اسرائیل پر ’وارکرائمز‘ کے الزامات: جنگی جرائم کا تعین کیسے کیا جاتا ہے اور عدالت کن بنیادوں پر سزا دیتی ہے؟
اسرائیل پر ’وارکرائمز‘ کے الزامات: جنگی جرائم کا تعین کیسے کیا جاتا ہے اور عدالت کن بنیادوں پر سزا دیتی ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, منزہ انوار
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
حماس کے اسرائیل پر حملے اور اسرائیلی فوج کی غزہ میں جوابی کارروائیوں کے بعد پیدا ہونے والی جنگی صورتحال وقت کے ساتھ گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسی دوران حماس کی جانب سے اسرائیلی حکام پر مسلسل جنگی جرائم کے الزام عائد کیے جا رہے ہیں۔
کسی بھی مسلح جنگ کے دوران عام شہریوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی جنگی جرم کہلاتی ہے۔ جنگ کے قوانین مختلف بین الاقوامی معاہدوں میں درج ہیں جن میں 1949 کا جنیوا کنونشن اور 1899 اور 1907 کا ہیگ کنونشن شامل ہیں۔
عام شہریوں کی زندگی بچانے اور ان پر جنگ کے اثرات کم کرنے کے لیے فریقین بین الاقوامی انسانی قوانین کے پابند ہیں۔
مگر ایک بات طے ہے کہ کسی کی جانب سے ایک ملک یا اس کے رہنما کو جنگی جرم کا مرتکب کہہ دینے سے وہ واقعی مجرم بن نہیں جاتا۔
اس بات سے قطع نظر کے ان قوانین پر عمل کس حد تک ہو رہا ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ جنگی جرائم کیا ہوتے ہیں، اس حوالے سے عالمی قوانین کیا ہیں، یہ کس صورت میں لاگو ہوتے ہیں اور مجرم کو سزا دلوانے کا عمل کیا ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کیا ہے؟
انٹرنیشنل کریمینل کورٹ (آئی سی سی) 1998 میں نیدر لینڈز کے شہر ہیگ میں قائم کی گئی تھی۔ یہ ایک آزاد ادارہ ہے جہاں ان افراد پر مقدمہ چلایا جاتا ہے جن پر عالمی برادری کے خلاف انتہائی سنگین جرائم کے الزامات ہوں۔
یہ ادارہ جنگی جرائم، نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگ کے دوران جارحیت کے خلاف تحقیقات کرتا ہے۔
کوئی بھی ملک ملزمان کے خلاف اپنی عدالتوں میں مقدمہ چلا سکتا ہے۔ آئی سی سی اس وقت کارروائی کرتی ہے جب کوئی ملک کارروائی نہ کرنا چاہتا ہو اور یہ عدالت آخری آپشن ہوتی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کون سے اقدام جنگی جرائم سمجھے جاتے ہیں؟
جنگی جرائم کی وضاحت کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ جنگی جرائم کے حوالے سے متعلقہ ٹریٹی ’روم سٹیچوٹ‘ ہے جس کے تحت انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کا قیام عمل میں آیا تھا، اس کے آرٹیکل 6، 7 اور 8 جنگی جرائم کی واضح تشریح کرتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنگی جرائم کی عمومی تشریح مختلف مقدمات کے دوران بین الاقوامی فورمز یا ٹریبیونلز یا مختلف ادوار میں بنائے گئے کریمنل کورٹس میں کی گئی جسے بعد میں آئی سی سی کے قانون میں بھی شامل کیا گیا۔
اس کی مثالیں نیورمبرگ ٹرائل جیسے بے شمار اور ٹریبیونلز ہیں جنھوں نے جنگی جرائم کی شناخت کر کے ان کی تشریح کی جنھیں بعد میں روم سٹیچوٹ میں ایک خاص اور قابلِ شناخت زبان دے دی گئی۔ اس میں یہ تفصیل بھی درج ہے کہ آیا شناخت کیے جانے والے جرائم سے منسلک ایکشن اس جرم کا حصہ بنتے ہیں یا نہیں، جیسے یوگوسلایویہ اور روانڈا کے جنگی جرائم کے ٹریبیونل وغیرہ۔
تاہم یاد رہے کہ بین الاقوامی قانون کسی بھی ملک کے قانون سے مختلف ہوتا ہے جس میں جرائم درج ہوتے ہیں اور لکھی گئی زبان کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ جرم ہوا یا نہیں۔
احمر بلال کے مطابق بین الاقوامی قانون میں ایسا بالکل نہیں ہے یہاں ذرائع میں ٹریٹی، رسم و رواج، جوڈیشل فیصلے، عالمی اداروں کی پریکٹیسز ان سب کو ملا کر غور کرنے کے بعد جنگی جرائم کی تشریح کی جاتی ہے اور اس کے خدوخال کی شناخت کی جاتی ہے۔
آرٹیکل 6- نسل کشی (جینوسائِڈ)
بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی مخصوص قومیت، نسل یا مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والوں کو اس ارادے سے ہلاک کرنا کہ وہ مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو جائیں، ’نسل کشی‘ قرار پاتا ہے۔
نسل کشی کا مرکزی نکتہ بھی یہی ہے کہ جرم اس نیت اور ارادے سے کیا جا رہا ہو کہ کسی مخصوص گروہ کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اسے مٹا دینا مقصود ہو۔
اقوام متحدہ کے ’کنونشن آن پریوینشن اینڈ پنشمنٹ آف دی کرائم آف جینوسائڈ‘ 1948 میں اس جرم کی روک تھام اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سزا بھی بتائی گئی ہے۔
سنہ 1998 میں ’انٹرنینشل کرمنل ٹریبیونل فار روانڈا‘ نے دیگر ایسے اقدامات کی وضاحت بھی کی جن کو نسل کشی گردانا جا سکتا ہے۔
ان اقدامات میں مخصوص گروہ کے اراکین کے جسمانی اور ذہنی تشخص کو سنجیدہ چوٹ پہنچانا، ایسے حالات پیدا کر دینا جو اس گروہ کی مکمل یا جزوی تباہی کا باعث بنیں، اس گروہ میں بچوں کی پیدائش روکنے کے اقدامات کرنا، ایک گروہ کے بچوں کو جبری طور پر کسی دوسرے گروہ کو منتقل کر دینا شامل ہیں۔
بین الاقوامی قانون میں نسل کشی کی تعریف کو پہلی بار جرمن نازیوں کے خلاف نیورمبرگ مقدمے کے دوران استعمال کیا گیا۔ اب تک اسرائیل اور فلسطین سمیت 153 ممالک اقوام متحدہ کے اس کنونشن پر دستخط کر چکے ہیں۔
تاہم سب ممالک نے ’روم سٹیچوٹ‘ پر دستخط نہیں کیے جس کے تحت انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا قیام ہوا جو ایسے جرائم کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ان میں امریکہ، چین، روس اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔
ہولوکاسٹ، روانڈا، کمبوڈیا، بوسنیا، عراق میں یزیدیوں اور میانمار میں روہنگیا کے خلاف کارروائیوں کو حالیہ تاریخ میں نسل کشی کی مثالیں قرار دیا جاتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
آرٹیکل 7 – جنگی جرائم
بین الاقوامی قانون کے تحت جنگ کے نقصانات اور اثرات کو محدود رکھنے کے لیے ایسے عام شہریوں کو تحفظ دیا گیا ہے جو براہ راست جنگ میں شریک نہیں ہوتے۔
عام شہریوں پر تشدد یا حملے جرم تصور کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایسا اسلحہ بھی ممنوعہ قرار دیا گیا ہے جس کے استعمال سے عام شہری متاثر ہو سکتے ہیں جیسا کہ بارودی سرنگیں، کیمیائی ہتھیار۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق زخمیوں اور بیماروں، بشمول زخمی فوجیوں کا خیال رکھنا لازم ہے۔ کسی کو یرغمال بنا لینا یا پھر بے دخلی بھی جنگی جرائم میں شامل ہے۔
سنہ 1950 کے جینیوا کنونشن کے مطابق بچوں اور ثقافتی ورثے کو خصوصی حفاظت دی گئی ہے۔ ایسے جرائم کو طے کرنے کا اختیار بھی انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے پاس ہے۔
آرٹیکل 8 – انسانیت کے خلاف جرائم
جنگی جرائم صرف جنگ کے دوران سرزد ہو سکتے ہیں لیکن انسانیت کے خلاف جرائم امن کے دوران بھی ہو سکتے ہیں جن میں عام شہریوں پر تشدد، جبری گمشدگی، قتل، بے دخلی یا جنسی تشدد اور ریپ جیسے جرائم شامل ہیں۔
جنگی جرائم سے متعلق قوانین کے ماہرین کے مطابق اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ جرائم عام شہریوں کے خلاف منظم حملے کے طور پر کیے گئے ہوں۔
مثال کے طور پر اگر کسی ملک میں پولیس کسی پر تشدد کرے تو یہ مقدمہ تشدد کے خلاف عالمی کنونشن کے ضمرے میں آئے گا کیوں کہ یہ ایک واقعہ ہے۔ تاہم اگر تشدد منظم انداز میں وسیع آبادی کے خلاف ہوا ہو تو یہ انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی مسلح گروہ عام آبادی میں گھس کر لوٹ مار کرے، لوگوں کو اغوا کرے اور خواتین کا ریپ کرے تو یہ بھی انسانیت کے خلاف جرم ہو گا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کسی بھی جنگ میں کہاں حملہ کرنے کی اجازت ہے اور کس چیز کی قطعاً اجازت نہیں؟
احمر بلال صوفی کے مطابق کسی بھی جنگ میں دو تین چیزیں طے ہیں: ان میں سے ایک یہ کہ کسی بھی جنگ میں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کوئی فریق عام شہریوں کو ٹارگٹ نہیں کر سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں اس حوالے سے کچھ گنجائش موجود تھی لیکن اب جنگ یا غیر مسلح تنازع یا ملک کی اندورنی شورشوں میں حتیٰ کہ اگر آپ کے ملک پر کسی اور کا قبضہ ہے اور آپ قابض قوتوں کے خلاف حقِ دفاع کے تحت مزاحمت بھی کرنا چاہیں تو تب بھی آپ کو عام شریوں پر حملے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔
اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں انڈیا کے خلاف لڑنے والے عسکریت پسند ہوں یا حماس دونوں کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ عام شہریوں پر حملہ کر سکیں۔
لہٰذا کسی بھی جنگ، تنازع یا شورش میں دونوں فریقین کو صرف ملٹری ٹارگٹس پر حملے کرنے کی اجازت ہے، ملٹری پراپرٹی، ملٹری تنصیبات، ملٹری یونیفارم پہنے افراد پر بھی حملے کی اجازت ہے تاہم اگر یونیفارم پہنے کوئی فوجی اپنا ہتھیار پھینک دیتا ہے تو اسے فوراً ’پروٹیکٹڈ پرسن‘ کے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔
احمر بلال صوفی کے مطابق شہری آبادی، شہری پراپرٹی یہ سب ’پروٹیکٹڈ زون‘ کا حصہ ہوتے ہیں اور اس پروٹیکشن کی خلاف ورزی جنگی جرم ہے۔
کیا سیلف ڈیفینس یا حقِ دفاع آپ کو عام شہریوں پر حملے کی اجازت دیتا ہے؟
غزہ میں شہری تنصیبات پر حملوں کے بعد (جن میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں) اسرائیل کی جانب سے ایسی وضاحتیں سامنے آئی ہیں جن میں کہا گیا کہ وہ ان عمارت کے نیچے بنائی گئی حماس کے زیراستعمال سرنگوں (جسے ملٹری ٹارگٹ کہا جا سکتا ہے) کو نشانہ بنا رہا تھا۔ تو یہاں یہ کیسے ثابت ہو گا کہ واقعی ان ہسپتالوں یا مساجد کے نیچے حماس کی سرنگیں موجود تھیں؟
اس کے جواب میں احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ اس جنگ میں اسرائیل بار بار اپنے دفاع کے حق کو دہرا رہا ہے لیکن سیلف ڈیفیس یا حقِ دفاع آپ کو عام شہریوں پر حملے کی کھلی اجازت نہیں دیتا۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ حماس کسی شہری پراپرٹی کو حفاظت کے لیے استعمال کر رہی ہے تو اس صورت میں بھی اس ریاست کے پاس دو آپشنز ہوتی ہیں: قانون کا نفاذ اور دوسری جنگ۔
قانون کے نفاذ کے تحت ایک ریاست دوسری ریاست یا وہاں پر موجود اتھارٹی سے مطلوب افراد کی گرفتاری اور سرنگوں تک رسائی کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ انھیں بند کیا جا سکے۔
اگر وہ اتھارٹی اس درخواست کو رد کرتی ہے اور قانونی طریقے سے معاملہ حل نہیں ہو رہا تو اس سے اگلے مرحلے کے طور پر سرنگوں کو کسی ایک جگہ سے بند کیا جا سکتا ہے مثلاً اگر کسی سڑک کے نیچے سے سرنگ گزر رہی ہے تو آپ اس سڑک پر حملہ کرکے اسے ناکارہ بنا سکتے ہیں لیکن مسلسل آٹھ نو شہری عمارات جہاں عام شہری رہائش پذیر ہوں، انھیں اس بنیاد پر تباہ نہیں کیا جاسکتا، اور اس ایکشن کو عدم مساوات کے اصول کی خلاف ورزی کا نام دیا جاتا ہے۔
احمر بلال کا کہنا ہے کہ سیلف ڈیفینس کا عذر آپ کو انٹرنیشنل قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا۔
،تصویر کا ذریعہREUTERS
جنگی جرائم کی تفتیش کا طریقۂ کار
احمر بلال صوفی بتاتے ہیں کہ کچھ جرائم کو ’سٹرکٹ لائبلٹی کرائمز‘ کہا جاتا ہے، یعنی ان کا وقوع پذیر ہونا اگر سب کو نظر آ رہا ہے تو مزید ثابت کرنے کی ضرورت صرف تبھی پڑتی ہے اگر آپ کسی ایک فرد کو سزا دلوانا چاہتے ہیں۔
اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ مثلاً عام شہریوں کی ہلاکت جیسے سانحات خود بول پڑتے ہیں اسی لیے انھیں سٹرکٹ لائبلٹی کرائمز کہا جاتا ہے کہ جو ہوا ہے وہ سامنے نظر آ رہا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اگر یہ ریکارڈ پر آ گیا ہے کہ ایک فریق نے عام شہریوں یا عام شہری آبادیوں یا سویلین انفراسٹرکچر (مثلاً ہسپتال، عبادت کا مقام یا پانی کی ٹینکی وغیرہ) پر حملہ کیا ہے تو ایسی صورتحال میں آپ کو مزید صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ واقعی ایسا ہوا ہے اور ایسا الیکٹرانکلی یا جی آئی ایس ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ میڈیا آبزرور کا کردار ادا کر سکتا ہے جس میں وہ واقعہ کیمرے پر ریکارڈ ہو گیا ہو اور اس واقعے کے عینی شاہدین بھی ہو سکتے ہیں۔
لیکن یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مجرم کو سزا کیسے دلوائیں گے؟
جنگ جرائم کے مجرم کو سزا کیسے دلوائی جاتی ہے؟
آئی سی سی کسی بھی فرد یا ریاست کے خلاف تفتیش کا آغاز کر سکتی ہے، جن میں ممالک کے سربراہان سے لے کر ایسے جنرل بھی شامل ہوتے ہیں جنھوں نے اپنےاحکامات سے تجاوز یا خلاف ورزی کی۔
جب یہ ثابت ہو جائے کہ جنگی جرم ہوا ہے تو مجرم کو آئی سی سی میں لے جانے یا سزا دلوانے کا عمل کیا ہے؟
اس حوالے سے احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ ’سزا کسی ایک شخص کو دی جاتی ہے (مثلاً بٹالین کمانڈر یا جنرل) ریاست سے توقع ہی نہیں کی جاتی کہ وہ غیرذمہ دارانہ حرکات کی اجازت دے گی کیونکہ ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔‘
احمر بلال صوفی کے مطابق اگر کوئی ریاست ایسے ایکشنز کی اجازت دیتی ہے، انھیں تسلیم کرتی ہے اور اپنی سٹیٹ پالیسی بنا لیتی ہے تو ایسی صورت میں وہ ریاست بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
اس صورت میں دنیا بھر کی ریاستوں کو اس ریاست کے خلاف صف آرا ہونا پڑے گا، سفارتی تعلقات ختم کرکے اور پابندیوں کے ذریعے حتیٰ کہ اگر ضرورت پڑے تو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اسے بتانا پڑے گا یہ غلط ہے اور اسے ان ایکشنز سے رکنا پڑِے گا۔
احمر بلال صوفی کے مطابق اگر ان تمام اقدامات کے باوجود وہ ریاست بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی جاری رکھتی ہے تو دیگر ممالک مل کر وہاں مشترکہ فوجی بھیجنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں جس سے اس ملک کو جنگی جرائم سے روکا جا سکے اور عام شہریوں کی حفاظت کے لیے جس حد تک بھی جانا پڑے جایا جائے۔ یہاں R2P یعنی ’ریسپانسبلٹی ٹو پروٹیکٹ‘ کا اصول لاگو ہوتا ہے جسے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری نے منظور کیا ہے۔
نظریاتی طور پر اتنے بڑے ایکشن یعنی کسی دوسرے ملک میں نسل کشی کو روکنے کے لیے فوج بھجوانے جیسے عمل کو اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ میں ہونا چاہیے لیکن اگر یو این ایسا نہیں کرتا اور اسرائیل دنیا کے ردِعمل سے بے خوف، بے فکر ہو کر باز نہیں آ رہا تو شاید چند ممالک خود ایسا کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں (چند دن قبل یمن کی جانب سے فائر کیے گئے راکٹ کو امریکی بحری جہاز نے انٹرسیپٹ کیا) مگر اس سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو گا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ حماس نے اسرائیل پر پہلے حملہ کیا جسے ان کے حقِ مزاحمت تو سمجھا جا سکتا ہے لیکن مزاحمت کے اصول بھی طے ہیں اور ایسے حملے صرف فوجی تنصیبات تک ہی محدود ہونے چاہییں، کسی عام شہری کو نشانہ بنانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے حماس نے ان قوانین کی خلاف ورزی کی لیکن اس کے بعد اسرائیل جو ایک نان سٹیٹ ایکٹر نہیں ہے اور ایک بین الاقوامی ذمہ دار ریاست ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ جیسے ریاست نے خود شہریوں، شہری آبادیوں اور شہری تنصیبات پر حملے کی اجازت دی ہے جس میں اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا گیا ہے۔
احمر بلال صوفی کے مطابق کئی صدیوں سے اس بین لاقوامی قانون پر اتفاقِ رائے ہے کہ کسی بھی اندورنی یا انٹرنیشنل مسلح تنازع میں عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنانا جائے گا اور ان کی حفاظت کی جائے گی۔ بدقسمتی سے ہمیں اس کی خلاف ورزی نظر آئی ہے اور ایسا تاثر ملتا ہے کہ اسے اسرائیل کی ریاست کی جانب سے منظور کیا گیا ہے اور ریاستی عناصر اس کی منظوری دیتے نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگی جرائم کے کسی مجرم کے خلاف کارروائی آئی سی سی یا سکیورٹی کونسل جیسے فورم موجود ہیں اور سکیورٹی کونسل ٹریبیونل بنا سکتی ہے جیسے اس نے یوگوسلاویہ اور کوسوو کے دوران کیا جس میں بنائے گئے ٹرابیونل کے دوارن مختلف لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی مگر اس کے لیے پی فائیو کی منطوری چاہیے جو امریکہ کی موجودگی میں مشکل نظر آتی ہے۔
ماضی میں کن افراد یا ممالک کو جنگی جرائم پر سزائیں دی گئیں؟
بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے حراست میں لیے گئے افراد کو آئی سی سی کے حراستی مرکز میں رکھا جاتا ہے، جو دی ہیگ کے شہر شیوننگن میں ہالینڈ کی ایک جیل کے اندر واقع ہے۔
آئی سی سی کی جانب سے جنگی جرائم کے مجرم قرار دیے گئے سربراہانِ مملکت میں روس کے صدر ولادمیر پوتن، سربیا کے سابق صدر سلوبودان میلوسویچ، لائبیریا کے سابق صدر چارلس جی ٹیلر، بوسنیا کے سابق سرب صدر رادووان کراڈزیچ، سوڈان کے سابق سربراہ مملکت عمر البشیر، لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی، پیرو کے سابق صدر البرٹو فوجیموری اور دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن ایڈمیرل اور صدر کارل ڈونیٹز اور جاپانی وزیر اعظم اور جنرل ہیڈیکی ٹوجو اور کونی آکی کوئسو وغیرہ شامل ہیں۔
Comments are closed.