اسرائیل غزہ کی پٹی کو دو حصوں میں کیوں تقسیم کرنا چاہتا ہے؟

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’آج ایک غزہ شمال میں ہے اور ایک غزہ جنوب میں۔‘

اتوار کی رات اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگاری کے اس بیان نے ایک ایسی پیشرفت کی تصدیق کی جو حالیہ دنوں میں کافی واضح ہو رہی ہے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب غزہ پر اسرائیلی بمباری میں شدت آ رہی تھی۔ غزہ میں موجود صحافی رشدی عبوالوف اس حقیقت کے گواہ ہیں جن کے مطابق اسی رات انٹرنیٹ کا بلیک آؤٹ بھی ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک مشکل رات تھی‘ اور اگرچہ سوموار کو انٹرنیٹ کی سروس بحال ہو گئی تھی تاہم غزہ شہر سے معلومات کا حصول کافی مشکل تھا۔

دوسری جانب غزہ شہر کے الشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ لوگ اپنی گاڑیوں اور گدھوں پر لاشیں ہسپتال منتقل کر رہے تھے کیوں کہ بلیک آوٹ کے بعد ایمبولنس سروس بند ہو گئی تھی۔

اس رات اسرائیلی بمباری سے 200 افراد ہلاک ہوئے۔

اسرائیلی فوج کا دعوی ہے کہ حماس شمالی غزہ میں ہسپتالوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے تاہم الشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اس ہسپتال کا جائزہ لے سکتی ہے۔

سوموار تک غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بمباری کے آغاز سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10022 ہو چکی ہے۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

غزہ کی دو اہم سڑکیں

گزشتہ ہفتے غزہ کی پٹی کی مرکزی شاہراہ صلاح الدین ہائی وے، جو شمالی حصے کو جنوبی حصے سے جوڑتی ہے، پر ایک ٹینک نظر آیا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار پال ایڈمز کا کہنا ہے کہ اس سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ شمالی غزہ کو جنوب سے الگ کرنا اسرائیل کی ترجیح ہے۔

اس واقعے کے بعد صلاح الدین شاہراہ اور ساحل کے درمیان کھلے علاقے میں شدید لڑائی کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔

اس علاقے میں موجود متعدد عمارات، جیسا کہ ترکی کا فرینڈ شپ ہسپتال، لڑائی کی زد میں آ گیا۔ الاظہر یونیورسٹی کی نئی شاندار عمارت جو مراکش اور سعودی عرب کی مالی مدد سے بنی تھی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔

پال ایڈمز کے مطابق شمالی غزہ اور جنوبی غزہ کے درمیان رابطے کا ایک اور ذریعہ الرشید ہائی وے ہے جو ساحل کے قریب سے گزرتی ہے اور گزشتہ ہفتے یہ شاہراہ بھی اسرائیلی بکتر بند گاڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔

غزہ میں حملے

اسرائیل کی جانب سے عام شہریوں کو شمالی غزہ سے جنوب میں منتقل ہونے کی ہدایات کے باوجود یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں ہر جگہ اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے۔

ہفتے کے دن غزہ کے وسط میں موجود پناہ گزین کیمپ پر ہونے والے حملے نے اس بات پر مہر ثبت کر دی تھی۔

تاہم اسرائیلی فوج کی توجہ کا مرکز غزہ شہر کا گنجان آباد علاقہ ہے۔ اس کے علاوہ جبالیہ اور الشاتی پناہ گزین کیمپوں پر بھی اسرائیلی فوج کی نظر ہے اور اس کا ماننا ہے کہ یہ علاقے حماس کا مرکزی گڑھ ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے حالیہ دنوں میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی زمینی کارروائی اب غزہ شہر کی مضافات سے آگے بڑھ چکی ہے جس کا مکمل گھیراؤ کیا جا چکا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ کے شمال میں موجود تین لاکھ عام شہریوں کو جنوب کی جانب منتقل ہونے کی بار بار تلقین جاری ہے تاہم ایسے افراد جو کسی بھی وجہ سے اس علاقے کو نہیں چھوڑ سکتے اب ایک شدید لڑائی کی زد میں جینے پر مجبور ہیں۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یرغمالیوں کے اہلخانہ کی تکلیف

سوموار کو غزہ اور مصر کے درمیان موجود رفح سرحد غیر ملکی شہریوں اور زخمیوں کے لیے کھولی گئی تھی۔

سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے ردعمل میں ہونے والی اسرائیلی کارروائی کے بعد غزہ سے نکلنے کا یہ واحد راستہ باقی ہے۔

دوسری جانب اسرائیل میں حکومت سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ خواتین، بچوں اور عمر رسیدہ افراد سمیت 240 مغویوں کی رہائی کے لیے کوششیں کی جائیں۔

ایڈوا آڈار، جن کی 85 سالہ دادی کو حماس نے مغوی بنا لیا تھا، نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں اسرائیل کے زمینی حملے کے دوران یرغمالیوں کو چھڑوا لیا جائے گا۔

فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر اسرائیل غزہ پر زمینی حملہ کر رہا ہے تو صرف اس لیے کہ یرغمالیوں کو واپس لا سکیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میں اس پر یقین نہ کروں تو میں امید نہیں رکھ سکتا اور امید کے بغیر میرے پاس صبح اٹھنے کی کوئی اور وجہ نہیں۔ میں یقین کرنا چاہتا ہوں کہ وہ واپس آئیں گی۔‘

جیریمی بوین کا تجزیہ

امریکی سیکرٹری خارجہ انتونی بلنکن مشرق وسطی میں موجود ہیں۔ سوموار کو وہ انقرہ میں ترکی کے سربراہان سے بات چیت کر رہے تھے۔

ایک جانب انھوں نے فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو کہا کہ جنگ کے بعد ان کی تنظیم کو غزہ میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

انتونی بلنکن نے غرب اردن میں آباد کاروں کی پرتشدد کارروائیوں کی مذمت بھی کی اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی ہو۔

انتونی بلنکن نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے اسرائیل کو بتایا ہے کہ سو فیصد عسکری اور سفارتی حمایت کے بعد ان کو عالمی قوانین کی پابندی کرنا ہو گی تاہم مجھے زمین پر زیادہ تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔

امریکہ فی الحال ایران اور اس کے اتحادیوں کو جنگ میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ