جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

اسرائیل پر 15 برس حکمرانی کرنے والے ’جادوگر‘ رہنما کا کمانڈو سے وزیرِ اعظم تک کا سفر

نتن یاہو حکومت بنانے میں ناکام: 15 برس حکمرانی کرنے والے ’جادوگر‘ رہنما کا کمانڈو سے وزیرِ اعظم تک کا سفر

نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہEPA

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے لیے نئی حکومت تشکیل دینے کی ڈیڈلائن ختم ہو گئی ہے۔

وہ گذشتہ 28 دن سے کوشش کر رہے تھے کہ دو سالوں میں چوتھے غیر متناسب عام انتخابات کے بعد اتحادی حکومت قائم کر سکیں لیکن منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو ختم ہونے والی ڈیڈلائن تک وہ ایسا نہ کر سکے۔

صدر ریون ریولن اب کسی دوسرے سیاسی رہنما سے باضابطہ طور پر اتحادی حکومت تشکیل کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔

لیکن اس سے ایک بار پھر ملک میں حال ہی میں ہونے والے عام انتخابات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور اسرائیل ایک مرتبہ پھر الیکشن کی جانب جا سکتا ہے۔

یروشلم سے بی بی سی کے یولنڈ کیل کے مطابق یہ اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک وزیرِ اعظم رہنے والے رہنما نتن یاہو کے لیے ایک دھچکا ثابت ہو گا، لیکن مارچ میں آخری عام انتخابات کے غیر نتیجہ خیز ثابت ہونے کے بعد یہ ایک ایسا نتیجہ ہے جس کی بڑے پیمانے پر پیش گوئی کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

صدر ریولن اب کسی اور رکنِ پارلیمان کو نئی حکومت کی تشکیل کے لیے 28 دن کا وقت دے سکتے ہیں۔

یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ یائر لاپڈ ہوں گے جن کی ’یش اتید‘ جماعت گذشتہ انتخابات میں نتن یاہو کے دائیں بازو کے ’لیکوڈ‘ کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہی تھی۔

انھیں فریقین کو اکھٹے کرنے کے لیے ان کے مابین وسیع نظریاتی اختلافات دور کرنے کا یقینی طور پر ایک بڑے چیلینج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگر صدر کے جانب سے نامزد کیے گئے رکن پارلیمان بھی حکومت بنانے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں تو وہ امیدوار منتخب کرنے کی ذمہ داری پارلیمان کو سونپ سکتے ہیں۔ اگر یہاں بھی ناکامی ہوتی ہے تو اسرائیل ایک اور عام انتخابات میں جا سکتا ہے۔

نتن یاہو کی بدعنوانی کے سلسلے میں جاری مقدمے کی سماعت کے باعث اسرائیل میں سیاسی پیچیدگیاں سامنے آئی ہیں۔ ان کے حریفوں کا موقف ہے کہ مجرمانہ الزامات کا سامنا کرتے ہوئے انھیں اس عہدے پر نہیں رہنا چاہیے۔

نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کمانڈو سے وزیرِ اعظم تک کا سفر

بنیامین نتن یاہو نے اسرائیل کے وزیرِاعظم کی حیثیت سے 15 برس میں دو سنگِ میل عبور کیے، ایک تو وہ ملک کے سب سے زیادہ عرصے تک برقرار رہنے والے سربراہ بنے اور دوسرا وہ ایسے پہلے وزیرِ اعظم بھی بنے جنھوں نے بطور وزیرِ اعظم کے دوران فوجداری کے مقدمات کا سامنا کیا۔

ان کے مداح انھیں متعدد الیکشنز جیتنے کے باعث ‘کنگ بی بی’ اور ‘جادوگر’ کے القابات سے نوازتے رہے ہیں تاہم اسرائیل کی دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ کے سربراہ کو اب بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا ہے اور وہ سیاست میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

ماضی کے الیکشنز میں ان کی فتح دراصل ان کے ایسے امیج کی مرہونِ منت ہے جس کے مطابق وہ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کی خطرناک فورسز سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

انھوں نے فلسطینیوں کے لیے بھی خاصی سخت پالیسی اپنائی رکھی اور امن کی کسی بھی بحث میں سکیورٹی خدشات کو سرِ فہرست رکھا ہے۔ وہ اسرائیل کی بقا کو ایران سے لاحق خطرے کے حوالے سے بھی بارہا خبردار کر چکے ہیں۔

نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بھائی کی میراث

بنیامین نیتن یاہو سنہ 1949 میں تل ابیب میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 1963 میں ان کے خاندان نے اس وقت امریکہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جب نتن یاہو کے والد اور ایک معروف تاریخ دان اور سماجی کارکن بینزیون کو امریکہ میں معلم کی نوکری آفر ہوئی تھی۔

اٹھارہ برس کی عمر میں نتن یاہو اسرائیل واپس آئے اور اس دوران وہ پانچ برس تک فوج کا حصہ رہے۔ انھوں نے ‘سایریٹ متکل’ نامی مقبول کمانڈو یونٹ میں بطور کپتان ذمہ داری نبھائی اور 1968 میں بیروت ایئرپورٹ پر کیے گئے حملے میں بھی حصہ لیا اور وہ 1973 کی مشرقِ وسطیٰ جنگ کا بھی حصہ تھے۔

فوج میں ذمہ داری نبھانے کے بعد وہ واپس امریکہ چلے گئے جہاں انھوں نے ایم آئی ٹی سے بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سنہ 1976 میں نتن یاہو کے بھائی جوناتھن یوگانڈا کے شہر انتیبے میں ایک ہائی جیک ہونے والے طیارے سے یرغمالیوں کو بچانے کے لیے کیے گئے ریسکیو آپریشن میں ہلاک ہو گئے۔ ان کی ہلاکت کا نتن یاہو خاندان پر خاصا گہر اثر پڑا اور ان کا نام اسرائیل میں لیجنڈری حیثیت اختیار کر گیا۔

نتن یاہو نے اپنے بھائی کے نام پر ایک انسداد دہشتگردی انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی اور 1982 میں وہ امریکہ کے لیے اسرائیل کے ڈپٹی چیف آف مشن تعینات ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نتن یاہو کو عوامی طور پر لانچ کر دیا گیا۔

انگریزی زبان پر عبور رکھنے اور مخصوص امریکی لحجے میں بات کرنے والے نتن یاہو امریکی ٹیلی ویژن پر ایک جانی مانی شخصیت بن کر ابھرے جو صحیح معنوں میں اسرائیل کی وکالت کرتے تھے۔ نتن یاہو کو 1984 میں اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کا مستقل نمائندہ مقرر کر دیا گیا۔

نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہAFP

اقتدار تک کا سفر

سنہ 1988 میں جب وہ اسرائیل واپس آئے تو انھوں نے ملکی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی اور لیکوڈ جماعت کے لیے ایک نشست پر کامیاب بھی ہوئے جس کے بعد انھیں ڈپٹی وزیرِ خارجہ تعینات کر دیا گیا۔

اس کے بعد وہ جماعت کے سربراہ بن گئے اور پھر سنہ 1996 میں وہ اسرائیل کے پہلے براہ راست منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم بنے۔ ایسا اس لیے ممکن ہوا کیونکہ یتزاک رابن کے قتل کے بعد قبل از وقت انتخابات کروائے گئے تھے۔ نتن یاہو اسرائیل کے سب سے کم عمر رہنما تھے اور وہ پہلے ایسے وزیرِ اعظم تھے جو ریاست کے 1948 میں وجود میں آنے کے بعد پیدا ہوئے۔

سنہ 1993 میں اوسلو میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والے امن معاہدوں کی شدید مذمت کرنے والے نتن یاہو نے اقتدار میں آنے کے بعد ہیبرون کا 80 فیصد حصہ فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں دے دیا۔ اس فیصلے پر انھیں ملک کے دائیں بازو کے افراد کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

سنہ 1999 میں انھیں اس وقت اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے جب انھوں نے مقررہ وقت سے 17 ماہ قبل الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا۔

سیاسی واپسی

اس شکست کے بعد نتن یاہو لیکوڈ جماعت کی سربراہی سے دستبردار ہو گئے اور ان کی جگہ ایریئل شیرون نے لی۔ جب سنہ 2001 میں شیرون وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تو نتن یاہو کی حکومت میں واپسی ہوئی اور انھوں نے پہلے بطور وزیرِ خارجہ اور پھر بطور وزیرِ خزانہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ سنہ 2005 میں انھوں نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی سے انخلا کے بعد احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔

تاہم انھیں سنہ 2005 میں ایک اور موقع ملا جب مسٹر شیرون ایک شدید دورہ پڑنے کے باعث کوما میں چلے گئے اور بعد میں لیکوڈ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے انھوں نے کڈیما نامی جماعت قائم کر لی۔

نتن یاہو لیکوڈ کی سربراہی حاصل کرنے میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوئے اور وہ مارچ 2009 میں دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔

انھوں نے غربِ اردن میں دس ماہ تک تعمیرات بند کرنے کا بینظیر فیصلہ کیا اور یوں فلسطینیوں سے امن مذاکرات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تاہم یہ مذاکرات 2010 کے اواخر میں ہی کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے۔

سنہ 2009 میں انھوں نے کھلے عام فلسطینی ریاست کی اسرائیل کے ساتھ موجودگی پر مشروط آمادگی ظاہر کی تھی تاہم بعد میں انھوں نے اپنے مؤقف کو مزید سخت کر دیا۔ سنہ 2019 میں انھوں نے ایک اسرائیلی ریڈیو سٹیشن کو بتایا کہ ‘ایک فلسطینی ریاست نہیں قائم ہو گی، کم از کم وہ نہیں جس کے بارے لوگ بات کر رہے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکے گا۔’

فلسطین

،تصویر کا ذریعہAFP

غزہ میں کشیدگی

اسرائیلی افواج کی کارروائیوں اور فلسطینیوں کی جانب سے کیے گئے حملے نتن یاہو کے سنہ 2009 میں اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں غرب اردن میں کشیدگی کا سبب بنتے رہے۔

سنہ 2012 کے اواخر میں انھوں نے اسرائیل پر ہونے والے ایک راکٹ حملے کے بعد ایک بڑے حملے کا اعلان کیا لیکن اس دوران انھوں نے زمینی فوج نہیں بھیجی۔ تاہم کچھ عرصے کے لیے امن رہنے کے بعد سرحد پر ہونے والی جھڑپوں اور جولائی 2014 میں ہونے والے راکٹ حملوں کے بعد نتن یاہو نے ایک فوجی حملے کا حکم دیا۔

اقوامِ متحدہ اور فلسطینی حکام کے مطابق 50 روز تک جاری رہنے والی اس جنگ میں 2100 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اسرائیل کی جانب 67 فوجی اور چھ عام شہریوں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔

حالانکہ اس تنازع کے دوران اسرائیل کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی تاہم نتن یاہو اور امریکی صدر باراک اوباما کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار رہتے تھے۔

ان کے تعلقات میں زوال اس وقت آیا جب نتن یاہو نے مارچ 2015 میں کانگریس سے خطاب کے دوران امریکہ کے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات کے دوران ایک ‘برے معاہدے’ سے خبردار کیا تھا۔ اوباما انتظامیہ نے ان کے اس دورے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ملکی معاملات میں مداخلت اور نقصان دہ قرار دیا۔

نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہAFP

ٹرمپ سے تعلقات

امریکہ میں سنہ 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات اور پالیسیوں میں ربط نظر آنے لگا اور اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد ہی ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں۔

اس فیصلے سے عرب دنیا میں تو غم و غصہ پایا گیا کیونکہ یہ تمام ممالک فلسطینیوں کی یروشلم کے مشرقی حصے پر اپنی اجارہ داری کے دعوے کی حمایت کرتے ہیں جو اس سے سنہ 1967 کی مشرقِ وسطیٰ جنگ کے دوران چھین لیا گیا تھا۔ تاہم اس کے باعث نتن یاہو کو ایک بڑی سیاسی اور خارجہ فتح حاصل ہوئی تھی۔

صرف ایک برس بعد ہی ٹرمپ نے دہائیوں کی امریکی پالیسی کے برعکس شامی گولان ہائیٹس پر اسرائیلی خود مختاری تسلیم کر لی۔ جنوری 2020 میں نتن یاہو نے صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدے کے خاکے کو ‘صدی کا بہترین موقع’ قرار دیا تاہم اسے فلسطینیوں نے یکطرفہ قرار دیتے ہوئے نظرانداز کیا۔

نتن یاہو ٹرمپ کی ایران پالیسی سے بھی بہت خوش تھے اور انھوں نے صدر ٹرمپ کا ایران جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے اور ایران پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلےکو خوش آئند قرار دیا تھا۔

نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بدعنوانی کے الزامات

سنہ 2016 کے بعد سے نتن یاہو کو بدعنوانی کی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا اختتام نومبر 2019 میں ان پر رشوت، فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے جیسے تین مختلف کیسز میں فردِ جرم عائد ہونے پر ہوا۔

نتن یاہو پر الزام ہے کہ انھوں نے امیر کاروباری شخصیات سے تحفے وصول کیے اور بہتر میڈیا کوریج حاصل کرنے کے لیے احسانات کیے۔

وہ ان تمام الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی جانب سے کی جانے والی الزام تراشیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ مئی 2020 میں انھوں نے مقدمے کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح وہ کسی بھی مقدمے کا سامنا کرنے والے پہلے وزیرِ اعظم بن گئے اور انھوں نے اپنے مخالفین کی جانب سے عہدے سے دستبردار ہونے کے مطالبات کو مسترد کیا۔

ان الزامات کے سائے تلے نتن یاہو گذشتہ ایک سال میں تین غیر نتیجہ خیز عام انتخابات کے باعث ریکارڈ پانچویں مرتبہ وزیرِ اعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم اس بارے انھوں نے اپنے سیاسی مخالف بینی گینٹز سے اقتدار شیئر کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا اور کورونا وائرس ایمرجنسی سے نبردآزما ہونے کے لیے قومی سیاسی اتحاد قائم کیا۔

تاہم آٹھ ماہ بعد ہی اس اتحاد کے ٹوٹنے کے باعث ملک میں دو سالوں میں چوتھا الیکشن ہوا۔ حالانکہ اس الیکشن میں لیکوڈ جماعت نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں، تاہم نتن یاہو کی بطور وزیرِ اعظم کام جاری رکھنے کے مخالفین میں اضافے کے باعث وہ اکثریت حاصل نہ کر سکے اور یوں اب ان کا سیاسی کریئر خطرے میں پڑ گیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.