اسرائیل حماس تنازع: جنگ کی آڑ میں یہودی آباد کاروں کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, یولینڈے نیل اور ٹوبی لک ہرسٹ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

اسرائیلی فوج نے جمعے کے روز مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک حملے کے دوران فلسطینی مسلح گروہ حماس کے جنین کے سربراہ وسام خزیم اور دو دیگر جنگجوؤں کو ہلاک کردیا ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال میں واقع شہر جنین میں گذشتہ تین روز سے ایک بڑا فوجی آپریشن جاری ہے۔اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں مقبوضہ مغربی کنارے میں ہونے والی کارروائی سے متعلق کہا گیا ہے کہ اُس کی سکیورٹی فورسز نے وسام خزیم کی گاڑی کو جنین کے جنوب مشرق میں واقع زبابدہ قصبے میں نشانہ بنایا۔دوسری جانب فلسطینی میڈیا کے مطابق اسرائیلی افواج نے شہر کے پناہ گزین کیمپوں پر بھی شدید نوعیت کے حملے کیے۔گذشتہ بیس سالوں میں مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی یہ سب سے بڑی فوجی کارروائی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے میں گذشتہ تین دن کے دوران کم از کم 19 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جو دو دہائیوں میں اس علاقے میں ہلاک ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

اسرائیلی افواج کی جانب سے جمعرات کو سامنے آنے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس نے تلکرم میں مسلح گروہوں کے پانچ ارکان کو ہلاک کر دیا ہے جن میں ایک مقامی رہنما بھی شامل ہیں۔مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج نے حالیہ کارروائی سے متعلق اپنے ایک بیان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیلی افواج کی اس کارروائی کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں گذشتہ سال 7 اکتوبر کے حماس کے حملے کے بعد سے فوجی کارروائی جاری ہے اور اب تک اس میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔تاہم اب اس جنگ کے ساتھ ساتھ ایک اور معاملہ بھی سر اُٹھانے لگا ہے اور وہ ہے مقبوضہ مغربی کنارے کے اسرائیلی سرحد کے قریب کے علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری کا جہاں جنگ کی آڑ میں فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے اہم شہر بیت اللحم کا ایک سرحدی قصبہ بتیر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے اور اپنے زیتون اور انگور کے باغات کے لیے جانا جاتا ہے۔ تاہم اب یہ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسرائیل کی جانب سے بتیر میں ایک نئی یہودی بستی کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے بعد سے اس علاقے میں صدیوں سے آباد فلسطینیوں سے اُن کی زمینوں پر قبضے کی خبریں آرہی ہیں۔بتیر کے ایک رہائشی غسان اولیان کا کہنا ہے کہ ’وہ ہماری تباہی پر اپنے خوابوں کی تعمیر کے لیے ہماری زمین ہم سے ہی چھین رہے ہیں۔‘یونیسکو کا اس صورتحال پر کہنا ہے کہ اسے بتیر کے ارد گرد آباد کاروں کے منصوبوں پر تشویش ہے۔اولیان کہتے ہیں کہ ’وہ (اسرائیلی) بین الاقوامی قانون، مقامی قانون اور یہاں تک کہ خدا کے قانون کی پرواہ بھی نہیں کر رہے۔‘

،تصویر کا کیپشنبتیر کے ایک رہائشی غسان اولیان
گذشتہ ہفتے مُلک میں انٹیلی جنس کے سربراہ رونن بار نے اسرائیل کے وزرا کو خط لکھ کر متنبہ کیا تھا کہ مغربی کنارے میں یہودی انتہا پسند فلسطینیوں کے خلاف ’دہشت گردی‘ کی کارروائیاں میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے مُلک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں موجود یہودی آباکاری اور ان کی جانب سے بنائی جانے والی بستیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت میں موجود انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تبدیلیاں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے میں مدد فراہم کریں گی۔تاہم اس ساری صورتحال میں بعض حلقوں کی جانب سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول کے لیے غزہ میں جنگ کو طول دینا چاہتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنبتیر کا وہ علاقہ کہ جہاں یہودی آباد کار زمینوں پر قبضے کر رہے ہیں
بستیوں کی تعمیر پر نظر رکھنے والی اسرائیلی تنظیم ’پیس ناؤ‘ سے تعلق رکھنے والے یوناتان میزراہی کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی انتہا پسند پہلے سے کشیدہ اور غیر مستحکم صورت حال کو مزید خراب کر رہے ہیں۔جنگ شروع ہونے کے بعد سے مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں کے خلاف آبادکاروں کے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی جانب سے ان علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں گذشتہ 10 ماہ کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اُن کے پاس تقریبا 1270 حملوں کا اندراج کیا گیا ہے جبکہ سنہ 2022 میں یہ تعداد 856 تھی۔اسرائیل کی انسانی حقوق کی تنظیم ’بتسیلم‘ کے مطابق اسی عرصے کے دوران اسرائیلی آباد کاروں نے فلسطینیوں کو مغربی کنارے کے کم از کم 18 دیہاتوں سے بے دخل کیا ہے جو اسرائیل اور اردن کے درمیان فلسطینی علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد سے اس پر اُس کا قبضہ ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاقوام متحدہ کے مطابق 7 اکتوبر سے اگست 2024 کے درمیان مغربی کنارے میں 589 فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں سے کم از کم 570 اسرائیلی افواج اور کم از کم 11 آباد کاروں کے ہاتھوں مارے گئے۔مغربی کنارے کی بہت سی بستیوں کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے قانونی حمایت حاصل ہے۔ تاہم ان علاقوں میں کچھ آباد کار ایسے بھی ہیں کہ جنھیں اسرائیلی قانون کے تحت غیر قانونی بھی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود مقبوضہ مغربی کنارے اور خصوصاً جنین کے علاقے میں یہودی انتہا پسند مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔جولائی میں جب اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے پہلی بار مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دیا تو یہ کہا گیا تھا کہ ’ملک کو آبادکاری کی تمام سرگرمیاں روک دینی چاہیں اور جلد از جلد اس جگہ سے نکل جانا چاہیے یا اسے خالی کر دینا چاہیے۔‘اسرائیل کے مغربی اتحادی بارہا بستیوں کو امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے رہے ہیں۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے اس بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے ہمیشہ سے یہی کہا گیا ہے کہ ’یہودی اپنی سرزمین پر قابض نہیں ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}