- مصنف, محمود النجار
- عہدہ, بی بی سی عربی
- 2 گھنٹے قبل
اسرائیلی سرزمین پر تاریخ میں پہلی مرتبہ کیے جانے والے ایرانی حملے کی بعد بننے والے منظرِنامے پر کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ہار جیت تو کسی کی نہیں ہوئی لیکن یہ ’ڈرا‘ ایران کے حق میں ہوا ہے تاہم ایک رائے یہ بھی موجود ہے کہ اس حملے سے ایرانی حکومت کی کمزوری عیاں ہوئی ہے۔اسرائیلی فوج کے مطابق ایران نے سنیچر کی رات کو تقریباً 300 ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ ایرانی فوج کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اسرائیل پر حملہ ’دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر ہونے والے اسرائیلی حملے کے جواب میں کیا گیا تھا اور اس نے اپنے تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں۔‘واضح رہے شامی دارالحکومت دمشق میں یکم اپریل کو ایرانی قونصل خانے پر ہونے والے حملے میں پاسداران انقلاب کے سات اہلکار اور چھ شامی باشندے ہلاک ہوئے تھے۔ ایران نے اسرائیل کے اس حملے پر شدید ردِ عمل دینے کی دھمکی بھی تھی۔اسرائیل نے اب تک دمشق میں ایرانی قونصل خانے کو نشانہ بنائے جانے کی تصدیق نہیں کی ہے، تاہم کہا یہی جا رہا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل تھا۔
،تصویر کا ذریعہAtef Safadi / EPA
نقصان اور فائدہ
ایران نے اسرائیل پر حملے کو اپنی کامیابی قرار دیا ہے۔ لیکن لندن میں واقع ’سینٹر فار عرب، ایران سٹڈیز‘ سے منسلک ایرانی محقق نور علی زادہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر حملے سے ایران کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے ایرانی حکومت کی کمزوری عیاں ہوئی ہے کیونکہ ان حملوں میں اسرائیل کے اندر کسی بھی ہدف کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ان کے مطابق اسرائیل پر حملہ ایران میں بھی مذاق کا سبب بنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران اگر ’نفسیاتی جنگ‘ ہی جاری رکھتا تو زیادہ کامیابی حاصل کر سکتا تھا۔،تصویر کا ذریعہThe rubble of a destroyed building lies next to Iran’s consulate in Damascus on 1 April 2024
ایرانی حملے کے سبب اسرائیل مغربی ممالک کے مزید قریب آ گیا؟
ایرک روندسکی کے مطابق اسرائیل کو ایرانی حملے سے سیاسی فائدہ ہوا ہے کیونکہ متعدد مہینوں میں پہلی مرتبہ اسے مغربی حمایت مل رہی ہے جو کہ غزہ میں جاری جنگ کے سبب کم ہو گئی تھی۔ایرانی محقق علی نور زادہ کے نزدیک اسرائیل اور ایران کے درمیان تناؤ کے سبب تہران کو اندرونی اور بیرونی سیاسی ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایران پڑوسی ممالک کی حمایت بھی کھو چکا ہے اور اسے کسی بھی ملک کی طرف سے حمایت نہیں مل رہی۔علی نور زادہ نے اندیشے کا اظہار کیا کہ کچھ عناصر کی جانب سے امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دونوں محققین کا ماننا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی کیفیت کے سبب ایران اور اسرائیل دونوں کو اپنی، اپنی عوام کی طرف سے اندرونی دباؤ کا سامنا ہے۔ایرک روندسکی کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں اندرونی سیاسی معاملات کے حوالے سے لوگوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور پھر حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد کی عدم رہائی کے سبب یہ غصہ مزید بڑھ رہا ہے۔ایرانی محقق نور علی زادہ کے مطابق ایرانی حکام کو بھی اپنے ملک میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رہبرِ اعلیٰ پر نہ صرف عوام کی طرف سے دباؤ بڑھ رہا ہے بلکہ انھیں اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔’یہ دباؤ پاسدارانِ انقلاب کی طرف سے ہے کیونکہ ان کی القدس فورس کے سات افراد اسرائیل نے ہلاک کر دیے ہیں اور اب وہ بدلہ لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
’آگ کے ذریعے پیغام‘
لبنانی فوج کے سابق افسر اور دفاعی تجزیہ کار ہشام جابر نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’ایران کے حملے میں سب سے بڑا سرپرائز یہ تھا کہ اس میں کوئی سرپرائز نہیں تھا۔‘ان کا کہنا ہے کہ تقریباً دو ہفتوں سے ایران ’نفسیاتی جنگ‘ لڑ رہا تھا اور پھر فضائی حملے کیا جس کے سبب اسرائیل میں ’گھبراہٹ‘ بڑھی۔ہشام جابر کے مطابق ایران کے حملے نے اسرائیل کو نفسیاتی اور ظاہری نقصان پہنچایا کیونکہ اس کے سبب نہ صرف امورِ زندگی معطل ہوئے بلکہ اسرائیلی شہریوں کو گھر بھی چھوڑنا پڑے۔لبنانی سابق فوجی افسر کہتے ہیں کہ ایران کا ’آپریشن‘ دراصل ’آگ کے ذریعے پیغام‘ تھا جس کا مقصد یہ باور کروانا تھا کہ وہ اسرائیل پر حملے کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران نے اس حملے کے ذریعے اسرائیل کے نظامِ دفاع کو سمجھنے کی بھی کوشش کی ہے۔وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس حملے کے ذریعے ایران نے اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے جو کہ ’تعزویراتی برداشت کی پالیسی‘ کے سبب خراب ہوئی تھی۔ہشام جابر کے مطابق ایران کا دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ تمام ایرانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا، جس کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اور برطانوی فوج کو اسرائیل کی مدد کرنا پڑی۔ان کے مطابق ’اگر اسرائیل (ایرانی حملے کے جواب میں) عسکری ردِ عمل دینے کا انتخاب کرتا ہے تو اس کے میزائل ایرانی سرزمین تک پہنچ سکتے ہیں لیکن وہ متوقع شدید ایرانی ردِ عمل کے سبب زیادہ اندر تک نہیں پہنچ پائیں گے۔‘’اسرائیلی جہاز ایران پر بم گرا سکتے ہیں، لیکن انھیں عرب ممالک کے اوپر سے گزرنا ہوگا جنھیں ایران پہلے ہی خبردار کر چکا ہے، یا پھر اسرائیل کو ان حملوں کے لیے خطے میں موجود امریکی فوجی اڈے درکار ہوں، جنھیں استعمال کرنے کی اجازت امریکہ نہیں دے گا۔‘،تصویر کا ذریعہABEDIN TAHERKENAREH / EPA
ایرانی حملے سے اسرائیلی وزیرِاعظم کو سیاسی فائدہ پہنچا؟
لندن سکول آف اکنامکس سے منسلک بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر فواز گرگس کہتے ہیں کہ ان فضائی حملوں کے سبب ایران کے مقابلے میں اسرائیل کو زیادہ فائدہ ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں ایرانی حملے سے اسرائیل میں کوئی بڑا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا اور اب پورا مغرب اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔ان کے مطابق اب امریکہ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی، انٹیلی جنس تعاون اور مالی امداد کے لیے مغربی ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔فواز گرگس نے مزید کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اب اسرائیل کو مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس کی حمایت کے لیے جی سیون ممالک سے مدد مانگ رہے ہیں۔’نتن یاہو غزہ میں ہونے والے قیامت خیز اور سنگین واقعات سے لوگوں کی توجہ ہٹا کر سیاسی فائدہ حاصل کریں گے۔‘ان کے مطابق نتن یاہو اب مغربی ممالک خصوصاً امریکی صدر جو بائیڈن سے تعلقات بحال کریں گے۔ خیال رہے گذشتہ کچھ عرصے سے غزہ میں جاری جنگ کے سبب اسرائیل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔،تصویر کا ذریعہAmir Cohen / Reuters
اسرائیل کی سٹریٹیجک ناکامی؟
فواز گرگس کہتے ہیں کہ اسرائیل پر کیے گئے حملے سے ایران نے بھی فائدہ حاصل کیا۔ ان کے مطابق ایران نے اپنے لوگوں، اتحادیوں اور دشمنوں کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ وہ اسرائیل کا محاسبہ کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ ایران نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل تنہا اپنا دفاع نہیں کر سکتا بلکہ اسے ایرانی میزائل مار گرانے کے لیے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اردن کی مدد لینی پڑی۔فواز گرگس کا خیال ہے کہ حالیہ دور میں اسرائیل کا ایران کے خلاف کارروائیاں کرنے کا مقصد یہ باور کروانا تھا کہ ایران ایک کمزور ملک ہے جس میں اسرائیل سے لڑنے کی ہمت نہیں۔ان کے مطابق ایران کے حالیہ حملے نے اس تاثر کو یکسر زائل کردیا ہے۔’اب یہ پورا خطہ ایک طوفان کی زد میں ہے کیونکہ دونوں ممالک کشیدگی بڑھانے کے درپے ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.