے۔

’میں نے ایسی متعدد سائٹس کا دورہ کیا ہے اور لوگ جس چیز کے بارے میں وہاں سب سے زیادہ پریشان ہوتے وہ سیڑھیوں سے گرنا ہے۔‘

اسرئیلی وزارتِ توانائی میں سابق چیف سائنسدان براچا حلف اس بارے میں محتاط رائے رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ابھی اس حوالے سے طویل سفر باقی ہے اور اس دوران متعدد چیلنجز آ سکتے ہیں۔ یہ ان منصوبوں کو کنٹرول کرنے، انھیں پائیدار بنانے کے حوالے سے سامنے آ سکتے ہیں جو ایک چھوٹے فیوژن ری ایکٹر کے مسلسل کام کرنے کے لیے اہم ہوں گے۔‘

فیوژن انڈسٹری اسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو اینڈریو ہالینڈ پرامید ہیں کہ آنے والے دنوں میں کوئی فیوژن پاور پلانٹ بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

’فیوژن سے دنیا کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ توانائی کا بہترین ذریعہ ہے۔ تمام کمپنیاں فیوژن کو کمرشلائز کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں لیکن یہ صنعت بذاتِ خود ناگزیر اور گیم چینگ ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ