نفتالی بینٹ کا یو اے ای کا دورہ: اسرائیل متحدہ عرب امارات کی دوستی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے والے پہلے اسرائیلی رہنما بن گئے ہیں۔ نفتالی بینیٹ ایران کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے ایک سال بعد ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن رائد نے اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور تجارتی تعلقات برھانا چاہتے ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کو ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے سخت تر موقف اپنانے کے لیے بھی کہیں گے۔ متحدہ عرب امارات کو بھی اسرائیل کی طرح ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے خدشات ہیں تاہم وہ تہران کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات گذشتہ سال وہ تیسرا عرب ملک بن گیا تھا جس نے امریکی مداخلت کے بعد اسرائیل کو مکمل طور پر تسلیم کر لیا ہے۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ملک میں سفیر بھیجے ہیں، اور لاکھوں ڈالروں کی مالیت کے تجارتی معاہدے کیے ہیں، جن میں دفاعی ساز و سامان اور ہتھیاروں کے حوالے سے معاہدے بھی شامل ہیں۔
اگرچہ اسرائیل سے روانہ ہوتے ہوئے نفتالی بینیٹ نے کہا تھا کہ وہ معاشی اور تجارتی تعلقات پر توجہ دیں گے تاہم اسرائیلی اخبار ہرٹز کا اس موقعے پر کہنا تھا کہ ان کی ملاقاتوں کا مرکز ایران ہو گا اور حال ہی میں اماراتی اور ایرانی حکام کی ملاقاتوں کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
گذشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات کے سیکیورٹی مشیر اور شیخ محمد کے بھائی، تہنون بن زیاد کی ایرانی صدر ابراہیم رسائی سے ملاقات ہوئی تھی۔
شیخ تہنون نے کہا تھا کہ انھیں امید ہے کہ ان کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لیے ایک اہم موڑ ہو گا۔
ماضی میں متحدہ عرب امارات نے ایران کے حوالے سے قدرے سخت موقف اپنایا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات نے بھی 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلہ کی حمایت کی تھی کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکل جائیں۔
اس معاہدے کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے ان کے خلاف اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔
امریکہ کے معاہدے سے نکل جانے کے بعد اور صدر ٹرمپ کی جانب سے پابندیوں کی مکمل واپسی کے بعد سے ایران نے معاہدے میں طے شدہ مقدار سے زیادہ یورینیئم افزودہ کرنا شروع کر دی ہے۔
ایران کا اصرار ہے کہ ان کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے تاہم اس وقت وہ یورنیئم کو اس حد تک افزودہ کر رہا ہے جو کہ جوہری بم بنانے کے لیے درکار حد کے بہت قریب ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کہہ چکے ہیں کہ ویانا میں جہاں عالمی طاقتیں امریکہ کو اس معاہدے میں واپس لانے کے لیے کوشاں ہیں ادھر ایران مذاکرات میں جوہری بلیک میل کو بطور لائحہ عمل استعمال کرتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ صدر بائیڈن ان مذاکرات کو ختم کر کے ایران کے خلاف کارروائی کریں جن میں سخت تر اقتصادی پابندیاں اور ممکنہ عسکری حملے شامل ہیں۔
ادھر متحدہ عرب امارات نے ایسے اقدامات کی مخالفت کی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی لائی جائے۔
اسرائیل اور عرب ممالک کیوں دوستی کر رہے ہیں؟
گذشتہ سال جب پوری دنیا کورونا وبا کی لپیٹ میں تھی، اس وقت مشرق وسطیٰ میں ایک نیا مستقبل بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کوششوں کا مرکز تھے۔
15 ستمبر 2020 کو اسرائیل کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے۔ سات دہائیوں کے دشمنوں کے درمیان برف کا پگھلنا بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل یقین خبر تھی۔
اس امن معاہدے کی تقریب میں بحرین کے وزیر خارجہ نے بھی شرکت کی۔ بعد ازاں بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ بھی کیا۔
اس کے بعد بعض دیگر خلیجی ممالک نے بھی اسرائیل کی دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد مراکش اور سوڈان نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔
امریکی ہتھیار متحدہ عرب امارات کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے ایڈیٹر جیریمی بوون کے مطابق، امریکہ نے متحدہ عرب امارات کو جدید ترین F-35 لڑاکا طیارے اور EA-18G گراؤلر الیکٹرانک جنگی طیارے دینے کا وعدہ کیا۔
متحدہ عرب امارات کو یقین ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوئے تو یہ تمام جدید ترین ہتھیار امریکہ سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی افواج لیبیا اور یمن میں خانہ جنگی میں تعینات ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا اور سب سے طاقتور دشمن ایران ہے، جو خلیج فارس میں شیعہ اکثریتی ملک ہے۔
پنک رنجن چکرورتی، جو ایک ریٹائرڈ انڈین فارن سروس آفیسر ہیں اور قاہرہ، جدہ، ریاض اور تل ابیب میں کام کر چکے ہیں۔ خلیجی ممالک کی سیاست اور سفارتی حکمت عملی کے ماہر رنجن چکرورتی کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اپنے موجودہ حکمران شیخ محمد بن زید النہیان کی قیادت میں ایک پرعزم ملک ہے۔
تو کیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں پہل خلیجی خطے میں متحدہ عرب امارات کی اہمیت میں اضافہ کرے گا؟
پنک چکرورتی کہتے ہیں ‘شیخ زید ایک وژنری لیڈر ہیں۔ انھوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ان کے اس طرح کے اقدامات کو بہت سے ممالک نے پسند نہیں کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے معاملے پر امارات کی حمایت کرتا ہے۔‘
کاروباری مواقع
اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں رہنے والے انڈین صحافی ہریندر مشرا کا کہنا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام خلیجی ممالک اور اسرائیل کو قریب لا رہا ہے لیکن یہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات دونوں کے لیے اقتصادی موقع بھی ہے۔
ہریندر مشرا نے تل ابیب سے فون پر بی بی سی ہندی کو بتایا ‘میں نے ستمبر 2020 میں معاہدے کے بعد پہلی بار خلیجی ممالک سے چھٹیاں گزار کر واپس آنے والے اسرائیلیوں سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں وہاں کاروبار کے بہت سارے مواقع نظر آتے ہیں۔ اقتصادی تعلقات کو لے کر لوگوں میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔‘
پنک چکرورتی کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ہوا کا رخ ضرور بدل رہا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر بھی متفق ہے۔
اگر ہوا کا رخ بدل رہا ہے تو خلیج کے سب سے طاقتور اور بااثر ملک سعودی عرب کا کردار کیا ہے؟
ایران کو یمن کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کے کردار پر بھی تشویش ہے۔ ایران کی امداد یمن میں حوثی باغیوں تک پہنچ رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں آنے والی تبدیلیوں میں پس پردہ سعودی عرب کا کردار ہے۔
اسرائیل کے مفادات
خلیجی ممالک سے تعلقات بہتر کرنے سے اسرائیل کو کیا ملے گا؟ مصر اور اردن کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات 1979 سے پہلے سے موجود ہیں لیکن ان میں کبھی بھی اتنی گرم جوشی نہیں رہی۔
مسئلہ فلسطین پر سخت بیان بازی اکثر منظر عام پر آتی رہی ہے۔ یہ نئی شروعات اسرائیل کے لیے ایک سنگ میل ہے، جو کئی دہائیوں سے الگ تھلگ، پورے خطے میں دوستوں کی تلاش میں ہے۔
دوسری اہم وجہ ایران ہے۔ لیکن ایران کے لیے خلیجی ممالک اور اسرائیل میں یہ گرم جوشی پریشانی کا باعث ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار جیرمی بوون کہتے ہیں، ‘اسرائیل ایران کو اپنا نمبر ایک دشمن سمجھتا ہے۔ نیتن یاہو (سابق اسرائیلی وزیر اعظم) بھی کئی بار ایران کا موازنہ نازیوں سے کر چکے ہیں۔‘
تجزیہ کار بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل اور خلیجی ممالک کے درمیان قربت کا ایک اہم عنصر ایران ہے۔ پنک چکرورتی کہتے ہیں کہ ‘سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سبھی ایران کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں فکر مند ہیں۔
اسرائیل ویانا میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری مذاکرات کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام میں اس حد تک آگے بڑھ گیا ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘
لیکن اسرائیل متحدہ عرب امارات میں اپنی معیشت کے لیے ایک منڈی بھی دیکھتا ہے۔ اسرائیل میں رہنے والے صحافی ہریندر مشرا نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اور وزیر اعظم کا اس وقت دورہ اسرائیل کے لیے سیاسی اور اقتصادی طور پر بہت اہم ہے۔
وہ کہتے ہیں، ‘متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے کا فیصلہ کافی حیران کن تھا۔ اس کے بعد کچھ دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔ اسرائیل کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اب اس کی علاقائی تنہائی ختم ہو گئی ہے۔ اردن اور مصر کے ساتھ تعلقات پہلے بھی تھے لیکن ان میں وہ گرمجوشی نہیں تھی۔‘
گذشتہ سال ستمبر 2020 میں طے پانے والے اس معاہدے سے قبل کوئی بھی اسرائیلی جہاز خلیج میں کسی بھی ملک کی فضائی حدود سے پرواز نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن پچھلے ایک سال میں ہر روز کئی پروازیں اسرائیل سے دبئی جیسے مصروف ہوائی اڈوں کی طرف موڑ رہی ہیں۔
Comments are closed.