ہفتہ10؍شوال المکرم 1442ھ 22؍ مئی 2021ء

اسرائیل فلسطین تنازع: ‘خان یونس کے قصائی’ یحییٰ السنوار کے گھر پر حملہ

اسرائیل فلسطین تنازع: ‘خان یونس کے قصائی’ کہے جانے والے حماس کے رہنما یحییٰ السنوار کے گھر پر حملہ

  • سندھو واسوانی
  • بی بی سی ہندی، دہلی

یحیی السنوار

،تصویر کا ذریعہMOHAMMED ABED/AFP VIA GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

59 سالہ یحیی ابراہیم حسن السنوار غزہ پٹی میں فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ ہیں

‘جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہمارے مفاد میں تو ہر گز نہیں۔ کون ایٹمی طاقت سے لیس ملک کا غلیل سے مقابلہ کرنا چاہے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ وار رپورٹر ہیں۔ کیا آپ کو جنگ پسند ہے؟’

ایک بار یہ باور کرنا مشکل ہوگا کہ یہ کسی ایسے شخص نے کہا تھا جسے دشمن کے کیمپ میں ‘خان یونس کا قصائی’ کہا جاتا ہو۔

فلسطینی شدت پسند تنظیم حماس کے رہنما یحییٰ السنوار نے یہ باتیں سنہ 2018 میں اطالوی اخبار ‘لا ریببلیکا’ کی رپورٹر فرانسسکا بوری کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی تھیں۔

یہ شاید پہلا اور آخری وقت تھا جب شدت پسند سمجھے جانے والے اس حماس رہنما نے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں فلسطینیوں کے نقصان کی کھل کر بات کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

غزہ میں جاری تنازعے کے دوران اسرائیلی فوج نے حال ہی میں حماس کے متعدد رہنماؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان حملوں میں یحییٰ اسنوار کا مکان بھی تباہ ہوا ہے۔ تاہم بیان میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آیا یحییٰ السنوار حملے کے وقت گھر میں تھے یا نہیں اور انھیں کوئی نقصان پہنچا یا نہیں۔

اس خبر کے بعد بین الاقوامی میڈیا میں یحییٰ اسنوار کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔

یحییٰ السنوار کون ہیں؟

59 سالہ یحیی ابراہیم حسن السنوار غزہ پٹی میں فلسطینی شدت پسند تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ ہیں۔ وہ سنہ 2017 سے حماس پولٹ بیورو کے ممبر بھی ہیں۔

یوروپی کونسل برائے فارن ریلیشنس سے وابستہ ویب سائٹ ‘میپنگ فلسطینین پالیٹکس’ کے مطابق یحییٰ السنوار حماس کے پولٹ بیورو کو اسکے فوجی ونگ ‘عزالدین القسام بریگیڈ’ (آئی کیو بی) سے منسلک رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ سنہ 1988 میں حماس کی داخلی سکیورٹی فورس ‘المجید’ کے قیام میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔

یحییٰ السنوار اسرائیل کے ساتھ اپنی ‘سخت دشمنی’ والے رویہ کے لیے جانے جاتے ہیں۔

یحیی السنوار

،تصویر کا ذریعہASHRAF AMRA/ANADOLU AGENCY/GETTY IMAGES

اسرائیل۔فلسطینی امور کے ماہرین کے مطابق یحییٰ اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی بات کرنے والے کسی کو بھی نہیں بخشتے۔

سنہ 2015 میں امریکہ نے انھیں ‘خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گردوں’ (ایس ٹی جی ٹی) کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

پناہ گزین کیمپ میں پیدائش اور اسرائیل میں 24 سال جیل

یحییٰ السنوار سنہ 1962 میں موجودہ جنوبی غزہ پٹی میں واقع خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت اس خطے پر مصر کا غلبہ تھا۔

اسلامی یونیورسٹی غزہ سے عربی میں گریجویشن کرنے والے السنوار کو اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے سنہ 1982 میں سیاسی افراتفری کے درمیان اس وقت گرفتار کیا جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تھا۔

گرفتاری کے بعد انھیں کئی ماہ جیل میں گزارنا پڑی اور وہاں پر ان کی متعدد فلسطینی مظاہرین سے ملاقات ہوئی۔

انٹرویو

،تصویر کا ذریعہFRANCESCA BORRI/FACEBOOK

،تصویر کا کیپشن

اطالوی اخبار ‘لا ریببلیکا’ کی رپورٹر فرانسسکا بوری نے سنہ 2018 میں یحی سے انٹرویو کیا تھا

دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ویسٹ ایشین سٹڈیز کے استاد اور عرب اسرائیلی امور کے پروفیسر آفتاب کمال پاشا کا کہنا ہے کہ اس جیل سے یحییٰ السنوار نے فلسطینیوں کے لیے اپنی زندگی کو وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔

امریکی اسرائیلی کوآپریٹو انٹرپرائز (اے آئی سی ای) سے منسلک جوئش ورچوئل لائبریری کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق یحییٰ نے سنہ 1985 میں حماس کے سکیورٹی ونگ کی بنیاد رکھی۔

سکیورٹی ونگ کا ایک کام ان فلسطینیوں کو بھی سزا دینا تھا جن پر اسرائیل سے ساز باز کا شبہ یا الزام لگاہو۔ کہا جاتا ہے کہ یحییٰ السنوار اسرائیل کی مدد کرنے والے مشتبہ فلسطینیوں کو ہلاک کراتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اسرائیل میں انھیں ‘خان یونس کا قصائی’ کہا جانے لگا۔

سنہ 1988 میں یحییٰ کو دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا اور قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس بار انھیں مجرم قرار دیتے ہوئے چار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

اس کے بعد انھوں نے اسرائیل کی ایک جیل میں تقریباً 24 سال گزارے۔

یحیی السنوار

،تصویر کا ذریعہNURPHOTO/GETTYIMAGES

اپنی ہی رہائی کے خلاف احتجاج

سنہ 1988 کے بعد یحییٰ کو ‘قیدی ایکسچینج پروگرام’ کے تحت سنہ 2011 میں جیل سے رہا کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ہی رہائی کی سخت مخالفت کی۔

اس معاہدے کے تحت حماس نے ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں صرف ایک اسرائیلی فوجی کی رہائی پر اتفاق کیا تھا اور اسرائیل اس کے لیے تیار تھا۔

تبادلہ پروگرام کے مطابق حماس نے سنہ 2006 میں مغوی اسرائیلی فوجی گیلاد شالت کو رہا کیااور اس کے بدلے میں ایک ہزار فلسطینیوں کو رہا کیا گیا تھا۔

ایک ہزار فلسطینیوں کے بدلے صرف ایک اسرائیلی فوجی کی رہائی کے بعد کسی کو بھی یہ محسوس ہوگا کہ یہ معاہدہ حماس کے حق میں تھا لیکن یحییٰ کا اس سے متفق نہیں تھے۔

یروشلم میں ایک سینیئر صحافی اور اسرائیل فلسطین کے امور کے ماہر ہریندر مشرا نے بی بی سی کو بتایا: ‘یحییٰ کا خیال تھا کہ حماس کے لیے اسرائیلی فوجی کو چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ ایک طرح سے انھوں نے خود ہی ان کی رہائی کی مخالفت کی۔’

یحیی السنوار

،تصویر کا ذریعہANADOLU AGENCY/GETTYIMAGES

اسرائیل کے متعلق بدلتی حکمت عملی

یحییٰ السنوار نے رہائی کے بعد سنہ 2017 میں حماس کے سیاسی ونگ کے انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔

پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ اس وقت سے اب تک اسرائیل کے بارے میں ان کی حکمت عملیوں میں مستقل تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر ان کا رویہ جارحانہ ہی رہا ہے۔

اے کے پاشا نے کہا: ‘الیکشن جیتنے کے بعد انھوں نے فلسطینی صدر محمود عباس کے خیالات کی کھل کر مخالفت کی۔ یحییٰ نے واضح طور پر کہا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کے قیام امن کے عمل کے لیے تیار نہیں ہے۔’

تاہم اس کے بعد انھوں نے محمود عباس سے بات کرنا شروع کردی۔ صرف یہی نہیں انھوں نے غزہ میں قائم کردہ انتظامی کمیٹی کو بھی ختم کردیا۔

اے کے پاشا کے مطابق محمود عباس سے بات کرنے کے بعد یحییٰ کی آواز قدرے نرم ہونے لگی۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘اس وقت یحییٰ نے حماس کے رہنما محمد دیف کی اس حکمت عملی کو مسترد کردیا جس میں دیف نے حماس کے ممبروں کو زیرزمین سرنگوں کے ذریعے اسرائیل بھیجنے کی تجویز پیش کی تھی۔ یحییٰ نے کہا کہ ایسا کرنا خود کشی کے مترادف ہوگا۔’

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

‘گریٹ مارچ آف ریٹرن’ اور چونکا دینے والا انٹرویو

ان سب کے بعد بھی ، یحییٰ السنوار نے اپنی پالیسی کے بالکل برعکس فیصلہ کیا۔ انھوں نے ‘گریٹ مارچ آف ریٹرن’ کے نام سے ایک مظاہرے کا اعلان کیا۔

اس کے تحت یحیی نے فلسطینیوں سے بڑی تعداد میں ہر جمعے کی نماز کے بعد غزہ کی سرحد پر مظاہرہ کرنے اور ‘ہم یہاں واپس آرہے ہیں، یہ ہماری سرزمین ہے’ کا نعرہ لگانے کے لیے کہا۔

یہ مظاہرہ اتنے بڑے پیمانے پر ہوا کہ اسے بین الاقوامی میڈیا میں بھی کوریج ملی۔

اس کے بعد یحییٰ کے لہجہ میں ایک بار پھر تبدیلی آئی۔ سنہ 2018 میں انھوں نے اطالوی اخبار لا ریپبلیکا کی رپورٹر کو انٹرویو دیا جس کا مضمون کے آغاز میں ذکر کیا گیا ہے۔

شاید یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے کسی مغربی میڈیا انسٹی ٹیوٹ کو انٹرویو دیا تھا۔

فلسطین

،تصویر کا ذریعہEPA

اس انٹرویو میں یحییٰ نے کہا کہ حماس اب ‘عدم تشدد کے احتجاج’ کی راہ اپنائے گی اور وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

اس انٹرویو کے بارے میں بہت باتیں ہوئيں اور ان کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی گئیں لیکن اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ یحیی کی نرمی کے پیچھے دراصل قطر اور مصر کا دباؤ تھا۔

انھوں نے کہا: ‘جب حماس کے رہنما اور فلسطین کے سابق ایگزیکٹو وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ قطر گئے تو یحیی پر قطر کا اثر و رسوخ بھی بڑھ گیا۔

‘قطر اور مصر نے بنیاد پرست رویہ کو نرم کرنے اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ حماس کی مسلح مزاحمت کی کامیابی مشکل ہے اور اسرائیل کے ساتھ بات چیت ضروری ہے۔’

فلسطین

،تصویر کا ذریعہEPA

زبردست یادداشت اور ‘لوگوں کا خیال’ کرنے والے رہنما

رواں سال مارچ میں یحییٰ نے ایک بار پھر حماس کی شوریٰ کونسل کا انتخاب جیت لیا اور اگلے چار سالوں تک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ بن گئے۔

یروشلم میں موجود صحافی ہریندر مشرا نے اس انتخاب کے دوران غزہ کے مقامی لوگوں سے بات کی اور یحییٰ کے بارے میں ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔

انھوں نے کہا: ‘عام لوگوں میں یحییٰ السنوار کی شبیہہ ایک دیانتدار، خیال رکھنے والے، سادگی پسند اور فلسطین کے لیے زندگی وقف کرنے والے رہنما کی ہے۔’

تاہم ہریندر کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے دبی زبان میں ناراضگی کا اظہار بھی کیا کہ غزہ میں زمینی حالات اتنے خراب ہونے کے باوجود حماس نے لوگوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی فوجی طاقت بڑھانے پر زور دیا۔

پروفیسر اے کے پاشا کے مطابق یحییٰ السنوار حماس کے ایک مقبول اور انتہائی چالاک رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی یادداشت بہت تیز ہے اور انھیں برسوں قبل اپنی گفتگو کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات بھی یاد ہیں۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یحییٰ کے ‘ہم شکل’ اور ایک ہی نمبر کی کاریں

اسرائیلی فوج نے یحییٰ السنوار کے گھر پر حملہ کرنے اور اسے تباہ کرنے کی بات کہی ہے، لیکن حملے کے بعد ان کی حالت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔

حماس نے بھی یحییٰ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی ہے۔

حماس کے ذرائع سے باخبر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ یحیی بچ گئے ہوں۔

اے کے پاشا نے بتایا: ‘یہاں تک کہ اگر کوئی مرا بھی ہوگا تو ہوسکتا ہے کہ وہ یحییٰ کا ڈمی (ہمشکل) ہو۔’

ہریندر مشرا نے وضاحت کی کہ حماس کے تقریباً تمام بڑے رہنماؤں کے ہم شکل موجود ہیں جو اسرائیلی فوج اور خفیہ ایجنسی کو دھوکے میں رکھنے کے لیے ایک ہی نمبر پلیٹ کی مختلف کاروں میں چلتے ہیں۔

اگر یحییٰ السنوار کو مارے گئے تو؟

ہریندر مشرا کا کہنا ہے کہ اگر یحییٰ اسرائیلی حملے میں مارے گئے تو یہ حماس کے لیے یقیناً ایک دھچکہ ہوگا۔

وہ کہتے ہیں: ‘یحییٰ السنوار ایک ایسے شخص ہیں جن کی حماس کے فوجی ونگ پر اتنی مضبوط گرفت ہے جتنی سیاسی ونگ پر۔ ایسی صورتحال میں ان کی موت سے حماس کو نقصان پہنچے گا۔’

جبکہ اے کے پاشا کا خیال ہے کہ یحییٰ کے جانے کے بعد حماس کی کمر ٹوٹ جائے گی ایسا بھی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا: ‘حماس کا اپنا ایک پولٹ بیورو ہے۔ بہت سے تربیت یافتہ کمانڈر موجود ہیں جو کسی بھی وقت قیادت سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔’

حماس کے بہت سے رہنما واقعتاً مارے گئے ہیں؟

اسرائیلی فوج گذشتہ ایک ہفتے سے حماس کے بہت سارے سرکردہ رہنماؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ تاہم اس فہرست میں یحییٰ کا نام شامل نہیں ہے۔

ہریندر مشرا کا کہنا ہے کہ ‘عام طور پر اگر اسرائیل نے حماس کے رہنما کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے اور وہ خبریں جھوٹی ہیں تو حماس کسی طرح سے اس کی تردید کرتی ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا ہے۔’

اس بار حماس نے ابھی تک اسرائیل کے ان دعوؤں پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس نے بہت سارے اعلیٰ رہنماؤں کو ہلاک کیا ہے۔

اسی وجہ سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کہیں واقعی کسی اسرائیلی حملے میں ان کی موت تو نہیں ہوگئی ہے۔

ہریندر مشرا کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں رہنماؤں کو کھونا حماس کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوسکتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.