boyne tannum hookup rules casusl hookup review free amarillo hookups best hookup apps that aren't a scam gay vegas hookup hookups skateboards shirts

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

اسرائیل عرب جنگ کا ’ہیرو‘ موشے دایان جس نے انڈیا کا خفیہ دورہ کیا

موشے دایان: اسرائیل کی چھ روزہ جنگ کا ‘ہیرو’ موشے دایان جس نے انڈیا کا خفیہ دورہ کیا

  • ریحان فضل
  • بی بی سی ہندی

موشے دایان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دنیا کی سب سے بڑی وارننگز بھی کسی بھی شہر کے لوگوں کو فضائی حملوں سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں کرتیں۔ جب پہلی بار فضائی حملے کا سائرن بجتا ہے تو عام طور پر لوگ اس پر یقین نہیں کرتے۔

پانچ جون 1967 کی صبح جب اسرائیلی طیاروں نے قاہرہ پر حملہ کیا تو بازاروں کی چہل پہل میں کوئی کمی نہیں آئی۔

اس حقیقت کے باوجود کہ اس سے ایک رات قبل صدر ناصر نے اسرائیل کے خلاف مصر اور اردن کے اتحاد میں عراق کی شمولیت کا خیر مقدم کیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ‘ہم لڑنے کے لیے بے تاب ہیں تاکہ اسرائیل کو اس کے خوابوں سے بیدار ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔’

دوسری جانب اسرائیل کے سب سے بڑے شہر تل ابیب میں لوگوں کا بھی یہی حال تھا۔ تین روز قبل ایک آنکھ والے ‘ہیرو آف دی سینائی’ یعنی موشے دایان کو اسرائیل کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انھوں نے عہدہ سنبھالتے ہی یہ بیان بھی دیا تھا کہ ‘یہ عرب ممالک پر حملے کا صحیح وقت نہیں ہے۔’

جب تل ابیب میں حملے کے لیے طیارے اڑان بھرنے لگے تو وہاں کے لوگوں نے سمجھا کہ یہ محض ایک مشق ہے۔ لیکن یہ کوئی مشق نہیں تھی۔

صبح کے فضائی حملے میں اسرائیلی فضائیہ نے عرب ممالک کی پوری فضائیہ کو تباہ کر دیا تھا۔ صاف صحرا میں فضائی کوور کے بغیر مصری ٹینک اور توپ خانے اسرائیلی طیاروں کے لیے محض ایک طرح کی ‘ٹارگٹ پریکٹس’ ثابت ہوئے۔

اسرائیلی حملہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پوری مصری فضائیہ ایک ہی دن میں تباہ

اس حملے میں روس میں بنائے گئے 200 مگ 21 طیارے ٹیک آف سے قبل رن وے پر ہی تباہ ہو گئے۔ اسی دوران اسرائیلی طیاروں نے اردن، شام اور عراق میں فضائی اڈوں پر بھی بم گرائے۔

صرف ایک دن کے اندر مصر نے اپنے 300 طیارے کھو دیے تھے۔ اس کے ساتھ شام کے 60، اردن کے 35 اور عراق کے 16 طیارے بھی مار گرائے گئے۔ اسرائیل کے 400 طیاروں پر مشتمل فضائیہ میں سے صرف 19 تباہ ہوئے اور وہ تمام کے تمام زمینی طیارہ شکن گولہ باری کا نشانہ بنے۔

اسرائیل کی اس مکمل فتح کا کریڈٹ نئے وزیر دفاع بننے والے موشے دایان کو دیا گیا۔ جب اپوزیشن لیڈر میناچم بیگن نے اسرائیلی وزیر اعظم ایشکول سے کہا تھا کہ ‘اگر آپ موشے دایان کو وزیر دفاع بناتے ہیں تو آدھے گھنٹے کے اندر پورا ملک آپ کے پیچھے کھڑا ہو جائے گا۔’

ایشکول نے دایان کو پسند نہ کرنے کے باوجود بیگن کے مشورے کو قبول کیا اور یکم جون سنہ 1967 کو انھوں نے دیان کو اپنی کابینہ میں وزیر دفاع مقرر کیا۔

اسرائیلی حملہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نظم و ضبط اور وقت کی پابندی

موشے دایان کی سوانح عمری میں شبتائی ٹیویتھ لکھتی ہیں: ‘اس نے فوجی افسران سے ملاقات کے لیے شام سات بجے کا وقت مقرر کیا تھا۔ لیکن اس وقت تک کچھ فوجی افسران میٹنگ کے لیے نہیں پہنچ سکے۔‘

جب انھیں بتایا گیا کہ میٹنگ میں مزید وقت لگے گا کیونکہ کچھ لوگ نہیں پہنچ سکے ہیں تو موشے دیان نے جواب دیا، آپ نے مجھے سات بجے آنے کو کہا تھا۔ تو میں ابھی میٹنگ شروع کروں گا۔ لیکن میں پہلے آپ کے منصوبے دیکھنا چاہوں گا۔ اگر آپ کے پاس ہے تو مجھے دکھائیں۔ اس کے بعد میں آپ کو اپنا پلان بتاؤں گا۔

سرورق

،تصویر کا ذریعہHimalayan Books

اپنی فوج سے انھیں اپنا حکم ماننے کی اس قدر توقع تھی کہ ایک بار جب ان کے حکم کے خلاف ان کے سپاہیوں کی ایک بریگیڈ مشرق کی طرف دریائے اردن تک بڑھ گئی تو انھوں نے اسے پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ان کی فوجیں اردن میں داخل نہ ہوں انھوں نے دریا پر بنے پل کو دھماکے سے اڑانے کا حکم دے دیا۔

موشے دایان چھ روزہ جنگ کے خاتمے کے بعد اگلے چھ سال تک اسرائیل کے بادشاہ کی طرح رہے۔ اسرائیل کے لوگوں نے انھیں اپنے سر پر بٹھایا اور ہمیشہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا رہا کہ ایک دن وہ اسرائیل کے وزیراعظم بنیں گے۔

موشے دایان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آنکھ میں گولی مار دی

20 مئی سنہ 1915 کو پیدا ہونے والے موشے دایان نے اپنے کیریئر کا آغاز زیر زمین یہودی تحریک ‘ہگاناہ’ کے رکن کے طور پر کیا۔ بعد میں انھوں نے شام میں آسٹریلیا کی جانب سے ویچی فرانسیسیوں کے خلاف جنگ کی۔

آٹھ جون 1941 کی صبح سات بجے، موشے چھت پر مارے گئے ایک فرانسیسی فوجی کی دوربین سے سامنے کا جائزہ لے رہے تھے کہ دور سے فائر کی گئی ایک گولی ان کی بائیں آنکھ میں لگی۔ دوربین اور لوہے کے ٹکڑے ان کی آنکھ میں داخل ہو گئے۔ ان کا ساتھی مارٹ ان کے چہرے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر انھیں ٹرک میں ہسپتال لے گیا۔

چھ دن کی جنگ کے دوران پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے موشے دایان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چھ دن کی جنگ کے دوران پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے موشے دایان

شبتائی تاویش اپنی کتاب ‘موشے دایان: دی سولجر، دی مین، دی لیجنڈ’ میں لکھتی ہیں: ‘اس دوران موشے دیان نے نہ آہ بھری، نہ ہی چیخ و پکار کی، نہ روئے اور نہ ہی کوئی آہ بکا یا فریاد کی۔

ہسپتال پہنچتے ہی انھیں آپریشن تھیٹر لے جایا گیا لیکن ان کی چوٹ اتنی شدید تھی کہ سرجن کچھ نہ کر سکے۔ ان کے لیے ایک ہی آپشن رہ گیا تھا کہ وہ ان کی آنکھوں سے شیشے اور لوہے کے تمام ٹکڑے ہٹا کر آنکھوں کی خالی ساکٹ بند کر دیں۔

سنہ 1957 میں جنوبی افریقہ کے پلاسٹک سرجن ڈاکٹر جیک پین نے ان کی تباہ شدہ آنکھ کو شیشے کی آنکھ سے تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے بعد سے، موشے دایان نے اپنی بائیں آنکھ پر ایک سیاہ پٹی لگانی شروع کر دی، جو ساری زندگی ان کی پہچان بنی رہی۔

وہ ہمیشہ اس کے بارے میں ایک قسم کے کمپلیکس میں مبتلا رہے۔ جب بھی ان سے اس بارے میں کوئی سوال پوچھا جاتا تو وہ بے چین ہو جاتے۔ 2005 میں، ان کی موت کے 24 سال بعد، ان کی آنکھ کی وہ سیاہ پٹی 75,000 امریکی ڈالر میں نیلام ہوئی۔

मोशे दायान

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

وزیر زراعت اور وزیر دفاع کی ذمہ داری

موشے دایان آنکھ کی چوٹ کے بعد واپس آئے اور سنہ 1948 میں ہگاناہ کمانڈوز کے سربراہ بن گئے۔ اسی سال انھیں عربوں کے خلاف جنگ میں یروشلم محاذ کا کمانڈر بنایا گیا۔ سنہ 1953 میں وہ اسرائیلی فوج کے سربراہ بنے۔ سنہ 1956 میں انھوں نے اسرائیل کو عرب ممالک کے خلاف فتح دلائی۔

ایک سال بعد وہ فوج سے ریٹائر ہوئے اور سیاست میں آگئے۔ وہ بن گورین کابینہ میں وزیر زراعت بنائے گئے اور وہاں بھی اتنی ہی شہرت حاصل کی جتنی میدان جنگ میں۔

‘ٹائم’ میگزین نے اپنے 16 جون سنہ 1967 کے شمارے میں لکھا: ‘جب موشے دایان وزیر دفاع بنے تو ان کی ایک ہی شکایت تھی کہ انھیں اپنا زیادہ تر وقت میز کے پیچھے گزارنا پڑتا ہے، اور وہ اپنے فوجیوں کے ساتھ نہیں رہ پاتے ہیں۔’

موشے دایان کی پوری زندگی تضادات سے بھری ہوئی تھی۔ مائیکل ہیڈو، جنھوں نے دایان کا کئی بار انٹرویو کیا، لکھا: ‘وہ صرف دلائل کی خاطر کسی بھی خیال کو باطل کرنے میں لطف اندوز ہوتے تھے۔ اکثر انھیں اپنے انھی خیالات کو تنقید کا نشانہ بناتے دیکھا گیا، جن کی وہ ایک دن پہلے تعریف کی تھی۔ اسرائیلی ہونے کے باوجود عربوں کے لیے ان کے دل میں بہت احترام تھا۔ ان میں وہ بھی شامل تھے جنھوں نے 30 سال کی عمر میں ان کے گاؤں نہلال پر حملہ کیا تھا اور انھوں نے انہیں بری طرح پیٹا تھا۔‘

موشے اچھی طرح عربی بولنا جانتے تھے اور مصری رہنماؤں سے صرف عربی زبان میں ہی بات کرتے تھے۔

موشے دایان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دل پھینک شحص

مائیکل بی اورین اپنی کتاب ‘سکس ڈیز آف وار: جون 1967 اینڈ دی میکنگ آف دی ماڈرن مڈل ایسٹ’ میں لکھتے ہیں: ‘ایک شاعر اور بچوں کی کہانی لکھنے والے موشے دایان نے کھلے عام اعتراف کیا کہ وہ بچے پیدا کر کے دکھی ہیں۔

’وہ اپنی بے وفائی کے لیے بھی پورے اسرائیل میں بدنام تھے۔ انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ اگر انھیں ایک اور زندگی مل جائے تو وہ سنگل رہنا پسند کریں گے۔’

سنہ 1971 میں موشے کو ان کی پہلی بیوی روتھ دایان نے انھیں دوسری خاتون کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے طلاق دے دی تھی۔ طلاق کے دو سال بعد انھوں نے ایک طلاق یافتہ خاتون رشیل کریم سے شادی کی۔

اس شادی میں نہ تو موشے کے بچے اور نہ ہی رشیل کے اس کے سابق شوہر سے ہونے والے بچے شریک ہوئے۔

سرورق

،تصویر کا ذریعہPresidio Press

متضاد شخصیت

ان کے بارے میں لوگوں کے خیالات میں بڑا تفاوت تھا۔ ان کے کچھ میر امیت جیسے مداحوں نے انھیں ایک ‘حقیقی، دلیر، خالص اور مستعد کمانڈر کے طور پر بیان کیا، جن کے ہر عضو سے رعب ٹپکتا تھا۔’ جبکہ گیڈون رافیل جیسے ناقدین انھیں ایک مختلف شکل میں پیش کرتے ہیں۔

ان کے خیال میں ‘کشتی کو حرکت دینا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ وہ کشتی کو پوری طرح نہیں الٹتے تھے بلکہ اسے اتنی زور سے ہلاتے کہ کچھ ناپسندیدہ لوگ اس سے اچھل کر نیچے گر جائيں۔’

اسرائیل کے وزیر اعظم لیوائی ایشکول کی اہلیہ مریم ایشکول نے ذاتی طور پر ان کا موازنہ ایک عرب ڈاکو ابو جلدی سے کرتی تھیں کیونکہ اس کی بھی ایک آنکھ نہیں تھی۔

چھ روزہ جنگ کے موقے پر ربین (بائیں) اور فضائیہ کے سربراہ ہوڈ کے درمیان میں موشے کو دیکھا جا سکتا ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چھ روزہ جنگ کے موقے پر ربین (بائیں) اور فضائیہ کے سربراہ ہوڈ کے درمیان میں موشے کو دیکھا جا سکتا ہے

دایان 38 سال کی عمر میں اسرائیل کے آرمی چیف بنے۔ اس نے انتقام کی ایسی پالیسی اپنائی جس کی دنیا بھر میں مخالفت ہوئی لیکن اس پالیسی نے انھیں اپنے ملک میں بہت مقبول کردیا۔

گیڈین رافیل اپنی کتاب ‘Destination Peace: Three Decades of Israeli Foreign Policy’ میں لکھتے ہیں: ‘موشے دایان سولو پرفارمنس پر یقین رکھتے تھے۔ کچھ لوگ ان کی عزت کرتے تھے لیکن ان کے مبینہ سیاسی اسٹنٹ کی وجہ سے کچھ لوگ ان سے خوفزدہ بھی تھے۔’

دوسری طرف، اسرائیل کی پیراشوٹ بٹالین کے ڈپٹی کمانڈر گڈالیا گال کا خیال ہے کہ ‘دایان کی تقرری تازہ ہوا کی سانس کی طرح تھی۔ وہ تبدیلی کی علامت تھے۔’

یوم کپپور کی لڑائی میں بطور وزیر دفاع میدان جنگ کا دورہ کرتے ہوئے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یوم کپپور کی لڑائی میں بطور وزیر دفاع میدان جنگ کا دورہ کرتے ہوئے

یوم کپپور کی لڑائی میں ولن

موشے دایان کو لوگوں کی صحبت خاص طور پر سیاستدانوں کی صحبت پسند نہیں تھی۔ شبتائی تاویش لکھتی ہیں: ‘دایان کے ساتھی جانتے تھے کہ وہ صرف 15 سے 20 منٹ تک ان کی صحبتکو برداشت کر سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر مسکرانے لگیں تو اس کا مطلب تھا کہ ان کی ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ اگر کوئی ان اشاروں کو پڑھنے میں ناکام ہو جاتا تو چند منٹوں کے بعد دایان خود ہی کھڑے ہو جاتے اور انھیں الوداع کہہ دیتے۔ وہ یہ کہہ کر اپنے اس فعل کو درست قرار دیتے کہ انھیں وزیر اعظم بننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

موشے دایان کے اسرائیل میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز نہ ہونے کی وجہ ان کی ٹیم کے رکن کے طور پر کام نہ کرنے کی خواہش یا نااہلی تھی۔ لیکن 1973 کی یوم کپپور کی جنگ میں اسرائیلی فوجیوں کی ناقص تیاری کا الزام بھی ان کے سر منڈھ دیا گیا۔

انھوں نے پہلے عرب ممالک پر حملہ نہ کرنے کی وجہ یہ پیش کی تھی کہ وہ نہیں چاہتے کہ دنیا ان کے ملک کو حملہ آور سمجھے۔ انھوں نے جنگ کے فوراً بعد اسرائیلی عوام کے ایک بڑے حصے کا اعتماد کھو دیا۔

موشے دایان اسرائیل کی سابق وزیر اعظم گولڈا میئر کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

موشے دایان اسرائیل کی سابق وزیر اعظم گولڈا میئر کے ساتھ

دہلی میں مرار جی دیسائی سے خفیہ ملاقات

لیکن اس کے باوجود وہ میناچم بیگن کی کابینہ میں وزیر خارجہ بن گئے۔ انھوں نے مصر کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے بعد مغربی جانب فلسطینی عربوں کی آباد کاری کے معاملے پر بیگن کے ساتھ اختلافات کے باعث انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

وزیر خارجہ رہتے ہوئے انھوں نے سنہ 1977 میں خفیہ طور پر انڈیا کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے وزیر اعظم مرارجی دیسائی اور وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی سے ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی۔

مرارجی دیسائی کی حکومت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہشمند تھی، لیکن وہ عرب ممالک کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔

موشے دایان نے انڈیا کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔ مرارجی دیسائی نے مقبوضہ عرب علاقوں کو خالی کرنے اور فلسطینی عوام کو دوبارہ آباد کرنے کی اسرائیلی پالیسی میں تبدیلی کی شرط رکھی جسے دایان نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ ہو گا۔

مرارجی دیسائی نے انڈیا کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم کرنے اور اسرائیل کے سفر کی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا۔ بعد ازاں وکی لیکس کی طرف سے جاری کردہ امریکی سفارت خانے کی کیبل میں کہا گیا کہ مصری صدر انور سادات نے دیسائی سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے عمل میں انڈیا کے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے کی درخواست کی تھی۔

اسی سلسلے میں دیسائی نے موشے دایان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ تاہم بات چیت کا عمل آگے نہ بڑھ سکا اور دو سال کے اندر ہی مرارجی حکومت گر گئی۔ دوسری جانب موشے دایان نے بھی وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

موشے دایان درمیان میں جبکہ اسرائیل فوج کے سربراہ جنرل ربین دائیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

موشے دایان درمیان میں جبکہ اسرائیل فوج کے سربراہ جنرل ربین دائیں

دل کا دورہ پڑنے سے موت

جون سنہ 1979 میں موشے دایان کو بڑی آنت اور آنتوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ان کی دوسری آنکھ کی بینائی بھی کم ہو رہی ہے۔

دایان زندگی بھر سنگین بیماریوں سے لڑتے رہے تھے۔ ان کا گلے اور ہرنیا کا آپریشن بھی کیا گیا تھا۔ انھیں ہمیشہ کم سننے کی شکایت رہی تھی۔

وہ 16 اکتوبر سنہ 1981 کو دل کا دورہ پڑنے سے 66 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ ساری زندگی اسرائیلی عوام کے ‘ہیرو’ رہے لیکن ان کی سیاسی زندگی تنہائی سے دوچار رہی۔

مشہور اسرائیلی مصنف آموس ایلن کی نظر میں وہ ‘اداس، تنہا اور بلا کے باصلاحیت شخص’ تھے۔ ساتھ ہی وہ بہت ہوشیار، پرجوش اور دلکش بھی تھے جس کو لوگ پسند بھی کرتے تھے اور نفرت بھی۔

’موشے دایان ہمیشہ 100 نئے آئیڈیاز کے ساتھ بیدار ہوتے۔ ان میں سے 98 بہت خطرناک ہوتے تھے لیکن دو خیالات ایسے ہوتے کہ ان کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.