’اسرائیل میں مایوسی اب غصے میں بدل چکی ہے‘: مغویوں کی رہائی کے لیے نتن یاہو کے خلاف مظاہروں نے کیسے زور پکڑا؟،تصویر کا ذریعہGetty Images2 گھنٹے قبلاسرائیل کی ایک مقامی عدالت نے اس ملک گیر ہڑتال کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے جس میں حماس کی قید سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اس ہڑتال کی وجہ سے اسرائیل میں کاروبار، سکول، یونیورسٹیاں اور ٹرانسپورٹ بند رہے اور اسرائیلی معیشت کو بھی نقصان ہوا ہے۔ اسرائیل کے مقامی میڈیا کے مطابق ہڑتال کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ہڑتال آج شام چھ بجے تک جاری رہے گی۔ تاہم عدالت نے مظاہرین کو اس سے ہڑتال ختم کرنے کا کہہ دیا ہے۔ دریں اثنا یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھانے والے اسرائیلی گروپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے یروشلم میں واقع اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کی رہائش گاہ اور دفتر کے باہر بھی احتجاج کریں گے۔

،تصویر کا ذریعہReuters

اسرائیل میں ملک گیر ہڑتال کی کال، کاروبار بند

حماس کے ہاتھوں ہرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی میں ’اسرائیلی حکومت کی ناکامی‘ کے بعد ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ہستادروت نے پیر کو ملک بھر میں ہڑتالِ عام کی کال دی تھی، جسے اسرائیل میں اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ کی بھی حمایت حاصل ہے۔اس دوران ملک میں مغویوں کی رہائی کے لیے مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں کا مقصد اسرائیلی حکومت کو غزہ میں مغویوں کی رہائی کے لیے مجبور کرنا ہے۔پیر کی صبح سے ہی ملک بھر میں ہڑتال جاری ہے، تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں کہ یہ کس حد تک کامیاب رہی ہے کیونکہ چند شہروں اور میونسپلیٹیز نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس ہڑتال کا حصہ نہیں بنیں گے۔تاہم ملک بھر میں زیادہ تر کاروبار، بینک اور حکومتی وزارتیں بند ہیں۔ اس ہڑتال کی حمایت اسرائیل بزنس فورم نے بھی کی تھی جو کہ ملک کے نجی شعبے کی کارکنوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کچھ نجی کمپنیوں کے مالکان اپنے عملے کو اس ہڑتال میں حصہ لینے کی اجازت دے رہے ہیں۔ ٹریڈ یونین ہستادروت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس وقت اسرائیل کے بین گورین ایئرپورٹ پر سوٹ کیسز کی بڑی تعداد دیکھی جا سکتی ہے۔ کچھ پروازوں کو آج صبح منسوخ کیا گیا ہے۔

بس اور لائٹ ریل سروسز کو کچھ علاقوں میں بند کر دیا گیا یا پھر بہت کم تعداد میں یہ چل رہی ہیں۔حیفہ کی مرکزی کاروباری بندرگاہ پر بھی احتجاج کر رہے ہیں۔

اسرائیل میں مظاہروں میں شدت کیوں آئی؟

سنیچر کو اسرائیلی فوج کو جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں زیرِ زمین سُرنگ سے چھ مغویوں کی لاشیں ملی تھیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان مغویوں کو فوجی اہلکاروں کے اس مقام پر پہنچنے سے پہلے قتل کیا گیا تھا۔اس خبر کے پھیلتے ہی اسرائیل میں اتوار کے روز احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نتن یاہو اور ان کی حکومت یرغمالیوں کو بچانے میں ناکام رہے ہیں۔ان مظاہروں کے درمیان ٹریڈ یونین ہستادروت کے سربراہ آرنن بار ڈیوڈ نے ملک میں ہڑتالِ عام کا اعلان کر دیا اور کہا کہ ملک کو کسی ’معاہدے کے بجائے بیگ میں بند لاشیں‘ مل رہی ہیں۔حکومت کی جانب سے ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں پر جارحانہ رویہ اپنایا گیا ہے۔ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیرِ خزانہ بزالیل سموتریچ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ٹریڈ یونین حماس کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں اسرائیلی وزیر نے لکھا کہ یہ ہڑتال ’سیاسی اور غیرقانونی‘ تھی۔،تصویر کا ذریعہReutersخیال رہے گذشتہ برس 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ عسکری تنظیم کے جنگجوؤں نے 251 افراد کو یرغمالی بھی بنالیا تھا۔

اسرائیلی حکومت اور وزیراعظم نتن یاہو کے خلاف غصہ

بی بی سی کے نامہ نگار پال ایڈمز کے مطابق اسرائیلی شہریوں کی مایوسی اب غصے میں بدل چکی ہے۔ کئی شہریوں کا ماننا ہے کہ حکومت حماس سے معاہدہ کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور جن یرغمالیوں کی موت ہوئی انھیں بچایا جاسکتا تھا۔ وزیر اعظم نتن یاہو پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے بار بار معاہدے میں رکاوٹیں ڈالیں۔ اسرائیل میں ملک گیر ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ملک میں یرغمالیوں کی ہلاکت پر پایا جانے والے غصے جلد ٹھنڈا نہیں ہوگا۔تل ابیب میں 23 سالہ خاتون نیوا کا کہنا تھا کہ ’ملک اس وقت ابھی بہت جارحانہ موڈ میں ہے، لیکن نتن یاہو سُن نہیں رہے۔‘گِل ڈکمین کے کزن کارمیل گیٹ بھی ان یرغمالیوں میں شامل تھے جن کی لاشیں سنیچر کو جنوبی غزہ میں ملیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’حماس کو برباد کرنا ایک اہم مقصد ہے لیکن یہ تب تک نہیں ہو سکتا جب تک یرغمالی وہاں موجود ہیں۔ حماس اپنے اثاثوں کو بچانے کے لیے ان یرغمالیوں کا استعمال کر رہی ہے۔‘شرون لیفشٹز کے والدین کو بھی 7 اکتوبر کے حملے کے دوران اغوا کیا گیا تھا اور غزہ لے جایا گیا تھا۔ ان کی والدہ کو تو رہا کردیا گیا تھا لیکن ان کے والد اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔شرون نے بی بی سی ریڈیو 4 کو بتایا کہ وہ اسرائیل میں احتجاجی مظاہروں کا خیرمقدم کرتی ہیں اور مطالبہ کرتی ہیں کہ بنیامین نتن یاہو کی حکومت ’اپنی سیاسی جماعتوں کے مفادات سے بالاتر‘ ہو کر کام کرے اور یقینی بنائے کے باقی یرغمالی بخیر و عافیت اپنے گھروں کو لوٹ آئیں۔’سمجھ سے بالا تر اس جنگ کو روکیں اور آگے بڑھ کر وسیع البنیاد طریقے سے کام کریں تاکہ خطے کے لوگ بھی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ سکیں۔‘حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق غزہ میں جاری جنگ کے دوران اب تک غزہ میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ان حالات میں امریکہ پر بھی غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کی کوششوں کو بڑھانے کے لے دباؤ بڑھ رہا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ مہینوں سے مصر اور قطر کی حکومتوں کے ساتھ ملک کر کام کر رہی ہے تاکہ کسی معاہدے پر پہنچا جا سکے۔حماس کی حراست میں موجود کچھ اسرائیلی شہری ایسے بھی ہیں جو کہ اسرائیلی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ایکس پر ایک پوسٹ میں امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے لکھا کہ ان کی حکومت خطے میں شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ یرغمالیوں کی آزادی کو ممکن بنایا جا سکے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}